وہی رفتار بے ڈھنگی …
ہمارے یہ با اثر سیاستدان ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے ورثاء کو اقتدارکی راہداریوں سے مانوس کرا دینا چاہتے ہیں۔
الیکشن ، 2018ء کے ہنگامے ختم ہوئے اور 15 ویں قومی اسمبلی کے تشکیل پانے سے بظاہر جمہوریت کے تسلسل کا تیسرا دور شروع ہوچکا ہے لیکن انتخابات کے نتیجے میں جوکچھ سامنے آیا ہے، اس سے نہیں لگتا کہ کوئی تبدیلی آنے والی ہے یا نیا پاکستان بننے جا رہا ہے جس کا بطور نعرہ انتخابی مہم کے دوران بھرپور استعمال کیا گیا اور جس کو بھٹو دور کے مقبول نعرے روٹی،کپڑا اور مکان کی طرح عوام میں زبردست پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔
اب پتہ چلا کہ یہ نعرہ محض عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ لینے کے لیے لگایا گیا تھا، جو لوگ پہلے برسر اقتدار تھے اور اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آئے تھے اس بار بھی نہ صرف وہ خود بڑی تعداد میں دوبارہ منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچے ہیں بلکہ اپنے قریبی رشتے داروں اور عزیزوں کو بھی بطور ممبران پارلیمنٹ متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو اپنی سابقہ پارٹیوں ہی کے ٹکٹ پر جیت کر آئے ہیں اور کچھ نے دوسری پارٹیوں کو زینہ بناکرکامیابی حاصل کی ہے ۔ وہ پہلے کون سی تبدیلی لائے تھے کہ اب لائیں گے، اپنا الو ضرور سیدھا کریں گے کہ اسی کے لیے تو سارے پاپڑ بیلے جاتے ہیں ۔ حمام میں سب ننگے کے مصداق آپ کو سوائے چہروں کی تبدیلی کے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، باالفاظ دیگر وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے الیکشن 2018ء کے اس پہلوکو نمایاں کرتے ہوئے اسلام آباد سے ریاض الحق کی رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ کس طرح با اثر سیاستدانوں نے نہ صرف اپنے انتخاب بلکہ اس کے ذریعے اپنے افراد خاندان اور رشتے داروں کو بھی پارلیمان تک پہنچانے کو یقینی بنایا اور ثابت کردیا کہ اس تک رسائی کے لیے سیاسی تعلقات کا ہونا اور بااثر خاندانی پس منظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ گویا پاکستان میں سیاست کا شعبہ صرف چند خاص لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو سیاست کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔
ہمارے یہ با اثر سیاستدان ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے ورثاء کو اقتدارکی راہداریوں سے مانوس کرا دینا چاہتے ہیں اور تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کا نعرہ دینے والے الیکشن 2018ء کی فاتح سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان لوگوں کو بڑھاوا دینے میں سب سے آگے ہے۔ موروثی سیاست کی مذمت میں پیش پیش یہ جماعت اب اس کی علم بردار بن کر سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کے ضلع جھنگ سے دو سگے بھائی محبوب سلطان اور عامر سلطان ، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر آئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک، اگرچہ دوبارہ یہ پرکشش عہدہ حاصل نہ کرسکے لیکن وہ اس سے کہیں زیادہ وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کے داماد، عمران خٹک کو نوشہرہ کی سیٹ کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملا جب کہ بھتیجی نفیسہ خٹک اور سالی ساجدہ بیگم کو مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں لایا گیا ہے۔
اسی طرح، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے، جو خود تو این اے 156سے منتخب ہوئے تھے، اپنے بیٹے مخدوم زین قریشی کو بھی این اے 157 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جتوایا اور اب باپ بیٹا دونوں نئی قومی اسمبلی کے ارکان میں شامل ہیں۔ پہلے فوجی ڈکٹیٹر، ایوب خان کے پوتے اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب کے صاحبزادے عمرایوب کو اپنے ٹکٹ پر این اے۔ 17 (ہری پور) سے ایم این اے منتخب کرانے کا اعزاز بھی عمران خان کی پارٹی ہی کو حاصل ہے۔
