خیبر پختون خوا میں 2 سال کے دوران 62 خواجہ سرا قتل
خواجہ سراؤں کے کیسز ناقص تفتیش اور کمزور دفعات کے باعث منطقی انجام کو نہیں پہنچتے، رپورٹ
خیبر پختون خوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے، 2 سال کے دوران 62 خواجہ سرا قتل کیے گئے مگر کسی ملزم کو سزا نہ ملی ۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبر پختون خوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد اور ان کے قتل کا سلسلہ تھم نہ سکا، چند روز قبل پشاور میں خواجہ سرا نازو کو اس کے دوست نے بے دردی سے قتل کردیا۔
شی میل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ٹرانس جینڈر ایکشن کے مطابق 2015ء سے 2018ء کے دوران پشاور، بنوں، کوہاٹ، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان میں 62 خواجہ سرا قتل ہوچکے ہیں،خواجہ سراؤں کے کیسز ناقص تفتیش اور کمزور دفعات کے باعث منطقی انجام کو نہیں پہنچتے، خواجہ سراؤں کی شناخت، صحت کی سہولیات اور حقوق کے مسائل حل طلب ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواجہ سراؤں پر تشدد کے 450 واقعات سامنے آئے، حکومت کی طرف سے خواجہ سراوں کے لیے اعلان کردہ انڈوومنٹ فنڈ بھی قائم نہ ہوسکا۔
خواجہ سراؤں کا اپنے اوپر ڈھائے گئے ظلم و ستم پر کہنا ہے کہ ہم کہاں جائیں، کوئی ہمیں پوچھنے والا نہیں، ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا جارہا ہے، کسی بھی خواجہ سرا کے قتل کے بعد پولیس ابتدائی رپورٹ تو درج کر لیتی ہے لیکن ناقص تفتیش اور کمزور دفعات کے باعث 90 فیصد ملزمان سزا سے بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں حکومت ہمیں انصاف دے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبر پختون خوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد اور ان کے قتل کا سلسلہ تھم نہ سکا، چند روز قبل پشاور میں خواجہ سرا نازو کو اس کے دوست نے بے دردی سے قتل کردیا۔
شی میل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ٹرانس جینڈر ایکشن کے مطابق 2015ء سے 2018ء کے دوران پشاور، بنوں، کوہاٹ، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان میں 62 خواجہ سرا قتل ہوچکے ہیں،خواجہ سراؤں کے کیسز ناقص تفتیش اور کمزور دفعات کے باعث منطقی انجام کو نہیں پہنچتے، خواجہ سراؤں کی شناخت، صحت کی سہولیات اور حقوق کے مسائل حل طلب ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواجہ سراؤں پر تشدد کے 450 واقعات سامنے آئے، حکومت کی طرف سے خواجہ سراوں کے لیے اعلان کردہ انڈوومنٹ فنڈ بھی قائم نہ ہوسکا۔
خواجہ سراؤں کا اپنے اوپر ڈھائے گئے ظلم و ستم پر کہنا ہے کہ ہم کہاں جائیں، کوئی ہمیں پوچھنے والا نہیں، ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا جارہا ہے، کسی بھی خواجہ سرا کے قتل کے بعد پولیس ابتدائی رپورٹ تو درج کر لیتی ہے لیکن ناقص تفتیش اور کمزور دفعات کے باعث 90 فیصد ملزمان سزا سے بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں حکومت ہمیں انصاف دے۔