مناظرہ مکالمہ اور خود کلامی
مہذب ملکوں اور معاشروں میں اختلافی امور پر بحث مباحثہ اور بات چیت کرنے کے کچھ طے شدہ اصول ہیں...
مہذب ملکوں اور معاشروں میں اختلافی امور پر بحث مباحثہ اور بات چیت کرنے کے کچھ طے شدہ اصول ہیں۔ جن سے جزوی سطح پر تو شائد اختلاف ممکن ہو کہ ان کی ترتیب اور تدوین مغربی دنیا کی تعلیمی، ذہنی، معاشی اور تہذیبی فضا کے مطابق کی گئی ہے لیکن عمومی سطح پر ان کا اطلاق پوری نوعِ آدم پر ہوتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض صورتوں میں پسماندہ اور نیم ترقی یافتہ معاشرے ہی نہیں بلکہ یہ ''مہذب اور حاکم'' دنیا بھی مناظرے، مکالمے اور خود کلامی کے درمیانی فرق کو نظر انداز کر جاتی ہے۔ جس کی دو زندہ اور حالیہ مثالیں امریکا اور نیٹو ممالک کے عراق اور افغانستان پر حملے ہیں کہ اس سارے عمل میں مکالمے کو خاطر میں لائے بغیر ایک جعلی مناظرے اور بے معنی قسم کی خود کلامی سے کام لیا گیا ہے۔ جس کے شور میں کسی نے ان دونوں تباہ کیے جانے والے ملکوں کی بات تک سننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اکثر صورتوں میں مشترکہ مقصد کے حصول کے بعد کامیاب ہونے والے ساتھیوں اور کامریڈوں کے درمیان مستقبل کے بندوبست کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، دور کیوں جایئے روسی انقلاب کے بعد لینن، ٹراٹسکی اور اسٹالن کے درمیان پیدا شدہ اختلافات یا چینی انقلاب کے بعد مائو اور ''چو این لائی کے بعد کی نسل (جو ان کی انقلابی جدوجہد کے سائے میں پروان چڑھی اور ان کا بے حد احترام بھی کرتی تھی) کے درمیان مستقبل کے چین کے حوالے سے پالیسی اختلافات پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے۔ صاف واضح ہو جائے گا کہ منزل کے حصول کے بعد ''ہم سفر'' کس کس طرح کے مرحلوں سے گزر سکتے ہیں۔
اب اگر ان مندرجہ بالا دونوں باتوں کو اس وقت ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے درمیان جاری لفظوں کی جنگ کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں ایک سے زیادہ مماثلتیں ہیں تحریک انصاف کا عالم فی الوقت 1917ء کے روس اور 1948ء کے چین جیسا ہے جب کہ ایم کیو ایم ان دنوں 1950ء کے روس اور 1980ء کے چین کی سی کیفیت میں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ الطاف حسین صا حب کی قیادت میں ایم کیو ایم نے تقریباً 15 سال کی شدید اور انقلابی جدوجہد کے بعد صوبہ سندھ کے چار بڑے شہروں میں مقبول ترین جماعت کا اعزاز اور مقام حاصل کیا اور آیندہ تقریباً تیس برس تک وہ ان چاروں شہروں کی مقبول ترین جماعت چلی آ رہی ہے اور اس کا یہ نعرہ کہ پاکستان کا مستقبل پیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے بجائے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے بہت کامیاب رہا ہے اس اثنا میں انھوں نے مہاجر کے لفظ کو متحدہ سے تبدیل کر کے اپنے لہجے اور دعویٰ میں مزید طاقت اور دلکشی بھی پیدا کی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اس سارے عمل میں وقت کے ساتھ ساتھ اگلی نسل ''نشئہ قوتّ ہے خطرناک'' کے امتحان سے بھی گزری ہے اور قدرتی طور پر اس میں ایسے عناصر بھی پیدا ہو گئے ہیں جو بوجوہ اپنی سنجیدہ اور نظریاتی قیادت کے قابو سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔
الطاف بھائی سے تو مجھے براہِ راست ملنے کا موقع نہیں ملا لیکن ادب کے حوالے سے خوش بخت شجاعت، رئوف صدیقی، حیدر عباس رضوی اور فیصل سبز واری سمیت کچھ اور احباب سے رابطہ رہا ہے اور میں نے ان سب کو عمومی طور پر بہت سمجھ دار، مہذب، معاملہ فہم اور محبِ وطن پایا ہے یہ سب اپنے لیڈر سے غیر مشروط محبت بھی کرتے ہیں اور ان کے فرماں بردار بھی ہیں اور کم و بیش یہی معاملہ ایم کیو ایم کے تمام نمایندہ لیڈروں کا ہے جو اپنی جگہ پر ایک بہت مستحسن بات ہے لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کی اس عقیدت مندی کی وجہ سے الطاف بھائی ''اکیلے'' ہوتے جا رہے ہیں۔
اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ان کی مکانی دُوری کوئی بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی لیکن پے در پے رونما ہونے والے واقعات پر ساتھیوں سے مناسب مشورہ کرنے کی مہلت کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے بعض اوقات وہ ایسے ردِّعمل کا اظہار کر جاتے ہیں جس پر خود انھیں بھی نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اس اثنا میں ان کے عقیدت مند اُس بات کو اتنا آگے لے جاتے ہیں کہ معمولی سا زخم بھی ناسور کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کی بہت سی مثالیں حالیہ دور میں سامنے آئی ہیں جن میں سے تازہ ترین ایم کیو ایم کی عمران خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ہے لیکن ٹھہریئے اس کے ذکر سے پہلے چند باتیں عمران خان اور تحریک انصاف کے روّیوں کے بارے میں بھی ہو جائیں تا کہ اس معاملے کو وسیع تر پس منظر اور پیش منظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی بنیاد میں عمران خان کا نعرہ بھی کسی نہ کسی حد تک ایم کیو ایم کے نعرے سے ملتا جلتا ہے کہ دونوں ہی عام آدمی، انصاف، تعلیم اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں اور دونوں کے نزدیک وڈیرا شاہی اور جاگیرداری انسان اور عوام دشمن نظام ہیں۔ جن سے آزادِی حاصل کیے بغیر معاشرے میں کوئی بامعنی تبدیلی ممکن نہیں اس کے باوجود اگر دونوں جماعتوں میں اختلافات ہیں تو مسئلہ ان اختلافات کے پوسٹ مارٹم کا نہیں بلکہ ان کی وجوہات کو سمجھنے کا ہے۔
ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت بے شک تبدیل نہ ہوئی ہو مگر اس کے نچلے درجے کی قیادت میں اب دوسری اور بعض صورتوں میں تیسری نسل بھی جگہ بنا چکی ہے جب کہ تحریک انصاف کی ہر سطح کی قیادت ابھی ایک ہی طرح کے نفسیاتی عمل سے گزر رہی ہے (انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے نام پر نوجوان نسل کا کوئی مخصوص گروہ اگر غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہا ہے تو اُسے تحریکِ انصاف کا باقاعدہ نمایندہ سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی) عمران خان اور تحریکِ انصاف نے تبدیلی، کے جوش میں انتخابی مہم کی حد تک گزشتہ حکومت اور اس کے تمام ساتھیوں کے خلاف مستقبل میں ہر طرح کے تعاون سے انکار کا نعرہ لگایا تھا۔ ظاہر ہے ایم کیو ایم کا شمار بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسی صف میں ہوتا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کی بہتری کے حوالے سے وہی عمران خان اگر میاں نواز شریف سے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھا سکتا ہے تو اصولا اُسے ایم کیو ایم سے دونوں ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا چاہیے کہ یہ جماعت ان بہت سی شرائط کو پورا کرتی ہے جن میں شائد مسلم لیگ ن نسبتا پیچھے ہے۔
