زراعت کی تباہی

ملکی پانی کی تقسیم میں سندھ ہمیشہ ناانصافی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے معاشی بحران میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے۔

SUKKUR:
خدائے ذوالجلال نے ہمیں ایک ایسا خطہ عطا کیا ہے جہاں کی زمینیں اپنی تہہ میں اگر تیل ، گیس ، کوئلہ ، سونا ، چاندی ، ہیرے جواہر و دیگر معدنیات چھپائے ہوئی ہیں تو اپنے اوپر اناج ، سبزیوں اور پھل فروٹ اور پان، گنا ، گھاس و ہریالی جیسا بے بہا خزانہ بکھیرے رہتی ہیں۔

یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت زراعت کو حاصل ہے ۔آج بھی یہاں کی کپاس ، گنا،پیاز ، مرچ ، کیلا و ٹماٹر ، آم اور دیگر زرعی اجناس ملکی و بین الاقوامی مارکیٹ میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں ۔ ہماری معیشت میں زراعت اہم عنصر ہے اور زراعت میں اہم جُز پانی ہے کیونکہ پانی کے بغیر زراعت ممکن نہیں ہے ۔

انگریز کے اس خطے میںآنے سے پہلے یہاں فقط قدرتی آبی نہریں تھیں جو کہ دریاؤں میں سیلاب آنے کی صورت میں بہتی تھیں یعنی پانی کی کوئی ٹھوس و یقینی دستیابی کی صورتحال نہیں تھی۔ انگریز نے اس خطے میں نہری نظام کی بنیاد رکھی اور پنجاب وسندھ میں بڑے پیمانے پر بیراج و کینال تعمیر کیے ، جس کی سب سے اعلیٰ مثال سکھر بیراج ہے ، جوکہ 66دروازوں پر مشتمل سب سے بڑا بیراج ہے ۔ اس میں سے 7نہریں نکالی گئیں ۔ ان نہروں میں نارا کینال اور روہڑی کینال جیسی طویل نہریں بھی ہیں جو عمر کوٹ و بدین تک پانی پہنچاتی ہیں۔

یوں یہاں سال کے 12مہینے پانی کی یقینی دستیابی کا انتظام ہوا اور وہیں سے اس خطے میں سبز انقلاب آیا ۔ موسم گرما میں مون سون کی بارشوں اور گرمی کے دورانیے کے باعث گلیشئرز کے پگھلنے سے ربیع میں کاشت کے لیے پانی کی دستیابی کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہاجب کہ سرد اور خشک موسم کے بعد شروع ہونے والی خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی دستیابی ابتدا سے مسائل کا شکار رہی، جو کہ انگریز کی جانب سے آبپاشی نظام کی مؤثر مانیٹرنگ کی بدولت اور پھر قیام ِ پاکستان کے بعد تربیلا کی تعمیر سے یہ معاملات کافی حد تک سلجھ گئے ۔ لیکن گذشتہ 3عشروں سے ملک میں منصفانہ پانی کی تقسیم نہ ہونے اور ملک کی مجموعی زراعت کی ترقی کے لیے جامع و مؤثر پالیسی اوراقدامات نہ اپنانے کی وجہ سے ایشیا کے سب بڑے نہری نظام کی موجودگی کے باوجود یہ شعبہ ایک بار پھر مسائل کے دلدل میں پھنستا چلا گیا ۔

یہ ملک کی بدقسمتی کہیے کہ برابری کی بنیاد پر ملک بنانے والی اکائیوں کے ساتھ برابری والا سلوک کبھی روا نہیں رکھا گیا اور ملک میں صوبائی سوچ کو پروان چڑھایا گیا جس سے پہلے سے دولخت ہواملک عملی طور پرپھر نئے دو بلاک میں تقسیم ہوگیا ۔ ایک طرف پنجاب اور دوسری طرف باقی تین صوبے ۔ پنجاب کے مفادات کو ملکی مفاد قرار دیا جانے لگا ۔ ایک صوبے کے مفادات کو فوقیت دینے والے اس پس منظر میں ملکی زراعت کا شعبہ اور پانی کی تقسیم بھی قومی پالیسی سے نکل کر صوبائی تضاد کی شکل اختیار کرگئی۔

اس روش کی وجہ سے خوشی خوشی تربیلا ڈیم کی تعمیر پر راضی ہونے والے تینوں صوبے دیگر آبی ذخائر کے ایسے سخت مخالف بن گئے کہ مرنے مارنے کا ماحول بن گیا اور پھر قدرتی میٹھا دریاؤں کا پانی سردیوں کی وہ رضائی بن گیا جسے ہر کوئی اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ پھر ملکی معاملات '' جس کی لاٹھی اُس کی بھینس'' کی طرح چلنے لگے ۔ اور ''لاٹھی'' چونکہ بڑے صوبے کے ہاتھ میں تھی اس لیے ''بھینس '' یعنی ملک اُس کا ہوگیا اور وہ ملک کے سفید و سیاہ کا مالک بن بیٹھا ۔