ضلع فیصل آباد کے جانے پہچانے سیاستدان ریاض فتیانہ، جوکبھی پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے، اس بار نہ صرف خود پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر ایم این اے بنے بلکہ اپنی بیٹی، آصفہ ریاض کو بھی پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص ایک نشست دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، جو این اے۔ 182 (مظفر گڑھ) سے منتخب ہوئی ہیں، قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپنے بھائی رضا ربانی کھرکو بطور ایم این اے متعارف کراتی پائی گئیں جو این اے 183 سے الیکشن جیتے تھے۔ دونوں بہن بھائی سابق رکن قومی اسمبلی ملک ربانی کھرکی اولاد ہیں۔
ماضی میں طاقتورجتوئی برادران کو چیلنج کرنے والے سندھ کے ضلع دادو کے مرحوم پی پی پی رہنما ، رفیق احمد مہیسر کی بیوہ مسرت مہیسر بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ سابق صدر مملکت اور پی پی پی کے شریک چیئرمین، آصف زرداری کی دونوں بہنیں فریال تالپور اور عذرا فضل پیچوہو بھی منتخب ہوکر پارلیمان میں پہنچی ہیں۔ پی پی پی کی طرف سے سندھ کی مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن کو دی گئی ترجیحی فہرست میں دونوں بہنوں کا نمبر پہلا اور دوسرا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف خود تو سیالکوٹ کی ایک جنرل سیٹ پر منتخب ہوئے جب کہ ان کی بیگم مسرت آصف اور بھتیجی شازہ فاطمہ خواجہ پارٹی کی طرف سے مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچی ہیں۔
معزول وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر، طارق فاطمی کی صاحبزادی زہرہ ودود بھی ایک مخصوص نشست پر ایم این اے بنی ہیں جب کہ خود طارق فاطمی گزشتہ مارچ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مخصوص نشستیں صرف اپنے پیاروں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل خواتین کے لیے مخصوص نشستیں دوبارہ بحال کرنے کا سہرا سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے سر ہے، جس کے نتیجے میں اب 342 نشستوں والی قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 نشستیں مخصوص ہیں۔ ان میں اقلیتوں کے لیے مختص 10 نشستیں بھی شامل ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کو یہ مخصوص نشستیں ان ترجیحی فہرستوں سے مختص کی جاتی ہیں جو وہ براہ راست اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے الیکشن کمیشن کو مہیا کرتی ہیں۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی جعفر اقبال کی صاحبزادی زیب جعفر اور ان کی کزن مائزہ حمید کو بھی مخصوص نشستوں پر پارلیمان میں لایا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے لاہور کے رہنما پرویز ملک اور ان کے صاحبزادے نے خود تو جنرل سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ملک صاحب کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک مخصوص نشست پر منتخب ہوکر پارلیمان پہنچی ہیں۔
پچھلی پارلیمان میں بھی وہ خواتین گروپ کی سربراہ تھیں۔ مسلم لیگ (ن) ہی کی ایک اورکارکن طاہرہ اورنگزیب دوسری مرتبہ ممبر پارلیمان منتخب ہوئی ہیں جب کہ ان کی صاحبزادی مریم اورنگزیب بھی منتخب ہوکر وہاں اپنی والدہ سے آ ملی ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن نثار ڈار کی بہن کرن ڈارکو بھی خواتین کے لیے مخصوص ایک نشست پر اسی طرح منتخب کرایا گیا ہے۔
فیصل آباد سے دو بار منتخب ہونے والے سابق قانون ساز، رجب علی خان کی بیوہ عائشہ رجب بلوچ بھی ایک مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز، جنھیں الیکشن سے کچھ ہی پہلے سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا، کی بیگم مہناز عزیزکو پارٹی نے نارووال ضلع سے ان کی سیٹ پر اپنا امیدوار نامزد کیا اور وہ 106366 ووٹ لے کر جیت گئیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے مرحوم رہنما گلزار خان کی صاحبزادی شاندانہ گلزارکو بھی ایک سیٹ دی ہے اگرچہ ان کے والد نے 2014ء کے دھرنے کے دوران پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔
آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار ابراہیم خان کی بہو، نورین ابراہیم بھی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ وہ پی ٹی آئی کے دو اہم رہنماؤں اعظم سواتی اور شاہ فرمان کی قریبی رشتے دارہیں۔ خواتین کی ایک مخصوص نشست پنجاب کی سابق وزیر خزانہ، عائشہ غوث پاشا کے حصے میں بھی آئی جو سابق وفاقی وزیر خزانہ حفیظ پاشا کی اہلیہ ہیں۔ عالیہ کامران بلوچستان سے متحدہ مجلس عمل کی ایک خصوصی سیٹ پر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کی بیگم ہیں۔ مرتضیٰ خود بھی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن ہیں۔ روبینہ عرفان، جنھیں بلوچستان عوامی پارٹی پارلیمان میں لائی ہے، ڈاکٹر عرفان کریم کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق خان آف قلات میر احمد یار خان کے خاندان سے ہے،ایسے میں کوئی تبدیلی آنے کی بھلا کیا امیدکی جاسکتی ہے۔
