خارجہ امور کی بساط
محض ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت میں کئی سال میں نے خارجہ امور پر بھی نگاہ رکھی ہے۔
نواز شریف صاحب کے اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے امکانات واضح ہوجانے کے بعد اخباری مضامین اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر خارجہ امور کے ماہر سمجھے جانے والے لوگوں کی اکثریت انھیں یہ سمجھانا شروع ہوگئی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دیرپا امن قائم کرنے کے اپنے ایجنڈے پر پھونک پھونک کر قدم رکھیں۔ لال حویلی کے عظیم مفکر تو اس بات پر پہلے ہی تلملانا شروع ہوگئے ہیں کہ نواز شریف نے ایک بھارتی صحافی سے کارگل معاملے پر تحقیق اور اس کے نتائج کو اس کے ملک کو آگاہ کرنے کا وعدہ کیوں کیا۔ ان کی اس بات پر بھی بہت لے دے ہو رہی ہے کہ انھوں نے بھارت کا دورہ کرنے کی خواہش کا اتنی بے تابی سے اظہار کیوں کیا۔
محض ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت میں کئی سال میں نے خارجہ امور پر بھی نگاہ رکھی ہے۔ مگر خود کو اس مشکل اور پیچیدہ شعبے کا کبھی ماہر نہیں سمجھا۔ ایک بات البتہ ضرور سمجھ میں آئی کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم خارجہ امور کے بارے میں وہی فیصلے کرتا ہے جو اس نے اپنے ذہن میں پہلے سے طے کررکھے ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے نواز شریف اور پھر جنرل مشرف کو میں نے کبھی اخبارات میں چھپے مضامین پڑھنے کے بعد کوئی پالیسی بناتے نہیں دیکھا۔ آصف علی زرداری صاحب بھی اس ضمن میں یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ مجھے ہرگز کوئی علم نہیں کہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد نواز شریف صاحب خارجہ امور کے حوالے سے کونسے فوری اقدامات اُٹھانا چاہیں گے۔ لیکن جب 2008ء میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے تو مجھے پتہ چل گیا کہ ان کی پارٹی کے سربراہ بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔
1984ء سے بارہا بھارت جاتا رہا ہوں۔ نئی دہلی پہنچنے کے بعد میری بڑی کوشش ہوتی تھی کہ وہاں جاکر خود کو چند مخصوص صحافیوں کے ساتھ ملاقاتوں تک محدود نہ رکھوں۔ اکثر دوپہر کا کھانا کھانے دلی کے پریس کلب چلاجاتا اور بھارت کے دوسرے بڑے شہروں سے علاقائی زبانوں میں شایع ہونے والے اخبارات کے وہاں مقیم نمایندوں سے گپ شپ لگانے کی کوشش کرتا۔ میری اس عادت کے سبب کلکتہ سے آئے ایک نمایندے سے کافی دوستی ہوگئی۔ ان کا تعلق اس حلقے سے تھا جہاں سے کانگریس کے ایک بہت بڑے رہ نما جو آج کل بھارت کے صدر بھی ہیں اپنے ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے تھے۔ پرناب مکھرجی کے ساتھ اس صحافی کی بڑی پرانی رفاقت تھی اور وہ کسی بھی وقت فون اُٹھاکر ان سے ملاقات کا وقت مانگ سکتے تھے۔
یوسف رضا گیلانی جب پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو پرناب مکھر جی ان دنوں بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ اس حیثیت میں وہ اسلام آباد آئے اور اپنے یہاں قیام کے دوران انھوں نے آصف علی زرداری سے بلاول ہائوس میں ایک لمبی ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کے فوری بعد بھارت سے آئے میرے بنگالی دوست ان سے ملنے چلے گئے۔ اپنے ہوٹل پہنچنے کے بعد اس صحافی نے مجھے فون کرکے ملاقات کا کہا۔ میں ان سے ملا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ پرناب مکھرجی آصف علی زرداری کی باتیں سن کر بہت حیران ہوئے کیونکہ اس ملاقات کے دوران وہ دیر تک ان شعبوں کا ذکر کرتے رہے جن میں باہمی تعاون بڑھا کر پاکستان اور بھارت اپنی اپنی معیشتوں کو بہت توانا بناسکتے ہیں۔ میں نے اس صحافی کی باتیں سن کر ذہن میں رکھ لیں اور چند روز بعد آصف علی زرداری سے ملاقات ہوگئی۔ تھوڑی تنہائی ملی تو ان سے پوچھ لیا کہ واقعی انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے فلاں فلاں باتیں کی تھی۔
