کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل ناگزیر
نوجوت سنگھ سدھو بھارتی ٹی وی پروگرام کے ذریعے پاکستانی عوام میں انتہائی مقبول ہیں
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ امن کے لیے تمام تصفیہ طلب معاملات پر پاک بھارت مذاکرات ضروری ہیں۔ غربت مٹانے اور برصغیر کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کا آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کیے جائیں اور باہم تجارت کا آغاز کیا جائے۔ عمران خان کے الیکشن میں کامیابی کے بعد مودی حکومت نے انتہائی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا اور دوستانہ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی توقع ظاہر کی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان امن کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کامیابی کے بعد اپنی وکٹری اسپیچ میں عمران خان نے کہا تھا کہ باہمی رشتوں میں بہتری کے لیے بھارت اگر ایک قدم آگے آئے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھائیں گے۔
نوجوت سنگھ سدھو کے حوالے سے کہا کہ سدھو امن کا سفیر ہے۔ اس نے پاکستانی عوام کو پیار محبت دیا ہے۔ بھارت میں جو لوگ سدھو کے خلاف تلواریں سونتے ہوئے ہیں وہ حقیقت میں برصغیر کے امن پر حملہ آور ہیں۔ امن کے بغیر ہمارے لوگوں کی ترقی ممکن نہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو نے نہ صرف عمران کی حلف برداری میں شرکت کی بلکہ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی گلے ملے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں سدھو کے خلاف نہ صرف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا بلکہ ان کے سرکی قیمت بھی مقرر ہوچکی ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو بھارتی ٹی وی پروگرام کے ذریعے پاکستانی عوام میں انتہائی مقبول ہیں۔ اپنے دورہ پاکستان میں انھوں نے پاکستانیوں کے دل اپنی بے ساختہ کھلی ڈلی اور پر خلوص گفتگو سے جیت لیے۔ یہاں تک بھی بات کی گئی کہ انھیں اگر پاکستان میں الیکشن لڑایا جائے تو وہ یقینی طور پر جیت جائیں گے۔ سدھو کی شخصیت کا اہم ترین رخ ان کی خوش مزاجی ہے۔ اردو ہندی پنجابی اور انگریزی پر ان کی کمانڈ ہے۔
شاعر اور اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا علم سے گہرا ناطہ ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ پاکستان آئے تو پاکستانی میڈیا نے ان کا ایسا زبردست خیر مقدم کیا کہ سنیل گواسکر اور کپل دیو کے نہ آنے کی کمی دور ہوگئی۔ انھوں نے وزیراعظم عمران خان کی محبت میں جو اشعار کہے وہ پاکستان میں بہت مقبول ہوئے۔ ہندوستان جیوے۔ پاکستان جیوے، میرا یار عمران خان دلدار جیوے۔ تقریب حلف برداری اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی جب آرمی چیف سدھو سے گلے ملے اور ہاتھ ملایا۔ اس موقعہ پر دونوں کی گفتگو بھی ہوئی جو پنجابی زبان میں تھی۔ کیونکہ دونو حضرات فرزندان پنجاب ہیں۔
اس موقعہ پر آرمی چیف نے سدھو کو خصوصی عزت اور محبت سے نوازا اور آرمی چیف کی طرف سے یہ سلوک نوجوت سنگھ سدھو کے لیے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس موقع پر سدھو کے ذریعے پوری دنیا اور خصوصاً بھارت کو یہ پیغام دیا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور امن پسندوں ہی کو منزلیں ملتی ہیں۔ برصغیر کے عوام جو ایک مدت سے امن کے پیاسے ہیں ان کی دعا ہے کہ سدھو کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کی دوستی کا نکتہ آغاز بن جائے۔ اس موقعہ پر سدھو کے ذریعے بھارتی پنجاب اور دنیا بھر کے سکھوں کی دیرینہ آرزو بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب انھوں نے کہا کہ اگلے سال سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کا جنم دن منایا جانا ہے۔ اپنی خواہش بیان کی کہ اس موقع پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی قیادت میں ایک وفد کی صورت میں آنا چاہتے ہیں۔ اس پر جنرل باجوہ نے خوش دلی سے اجازت دیتے ہوئے کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا اعلان کیا جہاں سے بابا گورونانک کی جنم استھان صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
