نئی حکومت کی ذمے داریاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ کو انتخابات میں شکست ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی طاقتور ہے
عوام جب زندگی کی کٹھنائیوں کو قسمت کا لکھا سمجھتے ہیں تو عوام کے اصل مجرم ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں 71 سال سے یہی ہوتا آرہا تھا۔ عوام کے دشمن نہ صرف ان کی نظروں کے سامنے تھے بلکہ عوام نے انھیں اپنے سروں پر بٹھا رکھا تھا۔
جو لوگ اس 71 سالہ لوٹ مار کے سیٹ اپ کو ٹوٹتا دیکھنا چاہ رہے تھے وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اس سیٹ اپ کے خاتمے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں لگارہے تھے، اشرافیائی مضبوط و مستحکم راج کو منہدم کرنا ایک بہت مشکل کام تھا، کیونکہ زندگی کے ہر شعبے پر ان عوام دشمن طاقتوں کا قبضہ تھا۔ اس صورتحال سے مکمل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے 1917ء کا انقلاب روس یا 1949ء کا انقلاب چین درکار تھا، لیکن ہمارا ملک، ہمارے ملک کے عوام کا مزاج، ہماری سیاسی جماعتوں کے اہداف، عوام کی ضرورتوں، عوام کی خواہشوں سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد تھے، اس کا نتیجہ ایک طویل اسٹیٹس کو کی شکل میں ہمارے سامنے تھا۔
اب جمود کو توڑنے کے لیے کسی سرپھرے کی ضرورت تھی، وہ سرپھرا عمران خان کی شکل میں ہمارے سامنے موجود تھا لیکن اشرافیہ کا پھیلایا ہوا فسوں اتنا مضبوط تھا کہ کوئی سرپھرا اسے توڑنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، لیکن ان مایوس کن حالات میں بھی ایک ضدی اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کی دھن میں لگارہا اور آہستہ آہستہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا رہا، اشرافیائی لوٹ مار سے تنگ آئے ہوئے عوام اس ملنگ کے گرد جمع ہونے لگے اور جمع ہونے کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا اور عوام کا یہ عزم اور اتحاد ملنگ کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔
عمران خان نہ لینن تھا، نہ ماؤزے تنگ، نہ چی گویرا، نہ انقلابی، یہ صرف اتنا چاہتا تھا کہ 71 سالہ اشرافیائی اسٹیٹس کو کو کسی طرح توڑ دے، یہ انسان تھا اور اس میں بھی انسانی کمزوریاں تھیں، اس میں کوئی انفرادیت تھی تو بس یہ تھی کہ یہ دھن کا پکا تھا اور اس کا عزم غیر متزلزل تھا، یہ اسی عزم مسلسل کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کو لوٹنے والے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ ہم نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ ملنگ انقلابی نہیں، اس نے جو بڑا کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے 71 سالہ عوام دشمن اشرافیائی تسلسل کو توڑ کر مڈل کلاس کو یہ راستہ دکھایا کہ اقتدار اشرافیہ کی جاگیر نہیں بلکہ مڈل کلاس کا بھی حق ہے۔
عمران خان اور اس کی جماعت نے اس اشرافیائی تسلسل کو توڑنے کی بہت کوشش کی کہ عوام کو آگے آنے کا راستہ ملے لیکن وہ اکیلا اس مضبوط جال کو نہ توڑ سکا، اس کے لیے اسے کئی جماعتوں کی مدد لینی پڑی اور آزاد ارکان بھی اس کے قافلے میں شامل ہوئے لیکن ان کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات ہوسکتے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ماضی میں لوٹ مار میں شریک رہے ہیں اور اب بھی وہ اس کی کوشش کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی مجبوری ہے کہ جمہوری گیم میں کامیابی کے لیے نمبر درکار ہوتے ہیں، جہاں بندے گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، ایسے شاطرانہ کھیل میں ایک ایک چال ایک ایک قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ اس اتحاد میں مختلف المزاج، مختلف المفاد کے لوگ شامل ہیں، ان سب کو اکٹھے رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ کو انتخابات میں شکست ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی طاقتور ہے، قوم پرستی کے نام پر اب بھی عوام کو بے وقوف بنا سکتی ہے، پھر اس کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، اس جمہوری نظام میں وسائل بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اشرافیہ نے ابھی تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور سازشوں میں مصروف ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نہ ہم پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو سکون سے کام کرنے دیںگے نہ پارلیمنٹ کے باہر۔ ہم سڑکوں پر احتجاج کریںگے۔ عمران خان کی تقریب حلف برداری کو پارلیمنٹ جیسے محترم ادارے کو مچھلی بازار بنادیا گیا، جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان میں اپوزیشن بہت مضبوط ہے۔
پچھلے دس سال کے درمیان جو بے لگام لوٹ مار ہوئی ہے وہ آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہے، ترقی کا پروپیگنڈا کرنے والوں کا حقائق منہ کالا کررہے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر میں تاریخی کمی ہوئی ہے، اندرونی اور بیرونی قرض کے بوجھ سے معیشت کی کمر ٹوٹ رہی ہے، ہر روز کرپشن کے نئے نئے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا میں کرپشن کی تفصیلات اور کرداروں کو دیکھ کر عوام حیرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ان کی سمجھ میں آرہا ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اشرافیہ کا اقتدار پنجاب کی وجہ سے چلتا رہا، اگرچہ پنجاب کے عوام اشرافیہ کے سحر سے باہر آرہے ہیں لیکن اب بھی اشرافیہ ناامید نہیں، دولت کی فراوانی اشرافیہ کے لیے امید کی کرن بنی ہوئی ہے، وہ قدم قدم پر مشکلات پیدا کرسکتی ہے، جس کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
جیساکہ ہم نے نشاندہی کی ہے کہ عمران خان نہ روایتی انقلابی ہے، نہ تحریک انصاف کوئی انقلابی جماعت ہے، یہ نیا سیٹ اپ جو کام کرسکتا ہے وہ یہ کہ عوام کے اہم اور ضروری مسائل حل کرنے کی کوشش کرے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، ماضی میں مہنگائی روکنے اور کم کرنے کی ذمے دار بیوروکریسی نے بھاری رشوت کے عوض لوٹ مار کی کھلی اجازت دے دی تھی، مہنگائی کو ختم یا کم سے کم کرنے کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو مہنگائی کے حقیقی اور غیر حقیقی اسباب کا پتہ لگاکر ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے ماضی میں جو اہلکار کام کرتے رہے ہیں ان کا کام صرف بھتہ لینا تھا، مہنگائی، ملاوٹ جیسی خرابیوں کے خلاف اقدامات ان کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضروریات زندگی کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئیں، غریب طبقہ ہی نہیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بھی مہنگائی نے ہوش اڑا دیے۔
بیروزگاری نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی مایوس کردیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کرپشن کا ناسور ہے، آج سے 50 سال پہلے ٹرانسپورٹ کا جو حال تھا آج اس سے بدتر ہے، یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کی وجہ سے حل نہ ہوسکے، نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مسائل کو تحقیقی حوالوں سے حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کام میں اتحادی جماعتیں اور آزاد ارکان حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ نئی حکومت عوام کے مسائل حل نہ کرسکی تو اشرافیہ دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
جو لوگ اس 71 سالہ لوٹ مار کے سیٹ اپ کو ٹوٹتا دیکھنا چاہ رہے تھے وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اس سیٹ اپ کے خاتمے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں لگارہے تھے، اشرافیائی مضبوط و مستحکم راج کو منہدم کرنا ایک بہت مشکل کام تھا، کیونکہ زندگی کے ہر شعبے پر ان عوام دشمن طاقتوں کا قبضہ تھا۔ اس صورتحال سے مکمل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے 1917ء کا انقلاب روس یا 1949ء کا انقلاب چین درکار تھا، لیکن ہمارا ملک، ہمارے ملک کے عوام کا مزاج، ہماری سیاسی جماعتوں کے اہداف، عوام کی ضرورتوں، عوام کی خواہشوں سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد تھے، اس کا نتیجہ ایک طویل اسٹیٹس کو کی شکل میں ہمارے سامنے تھا۔
اب جمود کو توڑنے کے لیے کسی سرپھرے کی ضرورت تھی، وہ سرپھرا عمران خان کی شکل میں ہمارے سامنے موجود تھا لیکن اشرافیہ کا پھیلایا ہوا فسوں اتنا مضبوط تھا کہ کوئی سرپھرا اسے توڑنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، لیکن ان مایوس کن حالات میں بھی ایک ضدی اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کی دھن میں لگارہا اور آہستہ آہستہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا رہا، اشرافیائی لوٹ مار سے تنگ آئے ہوئے عوام اس ملنگ کے گرد جمع ہونے لگے اور جمع ہونے کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا اور عوام کا یہ عزم اور اتحاد ملنگ کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔
عمران خان نہ لینن تھا، نہ ماؤزے تنگ، نہ چی گویرا، نہ انقلابی، یہ صرف اتنا چاہتا تھا کہ 71 سالہ اشرافیائی اسٹیٹس کو کو کسی طرح توڑ دے، یہ انسان تھا اور اس میں بھی انسانی کمزوریاں تھیں، اس میں کوئی انفرادیت تھی تو بس یہ تھی کہ یہ دھن کا پکا تھا اور اس کا عزم غیر متزلزل تھا، یہ اسی عزم مسلسل کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کو لوٹنے والے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ ہم نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ ملنگ انقلابی نہیں، اس نے جو بڑا کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے 71 سالہ عوام دشمن اشرافیائی تسلسل کو توڑ کر مڈل کلاس کو یہ راستہ دکھایا کہ اقتدار اشرافیہ کی جاگیر نہیں بلکہ مڈل کلاس کا بھی حق ہے۔
