اولین گیت نگار آرزو لکھنوی
آرزوؔ لکھنوی ایک طویل عرصے تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے۔
ISLAMABAD:
برصغیر میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو ان فلموں میں گیت برائے نام ہی ہوتے تھے اور جو گیت ہوتے تھے وہ فلم کے منظر اور ماحول کوگرمانے کے لیے ہوتے تھے۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی بس کچھ الفاظ سروں میں سمو دیے جاتے تھے اور گیت گانے والے بھی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن ہی ہوتے تھے، جیسے کہ ان دنوں سہگل، سریندر، پنکج ملک، خان مستانہ، کانن بالا، حسن بانو،کوشلیا، راج کماری اور پھر بعد میں آنے والی مشہور ہیروئن ثریا بھٹی شامل تھی اس دوران فلموں سے کوئی نامور شاعر وابستہ نہیں ہو سکا تھا کہ فلموں میں شاعری کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔
اس دورکی فلموں میں شاعری محض تک بندی تھی۔ پھرکچھ عرصے بعد آرزو لکھنوی وہ پہلے جید شاعر تھے جنھوں نے فلموں میں گیت لکھنے کا آغاز کیا اور ان کا پہلا سپرہٹ گیت جو منظر عام پر آیا وہ کندن لال سہگل کا تھا جو فلم ''دیوداس'' کے لیے سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور سہگل ہی پر فلمایا گیا تھا فلم کے بول تھے:
بالم آئے بسو مورے من میں
اور فلم دیوداس کے میوزک ڈائریکٹر تھے ثمر بدن۔ اس سے پہلے کہ میں شاعر آرزوؔ لکھنوی کے گیتوں کے سفر کا تذکرہ کروں ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بیان کرونگا۔ گیت نگار آرزوؔ لکھنوی مشہور شاعر جلال لکھنوی کے شاگرد تھے مگر شاعری کی ابتدا ان کے گھر ہی سے ہوئی تھی۔ ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور ان کے والد ذاکر حسین جو خود ایک اچھے شاعر تھے ان کا نام ذاکر حسین یاسؔ تھا، لکھنو کا یہ ایک ادبی گھرانہ تھا۔ آرزوؔ لکھنوی کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور ان کا نام میر یوسف حسن قیاسؔ تھا۔
اس طرح آرزوؔ لکھنوی کی شعری تربیت اپنے گھر ہی سے شروع ہوئی تھی، بارہ تیرہ برس کی عمر میں نہ صرف شاعری کے رموز سمجھنے لگے تھے بلکہ خود بھی شعرکہنے لگے تھے اور چودہ سال کی عمر میں لکھنو کے ایک نواب منجھلے آغا کے گھر میں ایک مشاعرے کی محفل میں پہلی بار بحیثیت شاعر منظر عام پر آئے تو اہل محفل کے دل موہ لیے تھے۔ بس پھر چل سو چل ان کی شاعری کا سفر شروع ہو گیا تھا پھر باقاعدگی سے مشاعروں میں بھی جانے لگے تھے۔ نوعمری ہی میں شہرت ان کے قدم چومنے لگی تھی۔ شاعری کیساتھ انھیں ڈرامہ نگاری سے بھی دلچسپی تھی اور وہ اپنے فارغ اوقات میں ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے۔
ان کے کئی ڈرامے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آئے اور انھیں بھی بڑی شہرت ملی، ان ڈراموں کے نام تھے چاند گرہن، چراغِ توحید اور حسن کی چنگاری پھر کچھ عرصے بعد ان کے دو شعری مجموعے ''جان آرزو'' اور فغان آرزو بھی عوام میں بڑے پسند کیے گئے۔ اب لکھنوی سے دہلی اور پھر دہلی سے کلکتہ کا سفر شروع ہوتا ہے۔اس زمانے میں کلکتہ سب سے زیادہ فلموں کا مرکز تھا اور بنگالی فلموں کیساتھ ساتھ اردو فلموں کی پروڈکشنز بھی اپنے عروج پر تھیں۔ نیو تھیٹرکلکتہ کی ایک مشہور فلم کمپنی تھی آرزوؔ لکھنوی اس کمپنی سے وابستہ ہو گئے۔
