ملزمان کو اسپتال میں مراعات دینے والے ڈاکٹرز کیخلاف تحقیقات کا فیصلہ
منی لانڈرنگ پرگرفتار سیاسی شخصیات وسرکاری افسران کی میڈیکل رپورٹس کی جانچ پڑتال بھی کرائی جائے گی
ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے گرفتار افرادکواسپتالوں میں غیرضروری مراعات دینے والے ڈاکٹروں وسرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کرلیا گیا تاہم عدالتی حکم پراسپتالوں میں داخل گرفتار ملزمان اس سے مستثنیٰ ہوںگے۔
وفاقی حکومت اور تحقیقاتی اداروں نے اس بات پر غور شروع کردیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث وہ افراد جنھیں اداروں نے گرفتارکیا اوروہ غیر قانونی طریقے سے جیل سے اسپتال منتقل ہوگئے ایسے افراد اور اسپتال میں داخل کرنے والوںکے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، معلوم ہوا ہے کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن کے سنگین مقدمات میں ملوث گرفتار افراد علاج کے نام پر طبی مراعات اوردیگر رعایت حاصل کرنے لگے۔
گرفتار افراد جیل کی گرمی سے بچ کراسپتالوں کے ٹھنڈے کمروں میں منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں، ملکی خزانہ لوٹنے والے افرادکوٹھنڈے کمرے فراہم کرنے میں بعض سرکاری افسران اور ڈاکٹرز ملوث ہیں، بدعنوان افراد قانون نافذکرنے والے اداروںکی گرفت میں آتے ہی سنگین بیماریوںکا راگ الاپنے لگتے ہیں، بدقسمتی سے ملکی نظام میں موجودکالی بھیڑیں سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں جیل کی سختی سے بچاکر آرام دہ بستروں پر منتقل کردیتی ہیں جبکہ جیل میں اسپتال بھی موجود ہے لیکن ان کا جیل اسپتال میں علاج ناممکن قرار دے کر من پسند اسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے۔
جہاں انھیں فائیواسٹار ہوٹل کی طرز پر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، اسپتال کے قوانین کے برخلاف گرفتار ہونے والے افرادکے اہل خانہ سمیت باآسانی دیگر اہم سیاسی رہنماؤں سے بھی طویل ملاقاتیں کرائی جاتی ہیں، اسپتالوں میں سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات انتظامی افسران کے ذریعے خفیہ سیاسی ملاقاتوںکا خصوصی اہتمام کرایا جاتا ہے اور ان ملاقاتوں کو انتہائی خفیہ بھی رکھاجاتا ہے، اس صورت حال پر وفاقی حکومت نے گرفتار افراد کو اسپتالوں میں مراعات دینے والے ڈاکٹروں وسرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ میں میں ملوث گرفتار سیاسی وسرکاری افسران کوسرکاری اسپتالوں میں غیر ضروری داخل کرنے اور ڈاکٹروںکی میڈیکل رپورٹس اورمرض کی تشخیص کی جانچ پڑتال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں منی لانڈرنگ کے بڑے ملزم حسین لوائی کا ابھی تک میڈیکل بورڈ بھی نہیں کرایا جاسکا۔ بعدازاں عید سے قبل آصف زرادری کے قریبی ساتھی انور مجیدکو بھی گرفتاری کے بعد قومی ادارہ امراض قلب اسپتال میں داخل کیاگیا۔
جس کے بعدگزشتہ اتوارکوآصف زرداری نے قومی ادارہ امراض قلب اسپتال آکردونوں دوستوں سے خفیہ ملاقاتیں کی ان دونوں ملزمان کیلیے اسپتال میں خصوصی کمروں کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل بھی قومی ادارہ امراض قلب میں سابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین سمیت دیگرگرفتار ملزمان کو بھی اسی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن انھیں بھی کسی مرض کی تشخیص نہیں ہوسکی تھی۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بعض بدعنوان سیاستدانوںکوکاغذوں میں دل کے مرض کا شبہ ظاہرکرکے اسپتالوں میں داخل کیا جاتا ہے۔
جس کے بعد اسپتال انتظامیہ کی جانب سے جان بوجھ کر ان کے طبی ٹیسٹوں میں غیرمعمولی تاخیرکی جاتی ہے تاکہ جیل سے اسپتال آنے والا قیدی زیادہ سے زیادہ ایام اسپتال میںگزار سکے۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حسین لوائی اورانور مجید کو اسپتال میں داخل کرنے کیلیے انتظامی دباؤ کا سامنا تھا، اسپتال انتظامیہ نے حسین لوائی کے میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹر جہانگیر کو شامل کیاجبکہ وہ رخصت پرہیں،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بعض سیاسی رہنما جن پرکرپشن کے الزامات ہیں یا مبینہ طورپرکرپشن میں ملوث ہیں۔