عمران خان اور اس کی جماعت نے اس اشرافیائی تسلسل کو توڑنے کی بہت کوشش کی کہ عوام کو آگے آنے کا راستہ ملے لیکن وہ اکیلا اس مضبوط جال کو نہ توڑ سکا، اس کے لیے اسے کئی جماعتوں کی مدد لینی پڑی اور آزاد ارکان بھی اس کے قافلے میں شامل ہوئے لیکن ان کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات ہوسکتے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ماضی میں لوٹ مار میں شریک رہے ہیں اور اب بھی وہ اس کی کوشش کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی مجبوری ہے کہ جمہوری گیم میں کامیابی کے لیے نمبر درکار ہوتے ہیں، جہاں بندے گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، ایسے شاطرانہ کھیل میں ایک ایک چال ایک ایک قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ اس اتحاد میں مختلف المزاج، مختلف المفاد کے لوگ شامل ہیں، ان سب کو اکٹھے رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ کو انتخابات میں شکست ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی طاقتور ہے، قوم پرستی کے نام پر اب بھی عوام کو بے وقوف بنا سکتی ہے، پھر اس کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، اس جمہوری نظام میں وسائل بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اشرافیہ نے ابھی تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور سازشوں میں مصروف ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نہ ہم پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو سکون سے کام کرنے دیںگے نہ پارلیمنٹ کے باہر۔ ہم سڑکوں پر احتجاج کریںگے۔ عمران خان کی تقریب حلف برداری کو پارلیمنٹ جیسے محترم ادارے کو مچھلی بازار بنادیا گیا، جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان میں اپوزیشن بہت مضبوط ہے۔
پچھلے دس سال کے درمیان جو بے لگام لوٹ مار ہوئی ہے وہ آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہے، ترقی کا پروپیگنڈا کرنے والوں کا حقائق منہ کالا کررہے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر میں تاریخی کمی ہوئی ہے، اندرونی اور بیرونی قرض کے بوجھ سے معیشت کی کمر ٹوٹ رہی ہے، ہر روز کرپشن کے نئے نئے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا میں کرپشن کی تفصیلات اور کرداروں کو دیکھ کر عوام حیرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ان کی سمجھ میں آرہا ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اشرافیہ کا اقتدار پنجاب کی وجہ سے چلتا رہا، اگرچہ پنجاب کے عوام اشرافیہ کے سحر سے باہر آرہے ہیں لیکن اب بھی اشرافیہ ناامید نہیں، دولت کی فراوانی اشرافیہ کے لیے امید کی کرن بنی ہوئی ہے، وہ قدم قدم پر مشکلات پیدا کرسکتی ہے، جس کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
جیساکہ ہم نے نشاندہی کی ہے کہ عمران خان نہ روایتی انقلابی ہے، نہ تحریک انصاف کوئی انقلابی جماعت ہے، یہ نیا سیٹ اپ جو کام کرسکتا ہے وہ یہ کہ عوام کے اہم اور ضروری مسائل حل کرنے کی کوشش کرے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، ماضی میں مہنگائی روکنے اور کم کرنے کی ذمے دار بیوروکریسی نے بھاری رشوت کے عوض لوٹ مار کی کھلی اجازت دے دی تھی، مہنگائی کو ختم یا کم سے کم کرنے کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو مہنگائی کے حقیقی اور غیر حقیقی اسباب کا پتہ لگاکر ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے ماضی میں جو اہلکار کام کرتے رہے ہیں ان کا کام صرف بھتہ لینا تھا، مہنگائی، ملاوٹ جیسی خرابیوں کے خلاف اقدامات ان کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضروریات زندگی کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئیں، غریب طبقہ ہی نہیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بھی مہنگائی نے ہوش اڑا دیے۔
بیروزگاری نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی مایوس کردیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کرپشن کا ناسور ہے، آج سے 50 سال پہلے ٹرانسپورٹ کا جو حال تھا آج اس سے بدتر ہے، یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کی وجہ سے حل نہ ہوسکے، نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مسائل کو تحقیقی حوالوں سے حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کام میں اتحادی جماعتیں اور آزاد ارکان حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ نئی حکومت عوام کے مسائل حل نہ کرسکی تو اشرافیہ دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