دوسری طرف چین نے پاکستان اور بھارتی وزرائے اعظم کی طرف سے دو طرفہ کشیدگی کم کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس صورتحال پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا علاقے کے امن استحکام اور خوش حالی کے لیے ضروری۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پچھلے ہفتے عمران خان کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مثبت بامعنی رابطے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے نواز شریف حکومت جانے کا انتظار تھا۔ کیونکہ چین ہو یا روس یا بھارت سب کو پتہ چل چکا تھا کہ جب تک نواز شریف اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوتا پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی سرتوڑ کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح نواز شریف دور میں ہی تعلقات بہتر ہوجائیں۔ آخر کیوں یہ ایک الگ کہانی ہے۔
چین ہو یا روس پاکستان ہو یا ایران سب کا مفاد اسی میں ہے کہ خطے میں 70 سال سے جاری امریکی اثرات پر کاری ضرب لگائی جائے اور اس کے بالادست کردار کا خاتمہ کیا جائے۔ 5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ پاکستان کو دھمکانے اوردباؤ ڈالنے آرہے ہیں۔ اس کے فوراً بعد چینی وزیر خارجہ کا دورہ اس کے دباؤ سے پاکستان کو نکالنے میں مدد دے گا۔ اس ضمن میں مددگار کردار ادا کرنے کے لیے ایرانی وزیر خارجہ اگست کے آخر میں آرہے ہیں۔ پاکستان کی مدد کے لیے تیار روسی ڈپٹی وزیر دفاع خطے کو درپیش متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے چند ہفتے پہلے ہی دورہ پاکستان میں آرمی چیف سے ملاقات کرچکے ہیں۔ طبل جنگ بج چکا۔
ابھی بھارتی وزیراعظم کا عمران خان کو مبارکباد کا ٹیلیفون ہی نہیں آیا تھا کہ میں نے پیش گوئی کردی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر اور مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا کیونکہ عمران کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید حاصل ہوگی۔ اگر تعلقات میں بہتری کا سہرا نواز شریف کے سر بندھ جاتا تو اتنی بڑی سیاسی کامیابی ہوتی کہ مریم نواز اگلے تیس سال تک اقتدار میں ہوتیں۔ رہے نام اللہ کا۔
٭... پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مناسب وقت (اس سال) اکتوبر نومبر ہو گا جس کا آغاز ستمبر کے آخر سے شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان امن کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کامیابی کے بعد اپنی وکٹری اسپیچ میں عمران خان نے کہا تھا کہ باہمی رشتوں میں بہتری کے لیے بھارت اگر ایک قدم آگے آئے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھائیں گے۔
نوجوت سنگھ سدھو کے حوالے سے کہا کہ سدھو امن کا سفیر ہے۔ اس نے پاکستانی عوام کو پیار محبت دیا ہے۔ بھارت میں جو لوگ سدھو کے خلاف تلواریں سونتے ہوئے ہیں وہ حقیقت میں برصغیر کے امن پر حملہ آور ہیں۔ امن کے بغیر ہمارے لوگوں کی ترقی ممکن نہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو نے نہ صرف عمران کی حلف برداری میں شرکت کی بلکہ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی گلے ملے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں سدھو کے خلاف نہ صرف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا بلکہ ان کے سرکی قیمت بھی مقرر ہوچکی ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو بھارتی ٹی وی پروگرام کے ذریعے پاکستانی عوام میں انتہائی مقبول ہیں۔ اپنے دورہ پاکستان میں انھوں نے پاکستانیوں کے دل اپنی بے ساختہ کھلی ڈلی اور پر خلوص گفتگو سے جیت لیے۔ یہاں تک بھی بات کی گئی کہ انھیں اگر پاکستان میں الیکشن لڑایا جائے تو وہ یقینی طور پر جیت جائیں گے۔ سدھو کی شخصیت کا اہم ترین رخ ان کی خوش مزاجی ہے۔ اردو ہندی پنجابی اور انگریزی پر ان کی کمانڈ ہے۔
