زمانہ قبل ازعمران

اگر پاکستان میں’’دور عمران‘‘ کی ابتدا ہوچکی ہے تو آنے والے برسوں میں مورخین کئی گروہوں میں بٹ جائیں گے

03332257239@hotmail.com

کیا پاکستان میں عمران خان کا دور شروع ہوچکا ہے؟ 2013کے انتخابات میں ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی قرار پاچکی ہے، کیا یہ اعزاز اس سے قبل کے دور کو ''زمانہ قبل از عمران''قرار دے گا؟کیا مورخ ان انتخابات کو ایک لکیر قرار دیں گے؟ ایسی لکیر جو پاکستان کے پینسٹھ برسوں کو ایک زمانہ اور اب ان نئے انتخابات کے بعد عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دوسرا زمانہ قرار دیں گے، خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے دور کو ''دور عمران''قرار دیاجاسکتاہے؟ پہلے ہم مختصراً زمانوں کی بات کریں گے اور پھر ان امیدوں کی بات کریں گے جن پر پاکستان کی تعمیر نو ہوسکتی ہے۔

عرب کے اس دور کو جو حضورؐ کی بعثت سے پہلے کا ہے، اسے ''زمانہ جاہلیت'' کہاجاتاہے، حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش نے زمانے کو دو حصوں میں بانٹا ہے، ایک کو قبل از مسیح تو دوسرے کو بعد از مسیح کہہ کر پکاراجاتاہے۔ مکے میں نبوت کے ابتدائی برسوں کو نبوی اور مدینے کے دور کوہجری کہہ کر انسانوں کو وقت کی رفتار سمجھائی جاتی ہے۔قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے کو غیر منقسم ہندوستان کہہ کر سمجھایاجاتاہے۔

اگر پاکستان میں''دور عمران'' کی ابتدا ہوچکی ہے تو آنے والے برسوں میں مورخین کئی گروہوں میں بٹ جائیں گے، کچھ اس زمانے کو 11مئی سے شروع کریں گے تو کچھ کی ابتدا یکم جولائی سے ہوگی، جب پاکستان کا مالی سال شروع ہوتاہے ۔تاریخ دانوں کا تیسرا گروہ14اگست کو وہ لکیر قرار دے گا جب ایک زمانہ ختم ہوکر دوسرا شروع ہوا ہے۔کئی لاہور کے مینار پاکستان والے جلسے کو ٹیک آف قرار دیں گے تو کئی عمران کے گرکر زخمی ہوکر پاکستان کو اٹھانے کی تاریخ کو اس دور کی ابتدا قرار دیں گے۔اس مرحلے پر جب ہم نے زمانوں اور مورخین کو سمجھ لیا ہے تو اب ہم دیکھیں گے کہ عمران آنے والے برسوں میں خیبر پختونخوا میں کیا تبدیلی لائیں گے جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرے گی۔ ایسی تبدیلیاں جو اس سے قبل کسی سیاسی حکومت کو کرنا نصیب نہیں ہوئیں۔

پاکستان کی تاریخ70کے انتخابات سے قبل اور بعد کو الگ الگ زمانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اس دور سے دیکھاجائے تو پیپلزپارٹی میں ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیرکو دو دو مرتبہ حکومت کرنے کا موقع ملا۔ایک ایک مرتبہ یوسف گیلانی اور پرویز اشرف کو۔ گویا چار وزراء اعظم، پانچ حکومتوں اور پندرہ برسوں میں ایک مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے۔ اسی طرح نواز شریف دو مرتبہ وزیراعظم، دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور دو مرتبہ شہباز شریف وزیراعلیٰ۔ گویا دو مرتبہ وفاق اور چار مرتبہ صوبے میں حکومتوں کے باوجود، پندرہ برسوں میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ تمام بلدیاتی انتخابات فوجی حکمرانوںنے کروائے۔ جنرل ضیاء نے تین مرتبہ اور جنرل مشرف نے دو مرتبہ۔ عوامی حکومتوں کا عوام کو بنیادی سہولتیں پہنچانے کا کام عمران کے ہاتھوں ہوگیا تو یہ ''دور عمران'' کا پہلا کارنامہ ہوگا۔


