شاہ جی اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے

سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود میں انھیں کہتا،’’شاہ جی آپ بھی کس وقت بیمار ہوئے ہیں‘ جب سیاست گرم ہے۔

latifch910@yahoo.com

خاصے دنوں سے شاہ جی کی یاد میں کچھ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا ہوں لیکن درمیان میں کچھ ایسے معاملات آ گئے کہ یہ کام التوا میں پڑ گیا۔ شاہ جی 6 مئی 2013ء کو اس دنیا سے چلے گئے' ان کے انتقال سے دو روز قبل میں' ایاز خان اور ہمارے سینئر رپورٹر رضوان آصف سی ایم ایچ لاہور میں ان سے ملاقات کر کے آئے تھے۔

شاہ جی جب سے اسپتال میں لائے گئے' ہمارا تینوں کا یہ معمول رہا کہ ہر دوسرے روز ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ شاہ جی جیسی باغ و بہار شخصیت ہماری آنکھوں کے سامنے خزاں کا شکار ہوئی۔ وہ بتدریج موت کی اندھیری وادی کی جانب محو سفر تھے' ہمیں حقیقت کا علم تھا لیکن ہم جب ان کے پاس جاتے تو مصنوعی مسکراہٹ سے کہتے' ''شاہ جی' بس چند دنوں کی بات ہے، آپ پھر دفتر جانا شروع ہو جائیں گے''۔

سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود میں انھیں کہتا،''شاہ جی آپ بھی کس وقت بیمار ہوئے ہیں' جب سیاست گرم ہے' لوگ آپ کے کالموں کا انتظار کر رہے ہیں،'' وہ اس کا کوئی جواب نہیں دیتے تھے' انھیں خود اپنی بیماری کے بارے میں بہت کچھ علم تھا' وہ بڑے حقیقت پسند آدمی تھے۔ زندگی کے آغاز اور اختتام کے فلسفے سے پوری طرح آگاہ۔ ان کی آنکھوں سے صاف پیغام مل رہا تھا، ''یار میرا دل رکھنے کے لیے تم یہ سب کہہ رہے ہو' ورنہ آخری سفر شروع ہو چکا ہے''۔

شاہ جی کینسر کے مرض کا شکار تھے' مجھے اس کا پتہ بہت پہلے سے تھا' یہ غالباً 2009ء کی بات ہے' شاہ جی ڈیفنس لاہور کے ایک اسپتال میں معمول کے میڈیکل چیک اپ کے لیے داخل ہوئے' رات گئے میں' ایاز خان اور محسن گورایہ ان سے ملنے کے لیے گئے' ان کے کمرے میں خاصے لوگ موجود تھے' تھوڑی دیر کے بعد شاہ جی بولے، ''یار چلو مجھے تھوڑی دیر کے لیے گھما پھرا لاؤ' ہم چاروں اسپتال سے نکلے اور کار میں بیٹھ گئے۔ محسن گورایہ گاڑی ڈرائیور کر رہے تھے۔ شاہ جی بولے کہ میں اس لیے کمرے سے باہر آیا ہوں کہ آپ لوگوں سے ایک راز کی بات کرنی ہے لیکن یہ میرے اور تمہارے درمیان رہنی چاہیے۔

ہم نے سمجھا کہ شاید کوئی دفتر کی بات ہو گی لیکن انھوں نے بتایا، ''ڈاکٹروں نے تمام ٹیسٹوں کے بعد کینسر کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور یہ بات میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں۔ یہ سن کر ہم چپ ہو گئے۔ تھوڑی دیر تک مکمل خاموشی رہی' ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہیں۔ شاہ جی بھی خاموش تھے' پھر محسن گورایہ نے سکوت توڑا' شاہ جی' آپ کو کچھ نہیں ہو گا' ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے' یہ تو نہیں کہا کہ آپ کو کینسر لاحق ہو گیا' ایاز خان نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر ہم تینوں نے شاہ جی کو کہا کہ آپ بلاوجہ اسے دل پر لے رہے ہیں' سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا' آپ بیرون ملک علاج کے لیے جائیں' وہاں سب پتہ چل جائے گا' ویسے بھی آجکل کینسر کا علاج ممکن ہے' حمید اختر صاحب کو کینسر تھا' اس کے باوجود وہ برسوں تک جئیے' یوں گپ شپ کا ماحول بن گیا۔ یہ تھا وہ پہلا واقعہ جب ہمیں پتہ چلا کہ شاہ جی کو کینسر ہے۔