اب پتہ چلا کہ یہ نعرہ محض عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ لینے کے لیے لگایا گیا تھا، جو لوگ پہلے برسر اقتدار تھے اور اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آئے تھے اس بار بھی نہ صرف وہ خود بڑی تعداد میں دوبارہ منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچے ہیں بلکہ اپنے قریبی رشتے داروں اور عزیزوں کو بھی بطور ممبران پارلیمنٹ متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو اپنی سابقہ پارٹیوں ہی کے ٹکٹ پر جیت کر آئے ہیں اور کچھ نے دوسری پارٹیوں کو زینہ بناکرکامیابی حاصل کی ہے ۔ وہ پہلے کون سی تبدیلی لائے تھے کہ اب لائیں گے، اپنا الو ضرور سیدھا کریں گے کہ اسی کے لیے تو سارے پاپڑ بیلے جاتے ہیں ۔ حمام میں سب ننگے کے مصداق آپ کو سوائے چہروں کی تبدیلی کے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، باالفاظ دیگر وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے الیکشن 2018ء کے اس پہلوکو نمایاں کرتے ہوئے اسلام آباد سے ریاض الحق کی رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ کس طرح با اثر سیاستدانوں نے نہ صرف اپنے انتخاب بلکہ اس کے ذریعے اپنے افراد خاندان اور رشتے داروں کو بھی پارلیمان تک پہنچانے کو یقینی بنایا اور ثابت کردیا کہ اس تک رسائی کے لیے سیاسی تعلقات کا ہونا اور بااثر خاندانی پس منظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ گویا پاکستان میں سیاست کا شعبہ صرف چند خاص لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو سیاست کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔
ہمارے یہ با اثر سیاستدان ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے ورثاء کو اقتدارکی راہداریوں سے مانوس کرا دینا چاہتے ہیں اور تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کا نعرہ دینے والے الیکشن 2018ء کی فاتح سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان لوگوں کو بڑھاوا دینے میں سب سے آگے ہے۔ موروثی سیاست کی مذمت میں پیش پیش یہ جماعت اب اس کی علم بردار بن کر سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کے ضلع جھنگ سے دو سگے بھائی محبوب سلطان اور عامر سلطان ، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر آئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک، اگرچہ دوبارہ یہ پرکشش عہدہ حاصل نہ کرسکے لیکن وہ اس سے کہیں زیادہ وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کے داماد، عمران خٹک کو نوشہرہ کی سیٹ کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملا جب کہ بھتیجی نفیسہ خٹک اور سالی ساجدہ بیگم کو مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں لایا گیا ہے۔
اسی طرح، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے، جو خود تو این اے 156سے منتخب ہوئے تھے، اپنے بیٹے مخدوم زین قریشی کو بھی این اے 157 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جتوایا اور اب باپ بیٹا دونوں نئی قومی اسمبلی کے ارکان میں شامل ہیں۔ پہلے فوجی ڈکٹیٹر، ایوب خان کے پوتے اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب کے صاحبزادے عمرایوب کو اپنے ٹکٹ پر این اے۔ 17 (ہری پور) سے ایم این اے منتخب کرانے کا اعزاز بھی عمران خان کی پارٹی ہی کو حاصل ہے۔
ضلع فیصل آباد کے جانے پہچانے سیاستدان ریاض فتیانہ، جوکبھی پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے، اس بار نہ صرف خود پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر ایم این اے بنے بلکہ اپنی بیٹی، آصفہ ریاض کو بھی پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص ایک نشست دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، جو این اے۔ 182 (مظفر گڑھ) سے منتخب ہوئی ہیں، قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپنے بھائی رضا ربانی کھرکو بطور ایم این اے متعارف کراتی پائی گئیں جو این اے 183 سے الیکشن جیتے تھے۔ دونوں بہن بھائی سابق رکن قومی اسمبلی ملک ربانی کھرکی اولاد ہیں۔
