بہترین نظم و نسق کا نقش
18 فروری 2008 کو عوام نے مستقبل کی تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا۔ عوام کو قوی امید تھی کہ ان کے ہاتھوں۔۔۔
18 فروری 2008 کو عوام نے مستقبل کی تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا۔ عوام کو قوی امید تھی کہ ان کے ہاتھوں کی لکیروں کو مثبت راستہ مل سکے گا۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔ ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکا اور 18 فروری 2008 کے پرامید پاکستانی عوام 11 مئی 2013 تک مصائب کی دلدل سے نہ نکل سکے۔ عوام کو جب جب بھی جمہوری حکومتیں منتخب کرنے کا موقع ملا، انھوں نے اسی امید کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا کہ اب شاید وطن عزیز کے مسائل پر قابو پا لیا جائے لیکن مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے گئے۔ ایک بار پھر انتخابات ہوئے ہیں، سیاستدانوں کی جانب سے بلند بانگ دعوے بھی ہوئے ہیں اور عوام نے ہر بار کی طرح اس بار بھی امید کی کرن سے اپنی آنکھوں کو جھلملا لیا ہے کہ شاید اس بار یہ وعدے اور دعوے سچ ثابت ہوں۔
وطن عزیز پاکستان کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ان میں سرِ فہرست دہشت گردی ہے، جس سے ملک کا کوئی کونہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں جب سے عسکریت پسندی کا ہولناک سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے امن و امان اور دل کا سکون درہم برہم دکھائی دیتا ہے۔ ملک میں تبدیلی کے افسانے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں، اس کے باوجود غریب عوام ایک طویل عرصے سے زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ایک اچھے نظم و نسق اور گڈ گورننس کا نقش قائم ہی نہیں ہو پایا۔ قدرت کا عجب کرشمہ ہے کہ اس یاس انگیز منظر نامے کی شاخوں سے امید کے غنچے پھوٹ رہے ہیں۔ ہماری افواج نے دہشت گردوں کے مقابلے میں جو عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے بڑی عالمی طاقتوں کو بھرپور احساس ہو گیا ہے کہ ہماری مسلح افواج وطن عزیز کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ داخلی سطح پر یہ امر بہت خوش آیند ہے کہ ہماری عسکری قیادت آئین اور سول اتھارٹی کے تحت اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہے اور اقتدار سے الگ تھلگ رہنا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ میں پوری طرح مستعد ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بھی افواج پاکستان کا کردار مثالی رہا اور میڈیا نے تو گویا جیسے پوری قوم کو خواب غفلت سے جگا کر ہی چھوڑا۔ ملک میں تا حال تبدیلی کے آثار دکھائی تو دے رہے ہیں مگر دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں لگتا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران کئی سیاسی جماعتیں دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں کا نشانہ بنتی رہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے ان جماعتوں نے دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ دہشت گردی کا یہ عفریت جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مہنگائی، بیروزگاری، برین واشنگ، آبادیوں پر کیے جانے والے ڈرون حملوں اور حکومتی سطح پر عوامی مسائل کو مستقل بنیادوں پر نظر انداز کرنے اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی روش سے پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔
آج ہمارے ملک میں بحرانوں کے جو طوفان امڈے چلے آ رہے ہیں، اس کا سب سے بڑا سبب اخلاقی اور تہذیبی قدروں کا زوال اور انسانی جذبوں کا انحطاط ہے۔ یہ کیفیت جو ہماری نفسیات کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اس نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان بے اعتمادی کا ایک خوفناک خلا پیدا کر دیا ہے اور معاشی معاہدے کے بجائے زیادہ تر اجتماعی معاملات وعدہ خلافی عیاری اور کم نظری کی گرفت میں آ چکے ہیں اور اب ہر آن کسی نہ کسی حادثے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دہشتگردی کی وارداتوں سے کچھ دیر کے لیے دھیان ہٹائیں تو مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کے بحران جیسے دیگر سنگین مسائل منہ کھولے قوم کا سکون نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ لوگ پریشان، مضطرب، ہراساں اپنے لیے بھی فکرمند اور ملک کے عدم استحکام کے اندیشوں سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ کرپشن، بدانتظامی، آئین و قانون کی خلاف ورزیوں اور الزام تراشیوں کی روز کی تازہ خبروں سے دل دہل جاتے ہیں۔
سیاست، سیاسی رویے، حکومت اور حکومتی عمل سنجیدگی کا متقاضی ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان میں ساری کی ساری سیاست نعرہ بازی اور الزام تراشیوں کے گرد گھوم رہی ہے اور ملک 1947کے بعد سے آج تک ایڈہاک ازم کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ''اسٹیٹس کو'' کی صورتحال سے دوچار ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ کسی ان دیکھی سازش کے تحت اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی اداروں میں بڑے پیمانے پر تصادم و ٹکرائو کی حکمت عملی سے کام لیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو آج تک ایک نامعلوم خلفشار کی سی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ میاں صاحب کو قوم نے ایک بار پھر زبردست مینڈیٹ دیا ہے تو اب انھیں چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اس بار قوم کو حقیقی تبدیلی فراہم کریں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کریں، بزرگ پنشنرز گھنٹوں بینکوں کی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں انھیں اس تکلیف سے نجات دلائیں، بیروزگاری جیسے خطرناک مرض کا ہنگامی بنیادوں پر علاج کیا جائے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے انتخابی جلسوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو پوری ایمانداری سے پورا کرنے کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ سیاسی مخالفین کو برداشت اور مل کر قومی مسائل کے حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ نظام جمہوریت میں مختلف سیاسی جماعتوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی اور قومی مسائل کے پائیدار حل اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ملکی جماعتوں کے ساتھ وسیع تر مشاورت اور قومی معاملات پر انھیں ساتھ لے کر چلنے کا اہتمام کیا جائے، اس سے نہ صرف جمہوریت کو استحکام حاصل ہو گا بلکہ پائیدار بنیادوں پر عوام کے مسائل کا حل بھی ممکن ہو سکے گا۔ جہاں تک فکری و نظریاتی بنیادوں پر تصادم اور محاذآرائی کا تعلق ہے، اس سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ سیاسی انتشار اور افراتفری عوام کے مسائل میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کی وکٹری اسپیچ خوش آیند اشارہ ہے جس میں انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھنے کا واضح پیغام دیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انتشار اور حکومت و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے مہم جو اور مفاد پرست عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ اس صورتحال نے جمہوریت، سیاستدانوں اور قومی سیاست پر بھی عوام کے اعتماد کو متزلزل کر کے رکھ دیا۔ گزشتہ انتخابات میں ووٹوں کے ٹرن اوور میں کمی اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس بار میڈیا کے آگاہی پروگرام کی بدولت عام شہری کو اپنے حق رائے دہی کی اہمیت کا احساس ہوا اور قوم ریکارڈ ٹرن آئوٹ کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر حق رائے دہی استعمال کرنے نہ صرف پہنچی بلکہ گھنٹوں کڑی دھوپ میں قطار لگائے اپنی باری آنے کا انتظار بھی کرتی نظر آئی۔ آج ملک کو جس دہشت گردی، معاشی بحران اور ان گنت دیگر مسائل کا سامنا ہے، اس کا حل میاں صاحب اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بھرپور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ملک اب مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا محض دعوئوں، وعدوں اور نعروں سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔
ورنہ اس قوم کو جہاں اتنے انتخابات کا ناکام تجربہ کرنا پڑا وہاں مزید ایک الیکشن کی کڑوی گولی اور سہی۔ وطن عزیز کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں دیانتدارانہ انتخابات کی روایت کبھی بھی مستحکم نہ ہو سکی۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، آئے روز کے دھرنے اور مظاہرے اس کے علاوہ ہیں۔ ان تمام معاملات سے قطع نظر انتخابات کسی حد تک مکمل ہو چکے ہیں اور جماعتوں کی پوزیشن بھی واضح ہو چکی ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے اندرونی اختلافات پس پشت رکھ کر ملک و قوم کے مفاد میں مل بیٹھ کر عوام کی خوشحالی اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مثبت لائحہ عمل ترتیب دیں۔
وطن عزیز پاکستان کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ان میں سرِ فہرست دہشت گردی ہے، جس سے ملک کا کوئی کونہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں جب سے عسکریت پسندی کا ہولناک سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے امن و امان اور دل کا سکون درہم برہم دکھائی دیتا ہے۔ ملک میں تبدیلی کے افسانے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں، اس کے باوجود غریب عوام ایک طویل عرصے سے زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ایک اچھے نظم و نسق اور گڈ گورننس کا نقش قائم ہی نہیں ہو پایا۔ قدرت کا عجب کرشمہ ہے کہ اس یاس انگیز منظر نامے کی شاخوں سے امید کے غنچے پھوٹ رہے ہیں۔ ہماری افواج نے دہشت گردوں کے مقابلے میں جو عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے بڑی عالمی طاقتوں کو بھرپور احساس ہو گیا ہے کہ ہماری مسلح افواج وطن عزیز کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ داخلی سطح پر یہ امر بہت خوش آیند ہے کہ ہماری عسکری قیادت آئین اور سول اتھارٹی کے تحت اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہے اور اقتدار سے الگ تھلگ رہنا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ میں پوری طرح مستعد ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بھی افواج پاکستان کا کردار مثالی رہا اور میڈیا نے تو گویا جیسے پوری قوم کو خواب غفلت سے جگا کر ہی چھوڑا۔ ملک میں تا حال تبدیلی کے آثار دکھائی تو دے رہے ہیں مگر دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں لگتا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران کئی سیاسی جماعتیں دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں کا نشانہ بنتی رہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے ان جماعتوں نے دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ دہشت گردی کا یہ عفریت جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مہنگائی، بیروزگاری، برین واشنگ، آبادیوں پر کیے جانے والے ڈرون حملوں اور حکومتی سطح پر عوامی مسائل کو مستقل بنیادوں پر نظر انداز کرنے اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی روش سے پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔
آج ہمارے ملک میں بحرانوں کے جو طوفان امڈے چلے آ رہے ہیں، اس کا سب سے بڑا سبب اخلاقی اور تہذیبی قدروں کا زوال اور انسانی جذبوں کا انحطاط ہے۔ یہ کیفیت جو ہماری نفسیات کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اس نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان بے اعتمادی کا ایک خوفناک خلا پیدا کر دیا ہے اور معاشی معاہدے کے بجائے زیادہ تر اجتماعی معاملات وعدہ خلافی عیاری اور کم نظری کی گرفت میں آ چکے ہیں اور اب ہر آن کسی نہ کسی حادثے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دہشتگردی کی وارداتوں سے کچھ دیر کے لیے دھیان ہٹائیں تو مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کے بحران جیسے دیگر سنگین مسائل منہ کھولے قوم کا سکون نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ لوگ پریشان، مضطرب، ہراساں اپنے لیے بھی فکرمند اور ملک کے عدم استحکام کے اندیشوں سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ کرپشن، بدانتظامی، آئین و قانون کی خلاف ورزیوں اور الزام تراشیوں کی روز کی تازہ خبروں سے دل دہل جاتے ہیں۔
سیاست، سیاسی رویے، حکومت اور حکومتی عمل سنجیدگی کا متقاضی ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان میں ساری کی ساری سیاست نعرہ بازی اور الزام تراشیوں کے گرد گھوم رہی ہے اور ملک 1947کے بعد سے آج تک ایڈہاک ازم کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ''اسٹیٹس کو'' کی صورتحال سے دوچار ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ کسی ان دیکھی سازش کے تحت اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی اداروں میں بڑے پیمانے پر تصادم و ٹکرائو کی حکمت عملی سے کام لیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو آج تک ایک نامعلوم خلفشار کی سی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ میاں صاحب کو قوم نے ایک بار پھر زبردست مینڈیٹ دیا ہے تو اب انھیں چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اس بار قوم کو حقیقی تبدیلی فراہم کریں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کریں، بزرگ پنشنرز گھنٹوں بینکوں کی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں انھیں اس تکلیف سے نجات دلائیں، بیروزگاری جیسے خطرناک مرض کا ہنگامی بنیادوں پر علاج کیا جائے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے انتخابی جلسوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو پوری ایمانداری سے پورا کرنے کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ سیاسی مخالفین کو برداشت اور مل کر قومی مسائل کے حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ نظام جمہوریت میں مختلف سیاسی جماعتوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی اور قومی مسائل کے پائیدار حل اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ملکی جماعتوں کے ساتھ وسیع تر مشاورت اور قومی معاملات پر انھیں ساتھ لے کر چلنے کا اہتمام کیا جائے، اس سے نہ صرف جمہوریت کو استحکام حاصل ہو گا بلکہ پائیدار بنیادوں پر عوام کے مسائل کا حل بھی ممکن ہو سکے گا۔ جہاں تک فکری و نظریاتی بنیادوں پر تصادم اور محاذآرائی کا تعلق ہے، اس سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ سیاسی انتشار اور افراتفری عوام کے مسائل میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کی وکٹری اسپیچ خوش آیند اشارہ ہے جس میں انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھنے کا واضح پیغام دیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انتشار اور حکومت و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے مہم جو اور مفاد پرست عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ اس صورتحال نے جمہوریت، سیاستدانوں اور قومی سیاست پر بھی عوام کے اعتماد کو متزلزل کر کے رکھ دیا۔ گزشتہ انتخابات میں ووٹوں کے ٹرن اوور میں کمی اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس بار میڈیا کے آگاہی پروگرام کی بدولت عام شہری کو اپنے حق رائے دہی کی اہمیت کا احساس ہوا اور قوم ریکارڈ ٹرن آئوٹ کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر حق رائے دہی استعمال کرنے نہ صرف پہنچی بلکہ گھنٹوں کڑی دھوپ میں قطار لگائے اپنی باری آنے کا انتظار بھی کرتی نظر آئی۔ آج ملک کو جس دہشت گردی، معاشی بحران اور ان گنت دیگر مسائل کا سامنا ہے، اس کا حل میاں صاحب اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بھرپور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ملک اب مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا محض دعوئوں، وعدوں اور نعروں سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔
ورنہ اس قوم کو جہاں اتنے انتخابات کا ناکام تجربہ کرنا پڑا وہاں مزید ایک الیکشن کی کڑوی گولی اور سہی۔ وطن عزیز کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں دیانتدارانہ انتخابات کی روایت کبھی بھی مستحکم نہ ہو سکی۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، آئے روز کے دھرنے اور مظاہرے اس کے علاوہ ہیں۔ ان تمام معاملات سے قطع نظر انتخابات کسی حد تک مکمل ہو چکے ہیں اور جماعتوں کی پوزیشن بھی واضح ہو چکی ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے اندرونی اختلافات پس پشت رکھ کر ملک و قوم کے مفاد میں مل بیٹھ کر عوام کی خوشحالی اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مثبت لائحہ عمل ترتیب دیں۔