جماعت اسلامی کے سوا پاکستان میں کسی پارٹی میں سچے اور کھرے انتخابات کا تصور نہیں۔ ووٹر اراکین اور وہ بھی انتہائی تربیت یافتہ۔ جماعت میں نہ کوئی امیدوار ہوتاہے اور نہ کنوینسنگ۔ پاکستان کی ان روایات سے ہٹ کر عین انتخابات والے سال میں تحریک انصاف میں انتخابات کرواکر عمران نے ایک جمہوری پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس حوالے سے انتخابات کے بعد عمران کی خوش قسمتی یہ رہی کہ جتنی نشستوں کی کمی تھی اتنی ہی تحریک انصاف کو جماعت سے مل گئیں۔ اگر خیبر پختونخوا کرپشن فری قرار پاتاہے اور ترقی کرجاتا ہے تو یہ پاکستان کی ترقی کی بنیاد ہوگی۔ بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے والے کہتے ہیں کہ ''دانشمند پٹھانوں'' کے علاقے کی زمین قیمتی ہونے والی ہے کہ صنعت وتجارت اس طرف سمٹ جائے گی۔ اگر عمران شفافیت اور امن کی بنیاد خیبر پختونخوا میں رکھ دیتے ہیں تو واقعتاًیہ زمانہ جس میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ دور عمران قرار پائے گا۔ اگر یہ ہوگیا تو اس سے پہلے کے دور کو زمانہ قبل از عمران کہنے سے کون روک سکے گا۔

عمران کے پاس موقع ہے کہ وہ کوہستانی لوگوں کو یکساں تعلیمی نظام دے جائیں۔ یہ شعبہ صوبائی حکومت کے پاس ہے اور تحریک انصاف کے لیے کچھ کر دکھانے کے مواقع ہیں۔ ان کے پاس نئے لوگوں کا جنون وجذبہ ہے تو دوسری طرف جماعت کے لوگوں کا خلوص وتجربہ۔ یہ چاروں مل کر خیبر پختونخوا کو چار چاند لگاسکتے ہیں۔ چاند جو سب سے پہلے جہاں نظر آتا ہے ان ہی کا حق ہے کہ وہ پہلے اپنے صوبے کو چارچاند لگائیں کہ ووٹ انھوںنے نظریے کو دیا تھا ۔ وہ پٹھان جنھیں قیام پاکستان کی اہمیت سب سے آخر میں سمجھ آئی انھیں استحکام پاکستان کی اہمیت سب سے پہلے سمجھ آگئی ہے۔ صوبے کے زیر انتظام دوسرا شعبہ پولیس کا ہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس کو سب سے اچھا قرار دیاجاتاہے۔

اگر عمران اپنا وعدہ کہ ''قانون کے سامنے سب برابر'' پورا کرجاتے ہیں تو یہ ان کے منزل کی جانب بڑھنے کا ایک اور قدم ہوگا۔ کشکول توڑنے کی ابتدا پہاڑی علاقے سے ہو تو لوگ یقین کریںگے کہ میدانی علاقوں میں اس لعنت سے چھٹکارا پایاجاسکتاہے۔ پھر اسلام آباد کی سرد فضائوں میں کام کرنے والے''خودی نہ بیچ فقیروں میں نام پیدا کر'' کی صدا ئیں لگائیں گے۔ اگر صدی کے دوسرے عشرے کے دوسرے سال کے بعد کے زمانے کو ''دور عمران'' قرار دلوانا ہے تو کم از کم صوبے میں یہ کام تو کرنے ہوں گے۔

اگر! جی ہاں ایک بہت بڑا اگرمسلم لیگ کے حامیوں کے لیے ہے۔ نواز شریف کے چاہنے والے بھی چاہیںگے کہ ان کے قائد کے ہاتھوں یہ کام سرانجام پائیں۔ ٹائیگر کو انتخابی نشان بنانے والوں کے ذہن میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خیال دو عشروں سے ہے۔ اب لوگوں کی نظریں پاکستان کے پہاڑی اور میدانی علاقوں کی جانب ہوںگی۔ وفاقی حکومت کو شہباز شریف اور پرویز خٹک کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ تحریک انصاف ایک صوبے میں بہتر حکومت دے کرہی وفاق میں حکومت کی دعویدار بن سکتی ہے۔نواز شریف اور عمران خان اگلے انتخابات میں ایک بار پھر مضبوط حریف بن کر میدان میں اتریں گے۔ عمران کا نعرہ کہ سبز پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت ہوگی، ایسا نعرہ ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں لگایاہے۔

دو نعرے اور ہیں جن کے اس عشرہ کے اختتام تک آثار اس دور کو ''دور عمران'' قرار دلواسکتے ہیں۔ اگر ترکی کی طرح آنے والے دور میں صوبے کی فی کس آمدنی دگنی ہوگئی، ملائیشیا کی طرح سب مل جل کر رہنے لگے، بھارت کے صوبے بہار کی طرح کرپشن ختم ہوگئی تو 2013کے بعد سے شروع ہونے والے عشرے کو دور عمران قرار دیاجائے گا۔ اگر کپتان نہ کسی کے سامنے خود جھکے اورنہ پاکستانیوں کو جھکنے دیا تو کون انکار کرسکے گا کہ آنے والا دور پاکستان کا سنہری دور کہلائے گا اور اس سے قبل کے زمانے کو کہاجائے گا ''زمانہ قبل از عمران''۔
Load Next Story