شاہ جی چند روز کے بعد دفتر آ گئے اور کچھ عرصہ کے بعد علاج کے لیے سنگا پور چلے گئے۔ سنگا پور میں لگ بھگ ایک ماہ رہے' وہاں بھی روزانہ ٹیلی فون پر ان سے رابطہ رہا' اداریہ اور کالم ڈسکس ہوتے' جب وہ واپس آئے تو خوش تھے' کہنے لگے کہ اب میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں'کینسر نہیں تھا' اس کے بعد زندگی بھر پور ہو گئی' ان کے کمرے میں محفل لگ جاتی تھی' شاہ جی بنیادی طور پر ایک مجلسی آدمی تھے' بذلہ سنج' طنز گو اور طنز نگار' شاعر سب کچھ ان کی شخصیت کا حصہ تھا' میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا' وہ سرخی کے بادشاہ تھے تو کالم نگاری میں بھی شاید ہی کوئی دوسرا ان کی ہمسری کر سکے۔

وہ اپنے کالموں میں جو تشبیہات اور استعارے استعمال کرتے' ان کا ماخذ لوک کہاوتیں اور ضرب الامثال ہوتی تھیں' اسی لیے وہ دوسروں سے الگ تھے' ایک عوامی طرز زندگی کے مالک' بہر حال سنگا پور سے آنے کے بعد وہ کینسر کو شاید بھول گئے تھے اور پوری قوت سے کام شروع کر دیا' سگریٹ نوشی انتہا کو پہنچ گئی' ایک سگریٹ بجھتا تو دوسرا سلگ جاتا' سگریٹ نوشی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب وہ ''بے نظیر کہانی'' نامی کتاب لکھ رہے تھے' اس کے ساتھ دو مزید کتابوں کا بوجھ بھی پڑ گیا اور پھر سب سے بڑھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے والا گیت ''بھٹو دی بیٹی آئی جے'' کی ویڈیو کی تیاری' ان کتابوں کو جلد مکمل کرنا ان کا جنون تھا' ان کی کتاب کا مسودا پڑھنے اور ایڈٹ کرنے والوں میں میرا بھی کردار تھا' لہٰذا رات کو2 بجے تک دفتر میں کام ہوتا'

پھر وہ گھر چلے جاتے اور وہاں بھی ساری رات جاگتے رہے' اس دوران ان کا واحد سہارا سگریٹ تھا' میں دیکھ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ سگریٹ پی رہے ہیں' میں نے اور ایاز خان نے کئی مواقع پر کہا بھی کہ شاہ جی' آپ بہت زیادہ سگریٹ پی رہے ہیں' احتیاط کریں' لیکن شاہ جی کو کون سمجھائے' وہ جس بات پر اڑ جاتے یا جسے ایک بار سچ مان لیتے تو پھر انھیں اس سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا' یہ جہاں بہت بڑی خوبی ہے' وہاں اس کے منفی پہلو بھی موجود تھے' بہر حال قصہ مختصر وہ نہیں مانے اور سگریٹ کا عمل جاری رہا' کتابیں اور ویڈیو مکمل ہو گئی لیکن انھیں کھا گئی۔

اس کے دوران ہی ان کے دائیں بازو میں درد شروع ہو گیا تھا' وہ مختلف میڈیسنز سے اس درد کو دور کرتے رہے لیکن مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی' پھر وہ وقت بھی آ گیا جب وہ قلم اٹھانے سے قاصر تھے' کالم لکھنے بیٹھتے تو بازو میں شدید درد ہوتا تھا' یہ درد مسلسل روگ تھا' دواؤں سے بھی کم نہیں ہوتا'ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ پھیپھڑوں پر کینسر موجود ہے' پھر غالباً فروری 2012 میں' ایاز خان' رضوان اور میں انھیں ملنے ان کے گھر گئے' وہ بہت پریشان تھے' اس دن فیصلہ ہوا کہ وہ کینسر کے علاج کے لیے مانچسٹر روانہ ہو جائیں۔

اگلے روز وہ مانچسٹر چلے گئے' وہاں وہ تقریباً تین ماہ رہے اور مئی 2012 میں واپس آ گئے' اس کے بعد وہ صرف چار پانچ ماہ ہی دفتر آ سکے' انھوں نے سگریٹ نوشی پھر شروع کر دی تھی' یوں کینسر ایک بار پھر واپس آ گیا اور پھر ایسا واپس آیا کہ 6 مئی 2013 کو انھیں اس دنیا سے اگلی دنیا میں ساتھ لے کر ہی گیا' ان کی یادیں اور باتیں بہت ہیں' کچھ باتیں اور یادیں' پھر کبھی سہی' آج حضرت میاں محمد بخش کے اس لازوال شعر کے ساتھ شاہ جی کو خدا حافظ کہتا ہوں۔

جا او یار حوالے رب دے' میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے
Load Next Story