اب اس تناظر میں کراچی کے الیکشن میں کہیں کہیں تحریک انصاف کی مقبولیت اور اس کے ردّعمل میں ایم کیو ایم کے تیس سالہ مکمل اقتدار کو سامنے رکھا جائے تو دونوں اطراف کے کارکنان کی ذہنی فضا کو سمجھنا کوئی بہت مشکل یا انوکھا کام نہیں ہو گا سو ہم نے دیکھا کہ دونوں طرف سے دھرنے دیے گئے۔ یہاں تک تو یہ معاملہ سمجھ میں آنے والا ہے کہ یہ عمل اور اس کا ردّعمل دونوں اپنی بنیاد میں فطری ہیں اور بلاشبہ مکالمے کے ذریعے ایک ایسا راستہ نکالا جا سکتا ہے (اور عنقریب نکل بھی آئے گا) جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے مل کر زندہ رہنا سیکھ لیں گے لیکن یہ جو تحریک انصاف کی ایک لیڈر محترمہ زہرہ خاتون کے قتل کے حوالے سے دونوں جماعتوں میں مناظرہ بازی شروع ہو گئی ہے اس پر سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگر تحریک انصاف کے قائد نے اس واقعے کی ذمے داری ایم کیو ایم اور الطاف بھائی پر ڈالی ہے اور مان لیجیئے کہ غلط ڈالی ہے تب بھی جس انداز اور لہجے میں الطاف بھائی کے عقیدت مندوں نے اپنے قائد کی ''توہین'' کے حوالے سے عمران خان پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے وہ بھی اتنا ہی قابلِ اعتراض اور غیر ذمے دارانہ ہے جتنا کہ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے تحریک انصاف کے ان ''عاشقوں'' کے بیانا ت کہ جن کو خود تحریک انصاف کی قیادت بھی اپنا باقاعدہ نمایندہ تسلیم نہیں کرتی ۔
دونوں جماعتیں نہ صرف نسبتاً وطنِ عزیز کے تعلیم یافتہ طبقوں پر مشتمل اور تعلیم کی ترقی کی علم بردار ہیں بلکہ دونوں ہی اپنے اپنے لیڈر کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حسّاس ہیں ایسے میں مناظرہ بازی ہو یا خود کلامی یعنی Monlogueدونوں ہی سے صورتِ حال سدھر نے کے بجائے مزید خراب ہو گی سو ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف یہ دونوں جماعتیں بلکہ تمام مرکزی جماعتیں (اپنے اپنے نظریاتی تشخص کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ) مکالمے کا راستہ اختیار کریں۔ مجھے یقین ہے کہ جب لیڈر آپس میں بات چیت شروع کریں گے تو ان کے معتقدین کو بھی یہ پیغام واضح لفظوں میں مل جائے گا کہ
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اکثر صورتوں میں مشترکہ مقصد کے حصول کے بعد کامیاب ہونے والے ساتھیوں اور کامریڈوں کے درمیان مستقبل کے بندوبست کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، دور کیوں جایئے روسی انقلاب کے بعد لینن، ٹراٹسکی اور اسٹالن کے درمیان پیدا شدہ اختلافات یا چینی انقلاب کے بعد مائو اور ''چو این لائی کے بعد کی نسل (جو ان کی انقلابی جدوجہد کے سائے میں پروان چڑھی اور ان کا بے حد احترام بھی کرتی تھی) کے درمیان مستقبل کے چین کے حوالے سے پالیسی اختلافات پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے۔ صاف واضح ہو جائے گا کہ منزل کے حصول کے بعد ''ہم سفر'' کس کس طرح کے مرحلوں سے گزر سکتے ہیں۔