ابتدا میں یہ زیر تکمیل فلموں کے اردو اسکرپٹ دیکھا کرتے تھے اور بعض فلموں میں انھوں نے کچھ مکالمے بھی لکھے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو، ہندی، بنگالی،گجراتی اور پارسی زبان بولنے والے فنکاروں کو لے کر فلمیں بنائی جاتی تھیں اور آرزوؔ لکھنوی کو نیو تھیٹر میں آرٹسٹوں کے اردو تلفظ کی صحیح ادائیگی پر مامورکیا گیا تھا۔ یہ 1935ء کا زمانہ تھا اور پھر 1936ء میں فلم ''دیوداس'' بنی جسکے ہدایتکار پراماتھیش بروا تھے۔ سہگل نے دیوداس کا کردار ادا کیا تھا۔ اداکارہ جمونا نے پاروتی کا کردار ادا کیا تھا اور راج کماری چندرمکھی کے کردار میں نمایاں تھی ''دیوداس'' مشہور بنگالی ناول جسے سرت چندرا چٹو پادھیائے نے لکھا تھا، اس ناول سے ماخوذ تھی اور یہ ناول کئی بار فلم کی کہانیوں میں ڈھلی ہے اور ہر بار دیوداس کو عوامی پسندیدگی حاصل رہی ہے۔
اب میں پھر شاعر آرزوؔ لکھنوی کی طرف آتا ہوں۔ فلم دیوداس کے لیے جب آرزو لکھنوی نے گیت لکھے تو اس فلم کی ریلیزکے بعد ان کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی اور پھر نیو تھیٹرکی جو بھی فلم بنی اس کے گیت نگار آرزو لکھنوی ہی تھے۔ اب ان پر فلم انڈسٹری مہربان ہوتی چلی گئی، آرزوؔ لکھنوی نے اس دوران بیشمارگیت لکھے، نیو تھیٹرکی جن مشہور فلموں میں ان کے گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ان فلموں میں دیوداس، اسٹریٹ سنگر، آندھی، مکتی، جوانی کی ریت، ابھاگن، لگن، نرتکی، ڈاکٹر اور ہار جیت کے نام شامل ہیں اس دور کی چند فلموں کے گیتوں کے وہ مکھڑے بھی درج ذیل ہیں جنھیں بڑی شہرت ملی تھی۔
نہ جانے کیا ہے دل کا راز (مکتی)۔
سانوریا من بھایا رے (مکتی)
بابل مورا نہیں چھوڑا جائے (فلم، اسٹریٹ سنگر)
جوانی سب دھوکا ہے (جوانی کی ریت)
مرلیا جیون کا راگ بجائے (جوانی کی ریت)
یہ کون آج آیا سویرے سویرے (نرتکی)
مدھر بھری جوانی (نرتکی)
مہک رہی ہے پھلواری (ڈاکٹر)
میں سوئے بھاگ جگا دوں گا(لگن)
آرزوؔ لکھنوی ایک طویل عرصے تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے پھر انھیں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بھی بلاوے آنے لگے کیونکہ ان کے گلوکار اور اداکار دوست کندن لال سہگل بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ آرزوؔ لکھنوی 1942ء میں کلکتہ کو خیر باد کہہ کر بمبئی میں آن بسے اور یہاں آتے ہی نیشنل فلم اسٹوڈیو میں آرزوؔ لکھنوی کو بڑی چاہت سے اپنایا گیا۔ اس ادارے کی فلم روٹی، لالہ جی اور جوانی کے لیے گیت لکھے، ان فلموں کے گیت بھی بڑے مشہور ہوئے خاص طور پر یہ چند گیت:
بدنام نہ ہو جانا (جوانی)
رونے سے فرصت نہیں ( جوانی)
نظارے ہوئے ہیں اشارے ( جوانی)
اٹھ ساقیا پیمانہ اٹھا (روٹی)
ترے دیے میں کتنا تیل (لالہ جی)
نیشنل اسٹوڈیو کی فلموں کیساتھ ساتھ یہ دیگر فلمسازوں کی فلموں کی طرف بھی آتے گئے اورکئی مشہور فلم سازوں نے ان کے گیتوں کو اپنی فلموں کی زینت بنایا، اب آرزوؔ لکھنوی گیتوں کیساتھ مکالمے بھی لکھنے لگے تھے ۔اس دوران ان کی لکھی ہوئی جن فلموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ان میں بے قصور، تصور، پرایا دھن، پرکھ، فیشن اور نئی زندگی کے نام شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک اداکار مظہرخان بحیثیت ہیرو بمبئی میں بڑے مشہور تھے جو بعد میں پاکستان بھی آگئے تھے اور انھوں نے یہاں بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری تھی۔ کسی زمانے میں ان کے نام سے بمبئی میں فلمیں بکتی تھیں۔ آرزوؔ لکھنوی نے اداکار مظہر خان کی فلم ''یاد'' کے مکالمے اور گیت بھی لکھے تھے۔ چند گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے جن کے بول تھے:
آیا ساون کا مہینہ (فیشن)
ہائے راما ترچھی نظر نے مارا (یاد)
یاد جب بے چین کرتی ہے (یاد)
آئے دن پیار کے (یاد)
آئے دن پیار کے (پرکھ)
بہت گھروندے کھیلے (نئی زندگی)
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا تو پھر فلم انڈسٹری میں بدلاؤ آتا چلا گیا۔ مسلمان فنکاروں کو نظرانداز کیا جانے لگا تھا۔ 1948ء میں آرزوؔ لکھنوی نے جن دو آخری فلموں کے لیے گیت لکھے تھے ان فلموں میں ایک تھی فلم ''بے قصور'' اور دوسری فلم کا نام تھا ''رات کی رانی'' اس فلم میں ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا جسکے بول تھے:
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
1950ء میں آرزوؔ لکھنوی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیارکی تھی۔ یہاں ایک دو مشاعروں میں شرکت بھی کی تھی مگر اب 80 سال سے زیادہ عمر ہو چکی تھی اور پھر یہ یہاں آکر بیمار ہوگئے تھے اور اسی بیماری کی حالت میں کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوا تھا اور انھیں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کی موت سے فلمی شاعری کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔
برصغیر میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو ان فلموں میں گیت برائے نام ہی ہوتے تھے اور جو گیت ہوتے تھے وہ فلم کے منظر اور ماحول کوگرمانے کے لیے ہوتے تھے۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی بس کچھ الفاظ سروں میں سمو دیے جاتے تھے اور گیت گانے والے بھی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن ہی ہوتے تھے، جیسے کہ ان دنوں سہگل، سریندر، پنکج ملک، خان مستانہ، کانن بالا، حسن بانو،کوشلیا، راج کماری اور پھر بعد میں آنے والی مشہور ہیروئن ثریا بھٹی شامل تھی اس دوران فلموں سے کوئی نامور شاعر وابستہ نہیں ہو سکا تھا کہ فلموں میں شاعری کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔
اس دورکی فلموں میں شاعری محض تک بندی تھی۔ پھرکچھ عرصے بعد آرزو لکھنوی وہ پہلے جید شاعر تھے جنھوں نے فلموں میں گیت لکھنے کا آغاز کیا اور ان کا پہلا سپرہٹ گیت جو منظر عام پر آیا وہ کندن لال سہگل کا تھا جو فلم ''دیوداس'' کے لیے سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور سہگل ہی پر فلمایا گیا تھا فلم کے بول تھے:
بالم آئے بسو مورے من میں
اور فلم دیوداس کے میوزک ڈائریکٹر تھے ثمر بدن۔ اس سے پہلے کہ میں شاعر آرزوؔ لکھنوی کے گیتوں کے سفر کا تذکرہ کروں ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بیان کرونگا۔ گیت نگار آرزوؔ لکھنوی مشہور شاعر جلال لکھنوی کے شاگرد تھے مگر شاعری کی ابتدا ان کے گھر ہی سے ہوئی تھی۔ ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور ان کے والد ذاکر حسین جو خود ایک اچھے شاعر تھے ان کا نام ذاکر حسین یاسؔ تھا، لکھنو کا یہ ایک ادبی گھرانہ تھا۔ آرزوؔ لکھنوی کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور ان کا نام میر یوسف حسن قیاسؔ تھا۔
اس طرح آرزوؔ لکھنوی کی شعری تربیت اپنے گھر ہی سے شروع ہوئی تھی، بارہ تیرہ برس کی عمر میں نہ صرف شاعری کے رموز سمجھنے لگے تھے بلکہ خود بھی شعرکہنے لگے تھے اور چودہ سال کی عمر میں لکھنو کے ایک نواب منجھلے آغا کے گھر میں ایک مشاعرے کی محفل میں پہلی بار بحیثیت شاعر منظر عام پر آئے تو اہل محفل کے دل موہ لیے تھے۔ بس پھر چل سو چل ان کی شاعری کا سفر شروع ہو گیا تھا پھر باقاعدگی سے مشاعروں میں بھی جانے لگے تھے۔ نوعمری ہی میں شہرت ان کے قدم چومنے لگی تھی۔ شاعری کیساتھ انھیں ڈرامہ نگاری سے بھی دلچسپی تھی اور وہ اپنے فارغ اوقات میں ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے۔
ان کے کئی ڈرامے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آئے اور انھیں بھی بڑی شہرت ملی، ان ڈراموں کے نام تھے چاند گرہن، چراغِ توحید اور حسن کی چنگاری پھر کچھ عرصے بعد ان کے دو شعری مجموعے ''جان آرزو'' اور فغان آرزو بھی عوام میں بڑے پسند کیے گئے۔ اب لکھنوی سے دہلی اور پھر دہلی سے کلکتہ کا سفر شروع ہوتا ہے۔اس زمانے میں کلکتہ سب سے زیادہ فلموں کا مرکز تھا اور بنگالی فلموں کیساتھ ساتھ اردو فلموں کی پروڈکشنز بھی اپنے عروج پر تھیں۔ نیو تھیٹرکلکتہ کی ایک مشہور فلم کمپنی تھی آرزوؔ لکھنوی اس کمپنی سے وابستہ ہو گئے۔
ابتدا میں یہ زیر تکمیل فلموں کے اردو اسکرپٹ دیکھا کرتے تھے اور بعض فلموں میں انھوں نے کچھ مکالمے بھی لکھے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو، ہندی، بنگالی،گجراتی اور پارسی زبان بولنے والے فنکاروں کو لے کر فلمیں بنائی جاتی تھیں اور آرزوؔ لکھنوی کو نیو تھیٹر میں آرٹسٹوں کے اردو تلفظ کی صحیح ادائیگی پر مامورکیا گیا تھا۔ یہ 1935ء کا زمانہ تھا اور پھر 1936ء میں فلم ''دیوداس'' بنی جسکے ہدایتکار پراماتھیش بروا تھے۔ سہگل نے دیوداس کا کردار ادا کیا تھا۔ اداکارہ جمونا نے پاروتی کا کردار ادا کیا تھا اور راج کماری چندرمکھی کے کردار میں نمایاں تھی ''دیوداس'' مشہور بنگالی ناول جسے سرت چندرا چٹو پادھیائے نے لکھا تھا، اس ناول سے ماخوذ تھی اور یہ ناول کئی بار فلم کی کہانیوں میں ڈھلی ہے اور ہر بار دیوداس کو عوامی پسندیدگی حاصل رہی ہے۔
اب میں پھر شاعر آرزوؔ لکھنوی کی طرف آتا ہوں۔ فلم دیوداس کے لیے جب آرزو لکھنوی نے گیت لکھے تو اس فلم کی ریلیزکے بعد ان کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی اور پھر نیو تھیٹرکی جو بھی فلم بنی اس کے گیت نگار آرزو لکھنوی ہی تھے۔ اب ان پر فلم انڈسٹری مہربان ہوتی چلی گئی، آرزوؔ لکھنوی نے اس دوران بیشمارگیت لکھے، نیو تھیٹرکی جن مشہور فلموں میں ان کے گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ان فلموں میں دیوداس، اسٹریٹ سنگر، آندھی، مکتی، جوانی کی ریت، ابھاگن، لگن، نرتکی، ڈاکٹر اور ہار جیت کے نام شامل ہیں اس دور کی چند فلموں کے گیتوں کے وہ مکھڑے بھی درج ذیل ہیں جنھیں بڑی شہرت ملی تھی۔
نہ جانے کیا ہے دل کا راز (مکتی)۔
سانوریا من بھایا رے (مکتی)
بابل مورا نہیں چھوڑا جائے (فلم، اسٹریٹ سنگر)
جوانی سب دھوکا ہے (جوانی کی ریت)
مرلیا جیون کا راگ بجائے (جوانی کی ریت)
یہ کون آج آیا سویرے سویرے (نرتکی)
مدھر بھری جوانی (نرتکی)
مہک رہی ہے پھلواری (ڈاکٹر)
میں سوئے بھاگ جگا دوں گا(لگن)
آرزوؔ لکھنوی ایک طویل عرصے تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے پھر انھیں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بھی بلاوے آنے لگے کیونکہ ان کے گلوکار اور اداکار دوست کندن لال سہگل بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ آرزوؔ لکھنوی 1942ء میں کلکتہ کو خیر باد کہہ کر بمبئی میں آن بسے اور یہاں آتے ہی نیشنل فلم اسٹوڈیو میں آرزوؔ لکھنوی کو بڑی چاہت سے اپنایا گیا۔ اس ادارے کی فلم روٹی، لالہ جی اور جوانی کے لیے گیت لکھے، ان فلموں کے گیت بھی بڑے مشہور ہوئے خاص طور پر یہ چند گیت:
بدنام نہ ہو جانا (جوانی)
رونے سے فرصت نہیں ( جوانی)
نظارے ہوئے ہیں اشارے ( جوانی)
اٹھ ساقیا پیمانہ اٹھا (روٹی)
ترے دیے میں کتنا تیل (لالہ جی)
نیشنل اسٹوڈیو کی فلموں کیساتھ ساتھ یہ دیگر فلمسازوں کی فلموں کی طرف بھی آتے گئے اورکئی مشہور فلم سازوں نے ان کے گیتوں کو اپنی فلموں کی زینت بنایا، اب آرزوؔ لکھنوی گیتوں کیساتھ مکالمے بھی لکھنے لگے تھے ۔اس دوران ان کی لکھی ہوئی جن فلموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ان میں بے قصور، تصور، پرایا دھن، پرکھ، فیشن اور نئی زندگی کے نام شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک اداکار مظہرخان بحیثیت ہیرو بمبئی میں بڑے مشہور تھے جو بعد میں پاکستان بھی آگئے تھے اور انھوں نے یہاں بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری تھی۔ کسی زمانے میں ان کے نام سے بمبئی میں فلمیں بکتی تھیں۔ آرزوؔ لکھنوی نے اداکار مظہر خان کی فلم ''یاد'' کے مکالمے اور گیت بھی لکھے تھے۔ چند گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے جن کے بول تھے:
آیا ساون کا مہینہ (فیشن)
ہائے راما ترچھی نظر نے مارا (یاد)
یاد جب بے چین کرتی ہے (یاد)
آئے دن پیار کے (یاد)
آئے دن پیار کے (پرکھ)
بہت گھروندے کھیلے (نئی زندگی)
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا تو پھر فلم انڈسٹری میں بدلاؤ آتا چلا گیا۔ مسلمان فنکاروں کو نظرانداز کیا جانے لگا تھا۔ 1948ء میں آرزوؔ لکھنوی نے جن دو آخری فلموں کے لیے گیت لکھے تھے ان فلموں میں ایک تھی فلم ''بے قصور'' اور دوسری فلم کا نام تھا ''رات کی رانی'' اس فلم میں ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا جسکے بول تھے:
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
1950ء میں آرزوؔ لکھنوی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیارکی تھی۔ یہاں ایک دو مشاعروں میں شرکت بھی کی تھی مگر اب 80 سال سے زیادہ عمر ہو چکی تھی اور پھر یہ یہاں آکر بیمار ہوگئے تھے اور اسی بیماری کی حالت میں کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوا تھا اور انھیں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کی موت سے فلمی شاعری کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