اب دیگر شعبوں کی طرح زراعت میں بھی ایسے فیصلے ہونے لگے کہ زراعت ترقی کے بجائے مجموعی تنزلی کا شکار ہو کر رہ گئی ۔ ایک صوبے میں زراعت کے فروغ کے لیے اسکیمیں ایسی بنائی گئیں کہ دوسرے صوبے کی زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ۔ پنجاب میں کینال و نہریں اس طرز پر بنائی جانے لگیں کہ ان کی وجہ سے سندھ کو کم پانی ملنے کی وجہ سے سندھ کی زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ۔

پنجاب میں اگر فیصل آباد و دیگر علاقوں میں زرعی اجناس کے بمپر کراپس ہونے لگے تو سندھ کو کم پانی ملنے سے لاڑکانہ اور دادو کے معروف ''سگداسی چاول''کی فصل اورسندھ بھر کی عالمی معیار کی کپاس نایاب ہونے لگی جب کہ کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ جانے کے سبب کھارو چھان و شاہ بندر کی پان و کیلے اور گنے کی فصلیں ختم ہوکر رہ گئیں ۔ بھلے ہی پنجاب میں بمپر کراپس پر شادمیانے بجے ہوں لیکن ملک کی مجموعی زرعی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

پالیسیاں ایسی ہونی چاہیے تھیں کہ پہلے سے آباد خطوں کو بحال رکھتے ہوئے دیگر علاقوں میں زراعت کو ترقی کے لیے کام ہوتا ۔ کہتے ہیں کہ نفاق کی وجہ سے برکت ختم ہوجاتی ہے اور پاکستان کی سطح پر زراعت اور پانی کی دستیابی پر یہ بات سولہ آنے سچ ثابت ہوئی ہے ۔ جب سے یہاں پانی پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش میں تنازعہ شدید ہوا ہے تب سے ملک میں واقعتا پانی کی کمی لاحق ہوگئی ہے ۔


دوسری جانب پنجاب سے بھی بالائی پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے انڈیا خاموشی سے پاکستان بھر کا پانی روکتا چلا گیا ۔ اگر پاکستانی حکمرانوں کی توجہ ملک کی مجموعی پانی صورتحال بہتر کرنے پر ہوتی تو وہ انڈیا سے پانی تنازعہ پیدا ہونے سے پہلے پانی میں اپنا حصہ بڑھا چکے ہوتے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے کیونکہ سندھ کے خلاف پالیسی اختیار کرتے ہوئے جو سمندر میں پانی کے ضایع ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈہ جاری رکھا ہوا ہے اُسی موقف کی بنیاد پر انڈیا عالمی کیس جیت گیا ہے ۔ لیکن اتنے بڑے قومی نقصان اُٹھانے کے بعد بھی حکمران ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں۔

ملکی پانی کی تقسیم میں سندھ ہمیشہ ناانصافی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں معاشی بحران میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب کہ آبی ذخائر پر تنازعات کی بنیادی وجہ اعتماد کی کمی ہے ۔ کونسل آف کامن انٹریسٹ یعنی سی سی آئی کا پلیٹ فارم بھی اس لیے چھوٹے صوبوں کو حق دلانے میں ناکام رہا ہے تو اس کی وجہ بھی قومی آبی پالیسی کا غیرجانبدارانہ نہیں ہونا ہے ۔ وفاق کی جانب سے پنجاب کے مفاد کو فوقیت دیتے ہوئے تمام میثاقوں کی مسلسل شکنی کرکے سندھ کے ساتھ کی گئی ماضی کی ہرزہ سرائیوں کی بنیاد پر سندھ اب کسی آئینی و ریاستی ضمانت پر بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔

ایسی صورتحال میں وفاق کو چاہیے کہ سندھ کے اعتماد کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے سب سے پہلے آبی قلت والے دنوں یعنی خریف کی پہلی سہ ماہی میں منگلا ڈیم کو بھرنے کے بجائے سندھ کی ضروریات پوری کرنے کو ترجیح دی جائے اور اس کے بعد منگلا کو بھراجائے کیونکہ سندھ میں پنجاب کی نسبت ایک ماہ پہلے کاشت ہوتی ہے ۔ منگلا سے سندھ کو اپنے حصے کا پانی دیا جائے ۔