شاعر اور اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا علم سے گہرا ناطہ ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ پاکستان آئے تو پاکستانی میڈیا نے ان کا ایسا زبردست خیر مقدم کیا کہ سنیل گواسکر اور کپل دیو کے نہ آنے کی کمی دور ہوگئی۔ انھوں نے وزیراعظم عمران خان کی محبت میں جو اشعار کہے وہ پاکستان میں بہت مقبول ہوئے۔ ہندوستان جیوے۔ پاکستان جیوے، میرا یار عمران خان دلدار جیوے۔ تقریب حلف برداری اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی جب آرمی چیف سدھو سے گلے ملے اور ہاتھ ملایا۔ اس موقعہ پر دونوں کی گفتگو بھی ہوئی جو پنجابی زبان میں تھی۔ کیونکہ دونو حضرات فرزندان پنجاب ہیں۔
اس موقعہ پر آرمی چیف نے سدھو کو خصوصی عزت اور محبت سے نوازا اور آرمی چیف کی طرف سے یہ سلوک نوجوت سنگھ سدھو کے لیے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس موقع پر سدھو کے ذریعے پوری دنیا اور خصوصاً بھارت کو یہ پیغام دیا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور امن پسندوں ہی کو منزلیں ملتی ہیں۔ برصغیر کے عوام جو ایک مدت سے امن کے پیاسے ہیں ان کی دعا ہے کہ سدھو کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کی دوستی کا نکتہ آغاز بن جائے۔ اس موقعہ پر سدھو کے ذریعے بھارتی پنجاب اور دنیا بھر کے سکھوں کی دیرینہ آرزو بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب انھوں نے کہا کہ اگلے سال سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کا جنم دن منایا جانا ہے۔ اپنی خواہش بیان کی کہ اس موقع پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی قیادت میں ایک وفد کی صورت میں آنا چاہتے ہیں۔ اس پر جنرل باجوہ نے خوش دلی سے اجازت دیتے ہوئے کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا اعلان کیا جہاں سے بابا گورونانک کی جنم استھان صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
دوسری طرف چین نے پاکستان اور بھارتی وزرائے اعظم کی طرف سے دو طرفہ کشیدگی کم کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس صورتحال پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا علاقے کے امن استحکام اور خوش حالی کے لیے ضروری۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پچھلے ہفتے عمران خان کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مثبت بامعنی رابطے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے نواز شریف حکومت جانے کا انتظار تھا۔ کیونکہ چین ہو یا روس یا بھارت سب کو پتہ چل چکا تھا کہ جب تک نواز شریف اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوتا پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی سرتوڑ کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح نواز شریف دور میں ہی تعلقات بہتر ہوجائیں۔ آخر کیوں یہ ایک الگ کہانی ہے۔
چین ہو یا روس پاکستان ہو یا ایران سب کا مفاد اسی میں ہے کہ خطے میں 70 سال سے جاری امریکی اثرات پر کاری ضرب لگائی جائے اور اس کے بالادست کردار کا خاتمہ کیا جائے۔ 5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ پاکستان کو دھمکانے اوردباؤ ڈالنے آرہے ہیں۔ اس کے فوراً بعد چینی وزیر خارجہ کا دورہ اس کے دباؤ سے پاکستان کو نکالنے میں مدد دے گا۔ اس ضمن میں مددگار کردار ادا کرنے کے لیے ایرانی وزیر خارجہ اگست کے آخر میں آرہے ہیں۔ پاکستان کی مدد کے لیے تیار روسی ڈپٹی وزیر دفاع خطے کو درپیش متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے چند ہفتے پہلے ہی دورہ پاکستان میں آرمی چیف سے ملاقات کرچکے ہیں۔ طبل جنگ بج چکا۔
ابھی بھارتی وزیراعظم کا عمران خان کو مبارکباد کا ٹیلیفون ہی نہیں آیا تھا کہ میں نے پیش گوئی کردی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر اور مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا کیونکہ عمران کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید حاصل ہوگی۔ اگر تعلقات میں بہتری کا سہرا نواز شریف کے سر بندھ جاتا تو اتنی بڑی سیاسی کامیابی ہوتی کہ مریم نواز اگلے تیس سال تک اقتدار میں ہوتیں۔ رہے نام اللہ کا۔
٭... پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مناسب وقت (اس سال) اکتوبر نومبر ہو گا جس کا آغاز ستمبر کے آخر سے شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997