مینڈیٹ کی لڑائی

یہ شور کسی ایک گاؤں، شہر یا کسی ایک صوبے میں نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک، بلوچستان سے پنجاب تک اٹھا ہوا ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

11 مئی تک اہل سیاست اپنے جلسوں، جلوسوں، پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے کی چوریوں، ایک دوسرے کی بدعنوانیوں، نااہلیوں، اربوں روپوں کی کرپشن کے انکشافات کر رہے تھے، ہر شخص دوسرے کے مقابلے میں اپنے آپ کو ایماندار، مخلص، اہل اور پارسا ثابت کر رہا تھا اور بے چارے عوام جو ابھی تک ان سیاسی ہتھکنڈوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے تھے۔ پھر وہ فیصلے کا دن آیا جس میں عوام کو اپنے معاشی استحصالیوں میں سے کسی کو چننا تھا، سو وہ جس کے حلقہ اثر یا حلقہ دام میں گرفتار تھے انھوں نے اسے چن لیا، وہ مطمئن تو نہ تھے لیکن ایک مبہم سی امید ضرور رکھتے تھے کہ شاید اس بار ان کے مسائل میں کمی ہوجائے۔

ابھی وہ اس آس اور نراش کے بیچ میں ہی لٹکے ہوئے تھے کہ ایک شور، ایک غلغلہ بلند ہوگیا کہ ''کسی کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے'' حیران عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ ''مینڈیٹ'' کیا ہوتا ہے، کس چڑیا کا نام ہے؟ پھر ہر چور دوسرے چور کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا، جن کے ساتھ اس بار بھی وہی سادہ لوح عوام تھے جو 11 مئی کو اپنی قسمت پر اپنے ہاتھوں ٹھپے لگاچکے تھے، اب وہی عوام ان شرفا، عوام دوستوں، عوام کے غم میں مرے جانے والے عوامی رہنماؤں کے جلسوں، مظاہروں، دھرنوں کا ایندھن بنے ہوئے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ اس بار غریب عوام کے ساتھ برگر فیملیوں کے چمکتے دمکتے چہرے بھی شامل ہیں۔

یہ شور کسی ایک گاؤں، شہر یا کسی ایک صوبے میں نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک، بلوچستان سے پنجاب تک اٹھا ہوا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، سب ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہیں اور بے چارے عوام حیرت سے کبھی ایک چور کو دیکھ رہے ہیں تو کبھی دوسرے کو۔ اس کا انجام کیا ہوگا اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہے، لیکن لگ یہی رہا ہے کہ ہمارے تقدس مآب سیاستدان ملک کو ایک بار پھر دانستہ یا نادانستہ 1977 کی طرف لے جارہے ہیں، اس حماقت کا انھیں تو کوئی نقصان نہیں ہوگا، یہ عوام کے خون کا تلک لگا کر کسی نئے ضیاء الحق کی حکومت کا حصہ بن جائیں گے البتہ بے چارے عوام ایک بار پھر ایک ایسے اندھے کنوئیں میں جاگریں گے۔

جہاں ووٹ ہوگا نہ مینڈیٹ، نہ انتخابات نہ جمہوریت، عوام کو استعمال کرنے والوں کی زندگی تو اور چکا چوند ہوجائیں گی، بے چارے عوام کے گھر مٹی کا دیا ہی رہے گا۔ یہ ڈرامے اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک عوام ووٹ کی اہمیت، مینڈیٹ کی اہمیت سے بے بہرہ رہیں گے اور کبھی ایک بہروپیے کی طرف کبھی دوسرے مداری کی طرف دوڑتے رہیں گے۔ ہم حیران ہیں کہ عوام 65 سال سے کلغی دار پگڑیوں، نوکدار مونچھوں، سرخ و سپید اور نورانی چہروں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ کیوں اپنی صفوں، اپنی گلیوں، اپنے محلوں، اپنی کچی پکی آبادیوں میں اپنی قیادت تلاش نہیں کرتے؟


