اجرت مانگنے پر4 ہاریوں کیخلاف بھینس چوری کا مقدمہ 2 گرفتار
محنت کا معاوضہ مانگنے کی پاداش میں گھروں پر پولیس نے چڑھائی کر دی، مظاہرین
میرپورخاص میں پولیس گردی،وڈیرے سے محنت کا معاوضہ مانگنے پر 4 غریب ہاریوں پر بھینس چوری کا مقدمہ درج کر کے 2 کو گرفتار کر لیا جن میں سے ایک کو لاپتہ بھی کر دیا گیا۔
گمشدہ اور گرفتار ہاریوں کے بچوں اور خواتین سمیت 15 ہاری ظلم کی داستان سنانے اور انصاف کے حصول کیلیے ایوان صحافت میرپورخاص پہنچ گئے، خواتین اور بچوں نے روتے ہوئے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور نگراں وزیر اعلیٰ سندھ سے اس ظلم کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ ننگے پاؤں ہاری خواتین اور بچوں کی آہ و پکار سن کر بڑی تعداد میں شہری بھی وہاں پہنچ گئے۔ بھارو کولہی، رانو کولہی، شریمتی بھوری کولہی اور جیٹھی کولہی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ 2 برسوں سے زمیندار امید علی قائم خانی اور قادر قائم خانی کے ہاری تھے۔
زمیندار اور اس کے عملے کے تشدد اور خواتین سے بد کلامی سے تنگ آ کر زمیندار سے محنت کا معاوضہ مانگا اور کام چھوڑنے کا کہا ، یکم مئی کو اچانک ان کے گھروں پر مذکورہ زمیندار پھلاڈیوں پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ آئے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایااور ان کے 3 بچوں نوو کولہی، چترو کولہی اور لکھمن کولہی کو گرفتار کر لیا جبکہ پولیس 2 بھینسیں بھی لے گئی، بعد ازاں ان کے4 افراد بھارو، رانو، نوو، چترو پر بھینس چوری کا جھوٹا مقدمہ درج کر کے لکھمن کو لاپتہ کر دیا، 20 روز سے ان کے 2 بچے چترو اور نوو میرپورخاص کی ڈسٹرکٹ جیل میں بند ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، نگراں وزیر اعلیٰ سندھ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ ظالم وڈیروں اور پھلاڈیوں پولیس کیخلاف کارروائی اور لاپتہ نوجوان لکھمن کو بازیاب کرایا جائے۔ رابطہ کرنے پر مذکورہ مقدمہ درج کرنے والے سابق ایس ایچ او پھلاڈیوں رسول بخش تھہیم نے اعتراف کیا کہ ہاریوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
انکے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، لیکن یہ مقدمہ سابق ایس ایس پی سانگھڑ عاصم قائم خانی کے حکم پر درج کیا گیا جب کہ عاصم قائم خانی نے اس الزام کو مسترد کر دیا ۔ دریں اثنا سول سوسائٹی ، انسانی حقوق کی تنظٰیم اور ہاریوں کی جبری مشقت کیخلاف کام کرنیوالے سماجی رہنماؤں ایڈوکیٹ کانجی بھیل، سرون کمار اور دیگر نے وڈیروں کی غلامی کر کے بھینس چوری کی جھوٹی ایف آئی آر غریب ہاریوں پر درج کرنیکی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے ذمے داروں کیخلاف فوری کارروائی، گرفتار ہاریوں کی رہائی اور لاپتہ نوجوان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
گمشدہ اور گرفتار ہاریوں کے بچوں اور خواتین سمیت 15 ہاری ظلم کی داستان سنانے اور انصاف کے حصول کیلیے ایوان صحافت میرپورخاص پہنچ گئے، خواتین اور بچوں نے روتے ہوئے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور نگراں وزیر اعلیٰ سندھ سے اس ظلم کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ ننگے پاؤں ہاری خواتین اور بچوں کی آہ و پکار سن کر بڑی تعداد میں شہری بھی وہاں پہنچ گئے۔ بھارو کولہی، رانو کولہی، شریمتی بھوری کولہی اور جیٹھی کولہی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ 2 برسوں سے زمیندار امید علی قائم خانی اور قادر قائم خانی کے ہاری تھے۔
زمیندار اور اس کے عملے کے تشدد اور خواتین سے بد کلامی سے تنگ آ کر زمیندار سے محنت کا معاوضہ مانگا اور کام چھوڑنے کا کہا ، یکم مئی کو اچانک ان کے گھروں پر مذکورہ زمیندار پھلاڈیوں پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ آئے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایااور ان کے 3 بچوں نوو کولہی، چترو کولہی اور لکھمن کولہی کو گرفتار کر لیا جبکہ پولیس 2 بھینسیں بھی لے گئی، بعد ازاں ان کے4 افراد بھارو، رانو، نوو، چترو پر بھینس چوری کا جھوٹا مقدمہ درج کر کے لکھمن کو لاپتہ کر دیا، 20 روز سے ان کے 2 بچے چترو اور نوو میرپورخاص کی ڈسٹرکٹ جیل میں بند ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، نگراں وزیر اعلیٰ سندھ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ ظالم وڈیروں اور پھلاڈیوں پولیس کیخلاف کارروائی اور لاپتہ نوجوان لکھمن کو بازیاب کرایا جائے۔ رابطہ کرنے پر مذکورہ مقدمہ درج کرنے والے سابق ایس ایچ او پھلاڈیوں رسول بخش تھہیم نے اعتراف کیا کہ ہاریوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
انکے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، لیکن یہ مقدمہ سابق ایس ایس پی سانگھڑ عاصم قائم خانی کے حکم پر درج کیا گیا جب کہ عاصم قائم خانی نے اس الزام کو مسترد کر دیا ۔ دریں اثنا سول سوسائٹی ، انسانی حقوق کی تنظٰیم اور ہاریوں کی جبری مشقت کیخلاف کام کرنیوالے سماجی رہنماؤں ایڈوکیٹ کانجی بھیل، سرون کمار اور دیگر نے وڈیروں کی غلامی کر کے بھینس چوری کی جھوٹی ایف آئی آر غریب ہاریوں پر درج کرنیکی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے ذمے داروں کیخلاف فوری کارروائی، گرفتار ہاریوں کی رہائی اور لاپتہ نوجوان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