مودبانہ گذارش ہے

انسان کی صدیوں کی جدوجہد اور ذہنی، علمی، تخیلاتی اورتخلیقی ارتقاء کے نتیجے میں صنعتی انقلاب نے جنم لیا۔

muqtidakhan@hotmail.com

انسان کی صدیوں کی جدوجہد اور ذہنی، علمی، تخیلاتی اورتخلیقی ارتقاء کے نتیجے میں صنعتی انقلاب نے جنم لیا۔ جس نے صدیوں پرانے پیداواری نظام کو تبدیل کرنے کے ساتھ نئے سیاسی وسماجی نظام کی بھی بنیاد رکھی۔سماج پر فرد واحد کی برتری وبزرگی کا خاتمہ اور اجتماعیت کے تصورکو فروغ حاصل ہوا۔یوں عقلیت پسندی، روشن خیالی اور فکری کثرتیت کے لیے قبولیت نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے ارفع و اعلیٰ تصورات کے متعارف ہونے کی راہ ہموارکی۔ چنانچہ جمہوریت صنعتی انقلاب کے بطن سے پیداہونے والاایک ایساسیاسی وسماجی نظام ہے،جس نے متمول افراد سے مفلوک الحال انسانوں تک ہر ایک کوآزادیِ اظہارکے مواقعے فراہم کیے۔ اس نظام کی اہمیت اور افادیت سے وہی معاشرے آگاہ ہیں، جو سیاسی، سماجی اور معاشی ارتقاء کے عمل سے گذرے ہیں یا گذرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جمہوریت میں طاقت کا اصل منبیٰ عوام ہوتے ہیں،جو ایک معینہ مدت کے لیے اپنے حکمرانوں کا خود انتخاب کرتے ہیں۔ انتخابات عوام کی رائے دہی کا ذریعہ ہوتے ہیں،جن کی مدد سے وہ آزادانہ اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اوراہل دانش کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جمہوری معاشروں میںانتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کرنے اور کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں انھیں رد کرنے کاکلی حق رکھتے ہیں۔اس لیے کسی فرد یا جماعت کو کسی حلقے سے منتخب ہونے کاموروثی حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کسی فرد یا جماعت کو یہ بھی حق حاصل نہیں ہے کہ کسی علاقے کے عوام کو ان کی مرضی و منشاء کے بغیر جبراً اپنا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھے۔

اگر ہمارے سیاسی رہنماء اور سیاسی جماعتیں اس نکتے کو سمجھ جائیں تو تنائو اور ٹکرائو کی سیاست پر قابو پانا آسان ہوسکتا ہے۔حالیہ انتخابات میں جمہوری سیاسی رویوں کی سب سے عمدہ مثال عوامی نیشنل پارٹی نے پیش کی ہے جس نے ایک طرف ووٹر کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیاہے جب کہ دوسری طرف اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس سے کہاں اور کس قدر کوتاہیاں سرزدہوئی ہیں اور آیندہ ان سے بچنے کی سبیل ہوسکے۔یہی ایک صائب اور سنجیدہ طریقہ ہے۔لہٰذا ہر جماعت کو اس نظیر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غلطیاں انسانوں ہی سے سرزد ہوتی ہیں اور انسان ہی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ بیس برسوں کے دوران عقیدے،نسل، قومی شناخت اور مخصوص نظریات کی بنیاد پر عوام کو متحرک کرنے کے رجحان میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، کیونکہ معلومات کی آزادانہ رسائی کے اس دورمیں عوام کو زیادہ دیر تک جذباتی معاملات میں الجھائے رکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔اس کی واضح مثال حالیہ انتخابات ہیں، جن میں عوام نے عقیدے کے نام پر کی جانے والی سیاست کو بڑی حد تک ردکردیا ہے۔نتیجتاً ایوانوں میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کا حجم مزید کم ہوا ہے۔اسی طرح قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کو بھی خاصا دھچکا لگا ہے۔ایسی کئی جماعتوںکے مینڈیٹ میں دراڑیں پڑی ہے اور انھیں نئے چیلنجزکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،جو عوام کو قومیتی بنیادوں پر متحرک کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔آنے والے دنوں میںاس قسم کی سیاست کو مزید دھچکے لگنے کے بھی امکانات ہیں،کیونکہ اب عوام درپیش مسائل کو اولیت دینے لگے ہیں۔اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کے جذبات برانگیختہ کرنے کی گنجائش کم ہورہی ہے۔ لہٰذا فعال منشور اور اس پر عمل درآمد کی حکمت عملی کی تیاری کی اہمیت بڑھ گئی ہے،کیونکہ اس کے بغیر عوام کو زیادہ عرصہ اپنے سحر میں گرفتار رکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ شہری سندھ کی ایک فعال سیاسی قوت ہے،جس کی عوامی مقبولیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حالیہ انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں میں تحریک انصاف تیزی سے ابھرتے مظہرکے طورپر سامنے آئی ہے اور اس نے کراچی اور حیدر آباد میںاپنے لیے کسی حد تک جگہ(Space)بھی بنائی ہے۔پہلے سے فعال اور نمایندہ سیاسی جماعتوں کو اس کا راستہ روکنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن طاقت سے نہیں سیاسی حکمت عملیوں کے ذریعے۔اپنی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اسے بہتر بناکراور پہلے کے مقابلے میں زیادہ ڈیلیور کرکے ۔جیساکہ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے کیا ہے۔اے این پی بھی احتجاج کا راستہ اختیار کرکے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرسکتی تھی مگر اس نے جمہوری روایات کو ترجیح دے کر اپنی عزت اور مقام میں اضافہ کیا ہے۔ جمہوریت اس کے علاوہ کسی اور راستے کی توثیق نہیں کرتی۔اس لیے دیگر جماعتوں سے بھی اس عمل کی تقلیدکی توقع کی جانی چاہیے ۔