1991کے اکلوتے ملکی آبی معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے ۔ اسی معاہدے میں کیے گئے وعدے کے مطابق کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم میں 10ایم اے ایف پانی چھوڑا جائے اور چشمہ جہلم و تونسہ فلڈ لنک کینالز کو غیر قانونی طور پر سارا سال چلانے کے بجائے صرف سیلاب کے دنوں میں ملکی نہری نظام کی ضروریات کی تکمیل کے بعد کھولا جائے وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے بعد آبی ذخائر میں سے پہلے بھاشا ڈیم تعمیر کرکے اس کی تقسیم کو شفاف و غیر جانبدار بنایا جائے تو دیگر ذخائر کی تعمیر کے لیے بھی سازگار ماحول میسر ہوجائے گا۔

18ویں ترمیم کے بعد زراعت کے صوبائی اسم بننے کے بعد صوبائی حکومت نے بھی صوبہ میں زراعت کو فروغ دینے کی پالیسیوں کے بجائے کاشتکاروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے والی وفاقی پالیسیوں کی پیروی کی ہے اور صوبہ میں سیاسی تقرریوں اور خراب طرز حکمرانی کی روش روا رکھتے ہوئے غیر مساواتی بنیادوںپر تقسیم اور وارا بندی کے ذریعے نہری نظام کے آخری سروں تک پانی کی عدم دستیابی کی صورتحال برپا کی گئی ہے ۔ صوبہ میں جعلی زرعی اجناسی بیجوں اور زرعی ادویات کی بھی بھرمار ہے۔

ہمارے یہاں زرعی تحقیق کے ادارے نہیں ہیں یا پھر تحقیق کرنے والے لوگوں کی کمی ہے بلکہ عالمی سطح کی ٹنڈو جام ایگریکلچر یونیورسٹی اور فیصل آباد زرعی تحقیق و PARCریسرچ سینٹر اسلام آباد سمیت ملک بھر میں سیکڑوں زرعی تحقیق کے ادارے موجود ہیں لیکن نہیں ہے تو ملک کی مجموعی زراعت کی ترقی کی نیت نہیں ہے ۔جب کہ عالمی شہرت یافتہ زرعی سائنسدانCoupleایم ایچ پنہور اور فرزانہ پنہور جیسی محب وطن شخصیات بھی ہیں جو تحقیق کرتے کرتے ایک اللہ کو پیارے ہوگئے تو دوسری عمر کے آخری حصے میں ہونے کے باوجود بھی تحقیق کو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہاں اُن کی تحقیق سے عملی طور پرنہ کوئی خاص فائدہ لیا گیا ہے اور نہ ہی اس عظیم سائنسدان کو ملک کے بیشتر لوگ جانتے ہیں ۔

اب زراعت کی پیداوار پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں دنیا میں ٹماٹر کی فی ایکڑ پیداوار 169ٹن ہے وہاں ہمارے یہاں صرف 4ٹن ہے ۔ جس کی وجہ سائنسی تحقیق کو پس پشت ڈالنے کے ساتھ ساتھ غیر مؤثر طریقہ زراعت اور سرکاری پالیسیاں ہیں ۔ ماضی میں مویشیوں کا فضلہ زمین میں استعمال ہوتا تھا جس میں طبعی و کیمیائی خاصیت بہت زیادہ تھی اور اس کے سائیڈ افیکٹ یعنی منفی اثرات کی شرح بھی بہت کم ہے ، جس سے زمین کو طاقت ملتی ہے۔

آج بھی یہ طریقہ دنیا میں رائج ہے لیکن اب یہاں اس کا استعمال ختم ہونے کے قریب رہ گیا ہے جس کی وجہ یوریا کمپنیوں کی جانب سے اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے اس دیسی کھاد کے خلاف کیا جانے والاپروپیگنڈہ ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر ہمارے یہاں زرعی پیداوار کی سراسری شرح دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ زراعت کی تباہی پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2017-18میں زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں 38%اضافے کے باوجود کاشتکاروں اور زراعت کے شعبے کی حالت بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی ۔

اب تو ''نیا پاکستان '' بھی بن گیا ہے ۔ دیکھتے ہیں دیگر ملکی اُمور کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبہ کی بہتری کے لیے کیا اقدامات ہوتے ہیں؟ ہوتے بھی ہیں یا صورتحال کو ویسا ہی بھیانک رکھا جاتا ہے؟۔۔۔ جس سے قلت ِ آب اور غذائی قلت کی بناء پر ہمارے معصوم بچے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں ۔۔۔۔!!!
Load Next Story