ماضی میں طاقتورجتوئی برادران کو چیلنج کرنے والے سندھ کے ضلع دادو کے مرحوم پی پی پی رہنما ، رفیق احمد مہیسر کی بیوہ مسرت مہیسر بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ سابق صدر مملکت اور پی پی پی کے شریک چیئرمین، آصف زرداری کی دونوں بہنیں فریال تالپور اور عذرا فضل پیچوہو بھی منتخب ہوکر پارلیمان میں پہنچی ہیں۔ پی پی پی کی طرف سے سندھ کی مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن کو دی گئی ترجیحی فہرست میں دونوں بہنوں کا نمبر پہلا اور دوسرا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف خود تو سیالکوٹ کی ایک جنرل سیٹ پر منتخب ہوئے جب کہ ان کی بیگم مسرت آصف اور بھتیجی شازہ فاطمہ خواجہ پارٹی کی طرف سے مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچی ہیں۔
معزول وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر، طارق فاطمی کی صاحبزادی زہرہ ودود بھی ایک مخصوص نشست پر ایم این اے بنی ہیں جب کہ خود طارق فاطمی گزشتہ مارچ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مخصوص نشستیں صرف اپنے پیاروں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل خواتین کے لیے مخصوص نشستیں دوبارہ بحال کرنے کا سہرا سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے سر ہے، جس کے نتیجے میں اب 342 نشستوں والی قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 نشستیں مخصوص ہیں۔ ان میں اقلیتوں کے لیے مختص 10 نشستیں بھی شامل ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کو یہ مخصوص نشستیں ان ترجیحی فہرستوں سے مختص کی جاتی ہیں جو وہ براہ راست اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے الیکشن کمیشن کو مہیا کرتی ہیں۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی جعفر اقبال کی صاحبزادی زیب جعفر اور ان کی کزن مائزہ حمید کو بھی مخصوص نشستوں پر پارلیمان میں لایا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے لاہور کے رہنما پرویز ملک اور ان کے صاحبزادے نے خود تو جنرل سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ملک صاحب کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک مخصوص نشست پر منتخب ہوکر پارلیمان پہنچی ہیں۔
پچھلی پارلیمان میں بھی وہ خواتین گروپ کی سربراہ تھیں۔ مسلم لیگ (ن) ہی کی ایک اورکارکن طاہرہ اورنگزیب دوسری مرتبہ ممبر پارلیمان منتخب ہوئی ہیں جب کہ ان کی صاحبزادی مریم اورنگزیب بھی منتخب ہوکر وہاں اپنی والدہ سے آ ملی ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن نثار ڈار کی بہن کرن ڈارکو بھی خواتین کے لیے مخصوص ایک نشست پر اسی طرح منتخب کرایا گیا ہے۔
فیصل آباد سے دو بار منتخب ہونے والے سابق قانون ساز، رجب علی خان کی بیوہ عائشہ رجب بلوچ بھی ایک مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز، جنھیں الیکشن سے کچھ ہی پہلے سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا، کی بیگم مہناز عزیزکو پارٹی نے نارووال ضلع سے ان کی سیٹ پر اپنا امیدوار نامزد کیا اور وہ 106366 ووٹ لے کر جیت گئیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے مرحوم رہنما گلزار خان کی صاحبزادی شاندانہ گلزارکو بھی ایک سیٹ دی ہے اگرچہ ان کے والد نے 2014ء کے دھرنے کے دوران پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔
آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار ابراہیم خان کی بہو، نورین ابراہیم بھی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ وہ پی ٹی آئی کے دو اہم رہنماؤں اعظم سواتی اور شاہ فرمان کی قریبی رشتے دارہیں۔ خواتین کی ایک مخصوص نشست پنجاب کی سابق وزیر خزانہ، عائشہ غوث پاشا کے حصے میں بھی آئی جو سابق وفاقی وزیر خزانہ حفیظ پاشا کی اہلیہ ہیں۔ عالیہ کامران بلوچستان سے متحدہ مجلس عمل کی ایک خصوصی سیٹ پر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کی بیگم ہیں۔ مرتضیٰ خود بھی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن ہیں۔ روبینہ عرفان، جنھیں بلوچستان عوامی پارٹی پارلیمان میں لائی ہے، ڈاکٹر عرفان کریم کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق خان آف قلات میر احمد یار خان کے خاندان سے ہے،ایسے میں کوئی تبدیلی آنے کی بھلا کیا امیدکی جاسکتی ہے۔