اس میں بھی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے محترمہ زہرہ شاہد کے قتل کا الزام براہ راست ایم کیو ایم کے سربراہ پر عائد کرکے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا ہے۔اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی ایم کیو ایم کا حق ہے۔ لیکن شہر کی ایک نمایندہ جماعت ہونے کے ناتے اسے تنائو کی سیاست سے گریز کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،کیونکہ اس طرح اس کا اپناووٹر متاثر ہورہاہے جو پچھلے پانچ برسوں سے خوف وہراس کی زندگی گذارنے پر مجبور چلاآرہا ہے۔وہ حسرت سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کو دیکھتا ہے، جہاں تعمیر و ترقی کی نئی داستانیں رقم ہوئی ہیں۔اس کا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ اسے کبھی تفاخر حاصل نہیں ہوا۔ اس شہرنے بھی 2002ء سے2010ء کے دوران تعمیر وترقی کے دریچے کھلتے دیکھے ہیں۔

مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیںکہ گزشتہ پانچ برس اس نے سسکتے ہوئے گذارے ہیں۔یہاں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان تنائو اور ٹکرائو کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوشش کریں تاکہ شہر کے امن کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔اس ضمن میں نواز شریف کا حالیہ بیان خوش آیند ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کراچی میں امن قائم کریں،وفاق تعاون کریگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ دونوںجماعتیں بالترتیب وفاق اور صوبے میں حکومت قائم کرنے جا رہی ہیں اور اس شہر میں امن وامان کی ابتر صورتحال خود ان کے لیے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔دوسرے حالیہ انتخابات میں یہ جماعتیں بھی اس شہر کی Stakeholderکے طور پر سامنے آئی ہیں، اس لیے ان پر بھی اتنی ہی ذمے داری عائد ہوتی ہے جتنی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف پر ہے۔

پاکستان اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے،ان کا تقاضا ہے کہ ملک کی نمایندہ سیاسی جماعتیں تنائو اور ٹکرائو کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے افہام وتفہیم کی راہ اپنائیں،تاکہ باہمی مشاورت سے مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جو ہوا،جیسے ہوا،اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی جائے۔اس میں شک نہیں کہ الیکشن کمیشن سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کے مطابق انتخابات کی شفافیت بھی خاصی حد تک مشکوک رہی۔ لیکن باربار انتخابات کاپاکستان جیسا معاشی طورپرکمزور ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔اس لیے نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار اور غیر جانبداربنانے کے لیے پارلیمان میں قانون سازی کرسکتی ہیں تاکہ جو خامیاں اس مرتبہ رہ گئیں، ان سے آیندہ بچا جاسکے۔اس لیے اس وقت تنائو سے گریز کرتے ہوئے آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے،جس پر چل کر ہم اس ملک اور اس کے عوام کو محفوظ مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

جہاں تک ہم جیسے لکھاریوں کا معاملہ ہے تو ہمیں نہ کسی جماعت سے بغض و نفرت ہے اور ہی کسی دوسری جماعت کے ترجمان بننے کا شوق ہے۔بلکہ ہمیں وطن عزیز کی ہر جماعت عزیز ہے۔ہم نے غیر جانبداری کا جو سبق زمانہ طالب علمی میں سیکھا تھا،ہمیشہ اس پہ کاربند رہنے کی کوشش کی ہے ۔البتہ اپنے ملک میں جمہوری اقدار کا فروغ جس سے آزادیِ اظہار مشروط ہے، ہماری آنکھوں میں سجا خواب ہے۔اس خواب کی تعبیر ہی ہماری زندگی کا مطمع نظر ہے۔اس لیے جمہوری نظام پر کوئی سودا یا سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں سے ہماری مودبانہ بلکہ دست بستہ گذارش ہے کہ وہ اب گذرے لمحوں کی تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے ایک روشن پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنی توانائیاں وقف کردیں اور عوام کو پرسکون زندگی جینے کا حق دیدیں۔
Load Next Story