وہ پہلے تو میری معلومات پر حیران ہوئے شاید سوچاہوکہ کسی نام نہاد''ایجنسی'' والے نے ان کی باتیں سن کر مجھے خبر کردی ہے۔ میں نے جب اپنا ذریعہ بتایا تو ذرا مطمئن ہوئے۔ میری باتوں کی تصدیق کی اور بڑی تفصیل سے ان شعبوں کا ذکر کیا جن میں ان کی نظر میں باہمی تعاون کے بہت امکانات موجود تھے۔ میں نے پھر بھی اس موضوع پر کوئی خبر نما چیز نہ لکھی نہ ٹی وی پر کہی۔ پھر ایک سفیر کے ہاں میری اس بھارتی سفارتکار سے ملاقات ہوگئی جو زرداری۔ مکھرجی ملاقات کے درمیان نوٹس لینے کے لیے موجود تھا۔ یاد رہے ان دنوں آصف علی زرداری اس ملک کے صدر منتخب نہیں ہوئے تھے۔ میں نے اس سفارتکار سے بس اتنا پوچھا کہ وہ آصف علی زرداری کے خیالات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
انھوں نے ترنت بڑی رعونت سے کہا کہ ''باتیں تو زرداری جی نے بڑی اچھی کی ہیں مگر ان کی پارٹی کی حکومت یہ سب کرنہیں پائے گی''۔ بھارت کے خیال میں گیلانی صاحب کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی جنرل مشرف کو خارجہ پالیسی کا واحد اور طاقت ور محرک سمجھا جارہا تھا۔ پھر مشرف بھی چلے گئے۔ پاکستان کا صدر بن جانے کے بعد ان کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے جو ملاقات ہوئی اس نے زرداری صاحب پر کوئی خوش گوار اثر نہ چھوڑا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے صدر کے ساتھ دریائی پانی کے بارے میں سندھ طاس معاہدے پر حقیقی اور مکمل عملدرآمد کے بارے میں تفصیلی بات چیت کرنے کو آمادہ نہ تھے۔
صدر بننے کے فوری بعد زرداری صاحب نے کرن تھاپر کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان بھارت کو ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی ضمانت دینے کو تیار ہے۔ ان کی جانب سے یہ پیشکش پاکستانی اخبارات میں خارجہ امور پر دقیق انگریزی میں لکھنے والے خواتین وحضرات کو بالکل نہ بھائی۔ ان کی جانب سے زرداری صاحب کی تمام تر لعن طعن کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے ان کے ریمارکس پر کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ پھر سانحہ ممبئی ہوگیا اور اس کے بعد کی کہانی ہم سب جانتے ہیں۔ دیکھتے ہیں نوازشریف صاحب کے باقاعدہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ امور کی بساط پر کیسے اور کس طرح ایک اورگیم کھلتی ہے۔
محض ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت میں کئی سال میں نے خارجہ امور پر بھی نگاہ رکھی ہے۔ مگر خود کو اس مشکل اور پیچیدہ شعبے کا کبھی ماہر نہیں سمجھا۔ ایک بات البتہ ضرور سمجھ میں آئی کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم خارجہ امور کے بارے میں وہی فیصلے کرتا ہے جو اس نے اپنے ذہن میں پہلے سے طے کررکھے ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے نواز شریف اور پھر جنرل مشرف کو میں نے کبھی اخبارات میں چھپے مضامین پڑھنے کے بعد کوئی پالیسی بناتے نہیں دیکھا۔ آصف علی زرداری صاحب بھی اس ضمن میں یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ مجھے ہرگز کوئی علم نہیں کہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد نواز شریف صاحب خارجہ امور کے حوالے سے کونسے فوری اقدامات اُٹھانا چاہیں گے۔ لیکن جب 2008ء میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے تو مجھے پتہ چل گیا کہ ان کی پارٹی کے سربراہ بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔
1984ء سے بارہا بھارت جاتا رہا ہوں۔ نئی دہلی پہنچنے کے بعد میری بڑی کوشش ہوتی تھی کہ وہاں جاکر خود کو چند مخصوص صحافیوں کے ساتھ ملاقاتوں تک محدود نہ رکھوں۔ اکثر دوپہر کا کھانا کھانے دلی کے پریس کلب چلاجاتا اور بھارت کے دوسرے بڑے شہروں سے علاقائی زبانوں میں شایع ہونے والے اخبارات کے وہاں مقیم نمایندوں سے گپ شپ لگانے کی کوشش کرتا۔ میری اس عادت کے سبب کلکتہ سے آئے ایک نمایندے سے کافی دوستی ہوگئی۔ ان کا تعلق اس حلقے سے تھا جہاں سے کانگریس کے ایک بہت بڑے رہ نما جو آج کل بھارت کے صدر بھی ہیں اپنے ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے تھے۔ پرناب مکھرجی کے ساتھ اس صحافی کی بڑی پرانی رفاقت تھی اور وہ کسی بھی وقت فون اُٹھاکر ان سے ملاقات کا وقت مانگ سکتے تھے۔
یوسف رضا گیلانی جب پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو پرناب مکھر جی ان دنوں بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ اس حیثیت میں وہ اسلام آباد آئے اور اپنے یہاں قیام کے دوران انھوں نے آصف علی زرداری سے بلاول ہائوس میں ایک لمبی ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کے فوری بعد بھارت سے آئے میرے بنگالی دوست ان سے ملنے چلے گئے۔ اپنے ہوٹل پہنچنے کے بعد اس صحافی نے مجھے فون کرکے ملاقات کا کہا۔ میں ان سے ملا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ پرناب مکھرجی آصف علی زرداری کی باتیں سن کر بہت حیران ہوئے کیونکہ اس ملاقات کے دوران وہ دیر تک ان شعبوں کا ذکر کرتے رہے جن میں باہمی تعاون بڑھا کر پاکستان اور بھارت اپنی اپنی معیشتوں کو بہت توانا بناسکتے ہیں۔ میں نے اس صحافی کی باتیں سن کر ذہن میں رکھ لیں اور چند روز بعد آصف علی زرداری سے ملاقات ہوگئی۔ تھوڑی تنہائی ملی تو ان سے پوچھ لیا کہ واقعی انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے فلاں فلاں باتیں کی تھی۔
وہ پہلے تو میری معلومات پر حیران ہوئے شاید سوچاہوکہ کسی نام نہاد''ایجنسی'' والے نے ان کی باتیں سن کر مجھے خبر کردی ہے۔ میں نے جب اپنا ذریعہ بتایا تو ذرا مطمئن ہوئے۔ میری باتوں کی تصدیق کی اور بڑی تفصیل سے ان شعبوں کا ذکر کیا جن میں ان کی نظر میں باہمی تعاون کے بہت امکانات موجود تھے۔ میں نے پھر بھی اس موضوع پر کوئی خبر نما چیز نہ لکھی نہ ٹی وی پر کہی۔ پھر ایک سفیر کے ہاں میری اس بھارتی سفارتکار سے ملاقات ہوگئی جو زرداری۔ مکھرجی ملاقات کے درمیان نوٹس لینے کے لیے موجود تھا۔ یاد رہے ان دنوں آصف علی زرداری اس ملک کے صدر منتخب نہیں ہوئے تھے۔ میں نے اس سفارتکار سے بس اتنا پوچھا کہ وہ آصف علی زرداری کے خیالات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
انھوں نے ترنت بڑی رعونت سے کہا کہ ''باتیں تو زرداری جی نے بڑی اچھی کی ہیں مگر ان کی پارٹی کی حکومت یہ سب کرنہیں پائے گی''۔ بھارت کے خیال میں گیلانی صاحب کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی جنرل مشرف کو خارجہ پالیسی کا واحد اور طاقت ور محرک سمجھا جارہا تھا۔ پھر مشرف بھی چلے گئے۔ پاکستان کا صدر بن جانے کے بعد ان کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے جو ملاقات ہوئی اس نے زرداری صاحب پر کوئی خوش گوار اثر نہ چھوڑا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے صدر کے ساتھ دریائی پانی کے بارے میں سندھ طاس معاہدے پر حقیقی اور مکمل عملدرآمد کے بارے میں تفصیلی بات چیت کرنے کو آمادہ نہ تھے۔
صدر بننے کے فوری بعد زرداری صاحب نے کرن تھاپر کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان بھارت کو ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی ضمانت دینے کو تیار ہے۔ ان کی جانب سے یہ پیشکش پاکستانی اخبارات میں خارجہ امور پر دقیق انگریزی میں لکھنے والے خواتین وحضرات کو بالکل نہ بھائی۔ ان کی جانب سے زرداری صاحب کی تمام تر لعن طعن کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے ان کے ریمارکس پر کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ پھر سانحہ ممبئی ہوگیا اور اس کے بعد کی کہانی ہم سب جانتے ہیں۔ دیکھتے ہیں نوازشریف صاحب کے باقاعدہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ امور کی بساط پر کیسے اور کس طرح ایک اورگیم کھلتی ہے۔