مشرف دور کے بعد پہلی بار ن لیگ ہر جگہ اقتدار سے محروم
پارٹی قائدین کی جانب سے کامیاب سیاسی حکمت عملی نہ اپنانے کے باعث وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہی
SUKKUR:
مشرف دور کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن وفاق سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 127 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے پاس کل جنرل نشستیں 122 تھیں تاہم 29 آزاد اراکین کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے حکومت سازی کا راستہ ہموار کیا۔
اگر نواز لیگ کی قیادت بروقت آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کیلیے کوششیں کرتی تو تخت لاہور پر تحریک انصاف قبضہ نہ کرسکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی بلکہ ن لیگی رہنما وقت سے پہلے ہی ہار مان کر گھروں میں بیٹھ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ ن وفاق کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے بھرپور کوشش اور کامیاب سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ایوان میں اپنی عددی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔
اس وقت تحریک انصاف نے وفاق سمیت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنی حکومتیں قائم کی ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی اتحادی حکومت قائم کی ہے جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ ن وفاق کیساتھ کسی بھی صوبے میں حکومت قائم کرنے سے محروم ہوئی ہے۔
ن لیگ سے 10 سال بعد پنجاب کی حکمرانی چھن گئی
مسلم لیگ (ن) سے دس سال بعد سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی چھن گئی، پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 2 ووٹ کم ہوگئے ، 2 آزاد اراکین کے ووٹوں نے وزیر اعلی کے انتخاب کو دوسری رائے شماری سے بچا لیا۔
پی ٹی آئی اور ق لیگ کے امیدوار سردار عثمان بزدار کو 186 ووٹ ملے، وزیراعلی بننے کیلیے سادہ اکثریت کے لیے بھی 186 ووٹ ہی درکار تھے، اگر ایک ووٹ بھی کم ہوتا تو دوسری رائے شماری کرانا پڑتی۔
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی تیمور لالی علالت کی وجہ سے بروقت اسمبلی نہ پہنچ سکے اور اسپیکر ہونے کی وجہ سے چوہدری پرویز الہی بھی رائے شماری میں شامل نہ ہو سکے ، تحریک انصاف کو آزاد ارکان جگنو محسن ، احمد علی اولکھ اور راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم نے ووٹ دیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے بھی کم ووٹ ملے جس کے بعد ن لیگ میں فوری طور پر فارورڈ بلاک بننے کی باتیں بھی کم ہونے لگیں۔
پنجاب میں دس سال تک شہباز شریف جیسا مضبوط وزیراعلی رہا جو اپنے ترقیاتی کاموں اور محنت کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ایک بالکل نئے اور پسماندہ علاقے کے رکن اسمبلی کو قائد ایوان بنادیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں کس طرح کی کارکردگی دکھاتی ہے۔
مشرف دور کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن وفاق سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 127 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے پاس کل جنرل نشستیں 122 تھیں تاہم 29 آزاد اراکین کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے حکومت سازی کا راستہ ہموار کیا۔
اگر نواز لیگ کی قیادت بروقت آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کیلیے کوششیں کرتی تو تخت لاہور پر تحریک انصاف قبضہ نہ کرسکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی بلکہ ن لیگی رہنما وقت سے پہلے ہی ہار مان کر گھروں میں بیٹھ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ ن وفاق کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے بھرپور کوشش اور کامیاب سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ایوان میں اپنی عددی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔
اس وقت تحریک انصاف نے وفاق سمیت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنی حکومتیں قائم کی ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی اتحادی حکومت قائم کی ہے جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ ن وفاق کیساتھ کسی بھی صوبے میں حکومت قائم کرنے سے محروم ہوئی ہے۔
ن لیگ سے 10 سال بعد پنجاب کی حکمرانی چھن گئی
مسلم لیگ (ن) سے دس سال بعد سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی چھن گئی، پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 2 ووٹ کم ہوگئے ، 2 آزاد اراکین کے ووٹوں نے وزیر اعلی کے انتخاب کو دوسری رائے شماری سے بچا لیا۔
پی ٹی آئی اور ق لیگ کے امیدوار سردار عثمان بزدار کو 186 ووٹ ملے، وزیراعلی بننے کیلیے سادہ اکثریت کے لیے بھی 186 ووٹ ہی درکار تھے، اگر ایک ووٹ بھی کم ہوتا تو دوسری رائے شماری کرانا پڑتی۔
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی تیمور لالی علالت کی وجہ سے بروقت اسمبلی نہ پہنچ سکے اور اسپیکر ہونے کی وجہ سے چوہدری پرویز الہی بھی رائے شماری میں شامل نہ ہو سکے ، تحریک انصاف کو آزاد ارکان جگنو محسن ، احمد علی اولکھ اور راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم نے ووٹ دیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے بھی کم ووٹ ملے جس کے بعد ن لیگ میں فوری طور پر فارورڈ بلاک بننے کی باتیں بھی کم ہونے لگیں۔
پنجاب میں دس سال تک شہباز شریف جیسا مضبوط وزیراعلی رہا جو اپنے ترقیاتی کاموں اور محنت کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ایک بالکل نئے اور پسماندہ علاقے کے رکن اسمبلی کو قائد ایوان بنادیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں کس طرح کی کارکردگی دکھاتی ہے۔