گڈ لک عمران خان

نئی حکومت کو انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والی کسی شخصیت کو سامنے لانا چاہیے۔

نئی حکومت کو انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والی کسی شخصیت کو سامنے لانا چاہیے۔ فوٹو: فائل

GILGIT:
رواں برس کی ہی بات ہے، میں ان دنوں امریکا گیا ہوا تھا، ''ایکسپریس'' کے پرانے ساتھی سید اظفر امام نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا، وہاں ان کے وائس آف امریکا و دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی موجود تھے، اچانک پاکستانی سیاست پر بحث چھڑ گئی، میں سیاسی معاملات کی زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے خاموش بیٹھا رہا، اچانک نوجوان صحافی و اینکر اسد حسن کو نجانے کیا سوجھی کہ انھوں نے موبائل فون سے ویڈیو بنانا شروع کردی اور سب سے پوچھنے لگے پاکستان کے الیکشن میں کون جیتے گا؟

حیران کن طور پر بیشتر سینئر صحافیوں کوعمران خان سے کوئی امید نہ تھی اورانھیں لگتا تھا کہ اس بار بھی پی ٹی آئی بُری طرح ہارے گی، البتہ میری رائے مختلف تھی، میں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کی جماعت واضح اکثریت حاصل کرے گی کیونکہ پاکستانی عوام ملک کو لوٹ کھسوٹ کرکھانے والے لوگوں سے تنگ آچکی، خصوصاً نوجوان نسل تبدیلی چاہتی ہے، اسد اور شاید اظفر صاحب نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔

مجھے خوشی ہے کہ کروڑوں پاکستانی جس تبدیلی کا انتظار کر رہے تھے وہ اب آ چکی ہے، راتوں رات تو نہیں البتہ چند برسوں میں اس کا اندازہ بھی ہو جائے گا، ہم کرکٹ والوں کیلیے عمران خان کا وزیر اعظم بننا اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ خود سابق کپتان رہ چکے اور پاکستان کو 1992 میں ورلڈ چیمپئن بنوایا تھا، کرکٹ میں شاید ہی ان سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی دوسرا پاکستانی موجود ہوگا، عمران خان کے آنے سے ملکی کرکٹ کے مزید پھلنے پھولنے کی توقع ہے۔

ہمیں ایسا لگتا تھا کہ بطور وزیر اعظم وہ دیگر مسائل پر زیادہ توجہ دیں گے اور کرکٹ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوگی مگر ایسا نہیں ہے، گذشتہ دنوں اپنے سابق ساتھی کھلاڑیوں سے ملاقات میں انھوں نے یہ بات واضح کر دی کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ملکی کرکٹ کے مسائل حل کریں گے، سب سے پہلے تو چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی گھر واپسی یقینی لگتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے کرکٹ کی بہتری کیلیے کافی کام کیا مگر ان کے عمران خان سے تعلقات گذشتہ کئی برسوں سے انتہائی کشیدہ ہیں۔

حیرت اس بات کی ہے کہ پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں عہدے پر برقرار رکھا جائے گا، آئیڈیل صورتحال تو یہ بنتی ہے کہ نجم سیٹھی خود مستعفی ہوکر بورڈ کے نئے سرپرست اعلیٰ کو اپنی مرضی کا چیئرمین بنانے دیں مگر اب تک ایسا ہوا نہیں ہے، درمیان میں ایسا لگا کہ شاید وہ مستعفی ہو جائیں مگر پھر بعض قریبی شخصیات نے انھیں ''دیکھو اور انتظارکرو'' کا مشورہ دے دیا، میری عمران خان سے ملاقات کرنے والے کئی سابق اسٹارز سے بات چیت ہوئی تقریباً سب نے یہی کہا کہ وزیر اعظم نے کرکٹ بورڈ میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیا ہے۔

احسان مانی ان کے خاصے قریب ہیں، زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ چیئرمین کے کمرے پر ان کے نام کی تختی لگ جائے گی، البتہ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس طرح عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں سب کو سرپرائز دیا پی سی بی میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے مگر یہ بات درست ہے کہ احسان مانی بھی کرکٹ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ آئی سی سی میں کئی برس گذار چکے اور بخوبی واقف ہیں کہ کھیل کے معاملات کیسے چلانے ہیں۔

میری گزشتہ دنوں ان سے بات ہوئی تو انھوں نے یہ کہا تھا کہ ابھی کسی نے چیئرمین بنانے کیلیے رابطہ نہیں کیا، البتہ مجھے یقین ہے کہ اب اس حوالے سے بات چیت ضرور ہوچکی ہوگی، احسان مانی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ٹیلی ویژن رائٹس کے معاملات میں مدد کرتے رہے ہیں، نجم سیٹھی کے دور میں بھی انھوں نے اس حوالے سے کام کیا، بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیںکہ وہ دبئی کے ایک چینل کیلیے نرم گوشہ رکھتے تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس آپشنزکی بھی بہت کمی تھی۔


عمران خان نے عہدہ سنبھال لیا اب انھیں خوشامدیوں سے بھی بہت محتاط رہنا ہوگا، تقریب حلف برداری میں جو سابق کرکٹرز آگے بڑھ کر شریک ہوئے ان میں سے بیشتر سیاسی جدوجہد کے دوران ان سے دور بھاگتے تھے، صرف عبدالقادر اورکسی حد تک جاوید میانداد نے ہی ان کا ساتھ دیا، گوکہ لوگ کہتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کا سربراہ کسی کرکٹر کو ہونا چاہیے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے کرکٹرز انتظامی امور میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوتے۔

اعجاز بٹ کو جب چیئرمین بنایاگیا تو سب کو یاد ہوگا کہ انھوں نے کس طرح جواری کرکٹرز کے جھوٹے آنسوئوں کا شکار بن کر انگلینڈ اور آئی سی سی سے ہی ٹکر لے لی تھی، حالانکہ اگر وہ خود انھیں معطل کر دیتے اور کارروائی کراتے تو سچ سامنے آنے پر شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی، جاوید میانداد نے بھی بطور ڈی جی سوائے تنخواہ لینے کے کوئی کام نہ کیا تھا، ظہیر عباس سابقہ پنجاب حکومت سے کروڑوں روپے لیکر اب عمران خان کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔

کرکٹ کی کمان وقار یونس، انضمام الحق اور وسیم اکرم جیسے کسی سابق اسٹارکو سونپنے کا سوچنے سے بھی پہلے جسٹس قیوم کی رپورٹ کو یاد کرنا ضروری ہے، ذاکر خان تو میرٹ پرجی ایم بھی نہیں بن سکتے چیئرمین تو دور کی بات ہے۔

نئی حکومت کو انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والی کسی شخصیت کو سامنے لانا چاہیے، اس کی مدد کیلیے کرکٹ سے تعلق رکھنے والے افراد ساتھ موجود ہوں گے، اسی طرح معاملات بہتر انداز میں چل سکیں گے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رہنمائی کیلیے عمران خان جیسا لیڈر موجود ہوگا، ان کے آنے سے پی ایس ایل کو مزید بڑا برانڈ بنانے، ملک میں بڑی انٹرنیشنل ٹیموں کی آمد اور اگلے ورلڈکپ سے قبل مضبوط ون ڈے ٹیم کی تشکیل میں بھی یقیناً مدد ملے گی، البتہ وزیر اعظم سے ایک درخواست ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے جیسے بڑے فیصلے کرنے سے قبل سابق کرکٹرز سے رائے ضرور لیں۔

ویسے بھی میٹنگ میں عبدالقادر، جاوید میانداد اور معین خان نے اس کی مخالفت کر دی تھی، پہلے متبادل پلان سامنے رکھیں پھر کوئی قدم اٹھائیں، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آسٹریلیا ایک امیر ملک ہے وہاں کے کرکٹرز کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ گھر میں کھانا کیسے پکے گا، وہاں 6 ٹیمیں چل سکتی ہیں لیکن پاکستان کا معاملہ الگ ہے، یہاں بیشتر کرکٹرز غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ایک دم سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کی تو انھیں بہت مسئلہ ہوگا، ملک میں تو تبدیلی آگئی اب کرکٹ میں تبدیلیاں آتے آتے شاید چند ماہ لگ جائیں، ہمیں امید ہے کہ کپتان کے کمان سنبھالنے سے معاملات مزید بہتر ہی ہوں گے۔ گڈ لک عمران خان۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 
Load Next Story