اب اگر ان مندرجہ بالا دونوں باتوں کو اس وقت ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے درمیان جاری لفظوں کی جنگ کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں ایک سے زیادہ مماثلتیں ہیں تحریک انصاف کا عالم فی الوقت 1917ء کے روس اور 1948ء کے چین جیسا ہے جب کہ ایم کیو ایم ان دنوں 1950ء کے روس اور 1980ء کے چین کی سی کیفیت میں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ الطاف حسین صا حب کی قیادت میں ایم کیو ایم نے تقریباً 15 سال کی شدید اور انقلابی جدوجہد کے بعد صوبہ سندھ کے چار بڑے شہروں میں مقبول ترین جماعت کا اعزاز اور مقام حاصل کیا اور آیندہ تقریباً تیس برس تک وہ ان چاروں شہروں کی مقبول ترین جماعت چلی آ رہی ہے اور اس کا یہ نعرہ کہ پاکستان کا مستقبل پیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے بجائے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے بہت کامیاب رہا ہے اس اثنا میں انھوں نے مہاجر کے لفظ کو متحدہ سے تبدیل کر کے اپنے لہجے اور دعویٰ میں مزید طاقت اور دلکشی بھی پیدا کی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اس سارے عمل میں وقت کے ساتھ ساتھ اگلی نسل ''نشئہ قوتّ ہے خطرناک'' کے امتحان سے بھی گزری ہے اور قدرتی طور پر اس میں ایسے عناصر بھی پیدا ہو گئے ہیں جو بوجوہ اپنی سنجیدہ اور نظریاتی قیادت کے قابو سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔
الطاف بھائی سے تو مجھے براہِ راست ملنے کا موقع نہیں ملا لیکن ادب کے حوالے سے خوش بخت شجاعت، رئوف صدیقی، حیدر عباس رضوی اور فیصل سبز واری سمیت کچھ اور احباب سے رابطہ رہا ہے اور میں نے ان سب کو عمومی طور پر بہت سمجھ دار، مہذب، معاملہ فہم اور محبِ وطن پایا ہے یہ سب اپنے لیڈر سے غیر مشروط محبت بھی کرتے ہیں اور ان کے فرماں بردار بھی ہیں اور کم و بیش یہی معاملہ ایم کیو ایم کے تمام نمایندہ لیڈروں کا ہے جو اپنی جگہ پر ایک بہت مستحسن بات ہے لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کی اس عقیدت مندی کی وجہ سے الطاف بھائی ''اکیلے'' ہوتے جا رہے ہیں۔
اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ان کی مکانی دُوری کوئی بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی لیکن پے در پے رونما ہونے والے واقعات پر ساتھیوں سے مناسب مشورہ کرنے کی مہلت کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے بعض اوقات وہ ایسے ردِّعمل کا اظہار کر جاتے ہیں جس پر خود انھیں بھی نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اس اثنا میں ان کے عقیدت مند اُس بات کو اتنا آگے لے جاتے ہیں کہ معمولی سا زخم بھی ناسور کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کی بہت سی مثالیں حالیہ دور میں سامنے آئی ہیں جن میں سے تازہ ترین ایم کیو ایم کی عمران خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ہے لیکن ٹھہریئے اس کے ذکر سے پہلے چند باتیں عمران خان اور تحریک انصاف کے روّیوں کے بارے میں بھی ہو جائیں تا کہ اس معاملے کو وسیع تر پس منظر اور پیش منظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی بنیاد میں عمران خان کا نعرہ بھی کسی نہ کسی حد تک ایم کیو ایم کے نعرے سے ملتا جلتا ہے کہ دونوں ہی عام آدمی، انصاف، تعلیم اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں اور دونوں کے نزدیک وڈیرا شاہی اور جاگیرداری انسان اور عوام دشمن نظام ہیں۔ جن سے آزادِی حاصل کیے بغیر معاشرے میں کوئی بامعنی تبدیلی ممکن نہیں اس کے باوجود اگر دونوں جماعتوں میں اختلافات ہیں تو مسئلہ ان اختلافات کے پوسٹ مارٹم کا نہیں بلکہ ان کی وجوہات کو سمجھنے کا ہے۔
ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت بے شک تبدیل نہ ہوئی ہو مگر اس کے نچلے درجے کی قیادت میں اب دوسری اور بعض صورتوں میں تیسری نسل بھی جگہ بنا چکی ہے جب کہ تحریک انصاف کی ہر سطح کی قیادت ابھی ایک ہی طرح کے نفسیاتی عمل سے گزر رہی ہے (انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے نام پر نوجوان نسل کا کوئی مخصوص گروہ اگر غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہا ہے تو اُسے تحریکِ انصاف کا باقاعدہ نمایندہ سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی) عمران خان اور تحریکِ انصاف نے تبدیلی، کے جوش میں انتخابی مہم کی حد تک گزشتہ حکومت اور اس کے تمام ساتھیوں کے خلاف مستقبل میں ہر طرح کے تعاون سے انکار کا نعرہ لگایا تھا۔ ظاہر ہے ایم کیو ایم کا شمار بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسی صف میں ہوتا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کی بہتری کے حوالے سے وہی عمران خان اگر میاں نواز شریف سے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھا سکتا ہے تو اصولا اُسے ایم کیو ایم سے دونوں ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا چاہیے کہ یہ جماعت ان بہت سی شرائط کو پورا کرتی ہے جن میں شائد مسلم لیگ ن نسبتا پیچھے ہے۔
اب اس تناظر میں کراچی کے الیکشن میں کہیں کہیں تحریک انصاف کی مقبولیت اور اس کے ردّعمل میں ایم کیو ایم کے تیس سالہ مکمل اقتدار کو سامنے رکھا جائے تو دونوں اطراف کے کارکنان کی ذہنی فضا کو سمجھنا کوئی بہت مشکل یا انوکھا کام نہیں ہو گا سو ہم نے دیکھا کہ دونوں طرف سے دھرنے دیے گئے۔ یہاں تک تو یہ معاملہ سمجھ میں آنے والا ہے کہ یہ عمل اور اس کا ردّعمل دونوں اپنی بنیاد میں فطری ہیں اور بلاشبہ مکالمے کے ذریعے ایک ایسا راستہ نکالا جا سکتا ہے (اور عنقریب نکل بھی آئے گا) جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے مل کر زندہ رہنا سیکھ لیں گے لیکن یہ جو تحریک انصاف کی ایک لیڈر محترمہ زہرہ خاتون کے قتل کے حوالے سے دونوں جماعتوں میں مناظرہ بازی شروع ہو گئی ہے اس پر سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگر تحریک انصاف کے قائد نے اس واقعے کی ذمے داری ایم کیو ایم اور الطاف بھائی پر ڈالی ہے اور مان لیجیئے کہ غلط ڈالی ہے تب بھی جس انداز اور لہجے میں الطاف بھائی کے عقیدت مندوں نے اپنے قائد کی ''توہین'' کے حوالے سے عمران خان پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے وہ بھی اتنا ہی قابلِ اعتراض اور غیر ذمے دارانہ ہے جتنا کہ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے تحریک انصاف کے ان ''عاشقوں'' کے بیانا ت کہ جن کو خود تحریک انصاف کی قیادت بھی اپنا باقاعدہ نمایندہ تسلیم نہیں کرتی ۔
دونوں جماعتیں نہ صرف نسبتاً وطنِ عزیز کے تعلیم یافتہ طبقوں پر مشتمل اور تعلیم کی ترقی کی علم بردار ہیں بلکہ دونوں ہی اپنے اپنے لیڈر کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حسّاس ہیں ایسے میں مناظرہ بازی ہو یا خود کلامی یعنی Monlogueدونوں ہی سے صورتِ حال سدھر نے کے بجائے مزید خراب ہو گی سو ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف یہ دونوں جماعتیں بلکہ تمام مرکزی جماعتیں (اپنے اپنے نظریاتی تشخص کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ) مکالمے کا راستہ اختیار کریں۔ مجھے یقین ہے کہ جب لیڈر آپس میں بات چیت شروع کریں گے تو ان کے معتقدین کو بھی یہ پیغام واضح لفظوں میں مل جائے گا کہ
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے