اندھیروں میں پڑے لوگ

بددیانتی، بدکر داری، بداخلاقی ناواقفیت اور لاعلمی کانتیجہ ہوتی ہیں۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

ISLAMABAD:
ہم اس وقت جیسے ہیں کیا ہم اس سے مختلف ہو سکتے تھے؟ جی نہیں بالکل نہیں۔ ہم ہمیشہ ویسے ہی بنیں گے جیسا سماج ہو گا، ہم کبھی بھی سماج کے برعکس نہیں بن سکتے ہیں۔ تاریخ کے لحاظ سے اور نفسیات کے اعتبار سے ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اپنے ماں باپ کی کچھ خصوصیات لے کر آتا ہے، اپنی زندگی کے شروع کے پندرہ بیس سال وہ اپنی سمجھ اور شعور اور عقل سے پوری طرح کام نہیں لے سکتا ہے اس وجہ سے نہیں کہ ریاست یاسماج اسے منع کرتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ خود اس کی سمجھ بوجھ، شعور اور عقل کا کافی نشو و نما نہیں ہوا ہوتا ہے۔ اس دور میں اس کے گر د و پیش جو لوگ ہوتے ہیں۔

ان کا اور ان کے خیالات کا ا ثر خود بخود پڑتا رہتا ہے یعنی اگر ریاست اور سماج اس کی کوشش بھی کریں کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ، شعور اور عقل میں مکمل طور پر آزاد ہو اور اس کی ذہنی نشو و نما میں کسی طرح کی رکاوٹ، دخل اندازی یا خلل نہ ہونے پائے۔ تب بھی ہر فرد ایسا ہی ہو گا جیسا کہ اب ہے۔ اصل میں انسان میںنقل کا مادہ موجود ہے وہ بغیر کسی حکم کے یا خو اہش نہ رکھتے ہوئے بھی دوسروں کی پیروی کرتا ہے، دوسروں کا رنگ ڈھنگ اختیار کرتا ہے، اس لیے جیسا سماج ہو گا ویسے ہی اس کے افراد ہونگے۔ جیسے افراد ہونگے ویسا ہی سماج ہو گا۔ سماج کو تبدیل کیے بغیر فرد کی تبدیلی ناممکن ہے اور سماج کی تبدیلی راتوں رات ممکن نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل کے نتیجے میں ہی ممکن ہوتی ہے۔

ایک نوجوان ماں نے اپنے ڈاکٹر سے پوچھا ڈاکٹر صاحب میں نے اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کب شروع کروں۔ ڈاکٹر نے دریافت کیاکہ بچہ کتنی عمر کا ہے ماں بولی بچہ دو سال کا ہے اس پر ڈاکٹر نے سنجیدگی سے بولا تب تو تم نے ٹھیک دو سال ضایع کر دیے۔آلو رونیڈل ہالمیز سے بھی کسی نے ایسا ہی سوال کیا تھا تو اس نے جواب دیا تھا کہ بچے کی تربیت اس کی نانی سے شروع ہو جانی چاہیے۔ انیسو یں صدی کے سب سے مشہور برطانوی سیاسی مفکر اور مصنف جان اسٹورٹ مل نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے ''ذہنی بحران'' کی جڑیں اس کے بچپن کی تربیت میں پیوست تھیں اس کے خیال میں و ہ تربیت ناقص تھی کیونکہ اس کے ''اخلاقی جذبات'' کی نشوونما مناسب طور پر نہیں ہو سکی۔


ولیم ایکٹن کہا کرتا تھا جو مریض میرے زیر علاج رہے ہیں اور جنہوں نے اپنے برے کر تو تو ں کا اقرار مجھ سے کیا وہ نالاں پائے گئے کہ ان کو ان کے کرتو توں کے نتائج سے آگا ہ نہ کیا گیا انھوں نے مجھے بار بار تاکید کی کہ میں والدین، سرپرستوں اور معلموں کو تنبیہ کر دوں کہ وہ اپنے بچوں اور طالب علموں کوان خطرات سے کسی نہ کسی طرح آگاہ کر دیا کریں۔ اس لیے میں والدین اور سر پرستوں کو سچے دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دلی ہمدردی سے اور کھلے لفظوں میں اپنے بچوں کو تاکید کرتے رہا کریں کہ اپنی زندگیوں کو پاک و صاف رکھیں۔ایپی کیورس نے کہا ہے ''جو آدمی نیک نہیں وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا''۔ دنیا میں کوئی خزانہ اتنی قدر و قیمت نہیں رکھتا جتنانفس کی پاکیزگی کا علم قیمتی ہے۔

اس پاکیزگی کو قائم رکھنے کے لیے نہ صرف بداعمالی سے احتراز واجب ہے بلکہ ناپاک خیالات سے بھی پرہیز لازم ہے کیونکہ ان سے نفس کی پاکیزگی زائل ہو جاتی ہے، ذہن میں رہے کوئی انسان برا اور بدکار نہیں بننا چاہتا اس کا ماحول اس کا ارد گر د اس کی ناواقفیت اس کی لاعلمی اس کو برا اور بدکار انسان بننے پر مجبور کر دیتی ہے اگر ہم ماحول کونیک کر دیں گے تو وہ خود بخود نیک ہوتا چلاجائے گا بچہ ایک کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے وہ جوکچھ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھتا ہے وہ کاغذ پر لکھتا چلا جاتا ہے اس کے نزدیک اس سے بڑی حقیقت، سچائی اور زندگی کوئی دوسری نہیں ہوتی ہے لیکن جب اسے حقیقی سچائی، حقیقت اور زندگی کا پتہ اور علم ہوتا ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے پھر وہ پکار پکار کر چلاتا ہے یا خدا میرے اندر پاکیز ہ دل پیدا کر اور درست روح رواں کی تجدید کر۔ کوئی انسان ایسا نہیں گزرا ہے جسے اپنے گنا ہوں بدکرداریوں کا ملال اور افسوس نہ ہوا ہو۔

بددیانتی، بدکر داری، بداخلاقی ناواقفیت اور لاعلمی کانتیجہ ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ، کامیاب، خوشحال اور مہذب ممالک کے سماج پہلے انتہائی بدترین اور غلیظ ادوارسے گزرے ہیں دنیا بھر کی تمام برائیاں، خرابیاں، غلاظتیں ان سماج میں موجود تھیں اور ان میں رہنے والے اپنے اپنے سماج کی تمام برائیوں، خرابیوں اور غلاظتوں کو اپنے اندر جذب کر چکے تھے اور پھر جب انھیں علم ہوا وہ واقف ہوئے تو چلا اٹھے اور پھر تعلیم، علم اور واقفیت کے ہتھیاروں کے ذریعے اپنے اپنے سماج کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیااور پھر وحشی انسان مہذب بنتے چلے گئے۔ یاد رہے انسان ٹانگوں پر نہیں بلکہ اخلاقیات پر کھڑے ہوتے ہیں۔

اگر ہم اپنے سماج اور افراد میں پھیلی برائیوں ، خرابیوں اورغلاظتوں سے تنگ آچکے ہیں اور صورتحال اور ماحول ہمار ی برداشت سے باہر ہوچکا ہے تو پھر اٹھیں تعلیم، علم اور واقفیت کی شمعیں روشں کرکے اپنے سماج اور لوگوں کو اندھیروں سے باہر نکالنے کے عمل کا آغاز کر دیں ۔ یاد رکھیں ان گنت بچے اور بڑے اندھیروں میں پڑے درد سے کراہ رہے ہیں اور ہمارے منتظر ہیں۔
Load Next Story