مینڈیٹ کی جنگ میں ایسے ایسے منظر سامنے آرہے ہیں کہ دل سے بے اختیار مرحبا سبحان اﷲ کی آواز نکلتی ہے۔ ایک صاحب، دوسرے کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر انھیں اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کی شکایت ہے تو ان کے لیے الیکشن کمیشن کا تھانہ کھلا ہے اور فخروبھائی جیسا اصول پسند تھانے دار موجود ہے، جائیں وہاں اپنے مینڈیٹ چوری ہونے کی رپٹ لکھوائیں اور قانون کا راستہ اختیار کریں، یہی صاحب کراچی میں مینڈیٹ کی چوری کے خلاف خود بھی دھرنے دے رہے ہیں اور دوسرے تگڑے دھرنوں کا حصہ بھی بن رہے ہیں، بے چارے عوام اس دہری سیاست کو دیکھ کر شرم سے پانی ہورہے ہیں۔

اس حوالے سے دوسرا اس سے زیادہ دلچسپ منظرنامہ ہمارے سامنے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو عوام نے اتنا مینڈیٹ دیا ہے کہ پنجاب میں اسے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے جب کہ مرکز میں عوام نے اسے اتنا مینڈیٹ دیا ہے کہ کسی کا احسان لیے بغیر وہ مرکز میں اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن خدا جانے اسے کیا ہو گیا ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کو بھی دھڑا دھڑ اپنی جماعت میں کر رہی ہے۔ یہ لوگ جو کسی نہ کسی لالچ میں کہیں اپنی تانگہ پارٹیوں کو اس حکمران پارٹی میں ضم کر رہے ہیں تو کہیں اس کا حصہ بننے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق بن بھی گئے ہیں۔ آزاد امیدواروں کی ایک لائن جاتی عمرہ رائے ونڈ کے گیٹ کے سامنے کھڑی ہے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو اپنی وفاداریوں کے یقین دلانے کے لیے بے قرار ہے۔

معلوم یہ ہوا ہے کہ میاں صاحب اپنی وزارت عظمیٰ کو بھی متفقہ بنانا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب اگر اپنی وزارت عظمیٰ کو متفقہ بنانا چاہتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انھیں روکنے والے لیکن ہمارے ذہن میں بہرحال یہ سوال لازماً سر اٹھاتا ہے کہ کیا یہ سارے محبان (ن)لیگ یہ ''قربانی'' فی سبیل اﷲ دے رہے ہیں یا ان کے دلوں اور ذہنوں میں اس کی کوئی قیمت ہے جو وہ بعد میں وصول کرنا چاہتے ہیں، یہ قیمت چاہے انھیں نقد ملے یا ادھار، ہماری سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ''سانجھے کی ہنڈیا ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے''۔

ہوسکتا ہے میاں برادران زرداری سے زیادہ بڑی مفاہمتی پالیسی میں مخلص ہوں لیکن ماضی کے تلخ تجربے اور زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا انجام دیکھ کر ہمیں یہ ڈر ضرور لگ رہا ہے کہ قوم و ملک کی قسمت سنوارنے کے جوش میں کہیں عوام کی قسمت نہ بگاڑلیں کیونکہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں وہ منڈی کی معیشت کا ہے اور اس نظام میں ہر چیز بیچی، ہر چیز خریدی جاتی ہے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ان سادہ لوح 18 کروڑ بندوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ''یہاں درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری'' ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، جہاں سانپ کے بل سے ایک بار ڈسا جانے والا دوبارہ سانپ کے بل کے قریب نہیں جاتا، ہمیں حیرت ہے کہ 65 سال سے تین نسلیں گزارنے والے اب تک ان مداریوں کے سحر سے باہر کیوں نہیں نکل پا رہے ہیں۔

اے بھولے بادشاہو! کسی کا مینڈیٹ نہیں چرایا جارہا ہے بلکہ 18 کروڑ عوام کو چرایا جارہا ہے۔۔۔۔ کچھ خبر ہے تمہیں؟
Load Next Story