اپنی گرفتاری کے خوف سے طبی مراعات کا سہارا لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایسے رہنما اپنی گرفتاری کے خوف سے بعض ڈاکٹروں سے سازبازکرکے اسپتالوں میں داخل ہوجاتے ہیں تاکہ انھیں قانون کے مطابق میڈیکل گراؤنڈ پر سہولتیں مل سکیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کے بعض اراکین اسمبلی پرکرپشن کے الزامات ہیں اوروہ اپنی ممکنہ گرفتاری کے خوف اور محفوظ راستہ اختیارکرتے ہوئے نجی اسپتالوں میں علاج کی غرض سے داخل ہونے کیلیے سرگرم ہیں۔ واضح رہے کہ قومی ادارہ امراض قلب اسپتال میں گرفتار حسین لوائی 20دن سے داخل ہیں جبکہ انور مجیدبھی اسی اسپتال میں 10دن سے زیر علاج ہیں۔
وفاقی حکومت اور تحقیقاتی اداروں نے اس بات پر غور شروع کردیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث وہ افراد جنھیں اداروں نے گرفتارکیا اوروہ غیر قانونی طریقے سے جیل سے اسپتال منتقل ہوگئے ایسے افراد اور اسپتال میں داخل کرنے والوںکے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، معلوم ہوا ہے کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن کے سنگین مقدمات میں ملوث گرفتار افراد علاج کے نام پر طبی مراعات اوردیگر رعایت حاصل کرنے لگے۔
گرفتار افراد جیل کی گرمی سے بچ کراسپتالوں کے ٹھنڈے کمروں میں منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں، ملکی خزانہ لوٹنے والے افرادکوٹھنڈے کمرے فراہم کرنے میں بعض سرکاری افسران اور ڈاکٹرز ملوث ہیں، بدعنوان افراد قانون نافذکرنے والے اداروںکی گرفت میں آتے ہی سنگین بیماریوںکا راگ الاپنے لگتے ہیں، بدقسمتی سے ملکی نظام میں موجودکالی بھیڑیں سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں جیل کی سختی سے بچاکر آرام دہ بستروں پر منتقل کردیتی ہیں جبکہ جیل میں اسپتال بھی موجود ہے لیکن ان کا جیل اسپتال میں علاج ناممکن قرار دے کر من پسند اسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے۔
جہاں انھیں فائیواسٹار ہوٹل کی طرز پر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، اسپتال کے قوانین کے برخلاف گرفتار ہونے والے افرادکے اہل خانہ سمیت باآسانی دیگر اہم سیاسی رہنماؤں سے بھی طویل ملاقاتیں کرائی جاتی ہیں، اسپتالوں میں سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات انتظامی افسران کے ذریعے خفیہ سیاسی ملاقاتوںکا خصوصی اہتمام کرایا جاتا ہے اور ان ملاقاتوں کو انتہائی خفیہ بھی رکھاجاتا ہے، اس صورت حال پر وفاقی حکومت نے گرفتار افراد کو اسپتالوں میں مراعات دینے والے ڈاکٹروں وسرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ میں میں ملوث گرفتار سیاسی وسرکاری افسران کوسرکاری اسپتالوں میں غیر ضروری داخل کرنے اور ڈاکٹروںکی میڈیکل رپورٹس اورمرض کی تشخیص کی جانچ پڑتال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں منی لانڈرنگ کے بڑے ملزم حسین لوائی کا ابھی تک میڈیکل بورڈ بھی نہیں کرایا جاسکا۔ بعدازاں عید سے قبل آصف زرادری کے قریبی ساتھی انور مجیدکو بھی گرفتاری کے بعد قومی ادارہ امراض قلب اسپتال میں داخل کیاگیا۔
جس کے بعدگزشتہ اتوارکوآصف زرداری نے قومی ادارہ امراض قلب اسپتال آکردونوں دوستوں سے خفیہ ملاقاتیں کی ان دونوں ملزمان کیلیے اسپتال میں خصوصی کمروں کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل بھی قومی ادارہ امراض قلب میں سابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین سمیت دیگرگرفتار ملزمان کو بھی اسی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن انھیں بھی کسی مرض کی تشخیص نہیں ہوسکی تھی۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بعض بدعنوان سیاستدانوںکوکاغذوں میں دل کے مرض کا شبہ ظاہرکرکے اسپتالوں میں داخل کیا جاتا ہے۔
جس کے بعد اسپتال انتظامیہ کی جانب سے جان بوجھ کر ان کے طبی ٹیسٹوں میں غیرمعمولی تاخیرکی جاتی ہے تاکہ جیل سے اسپتال آنے والا قیدی زیادہ سے زیادہ ایام اسپتال میںگزار سکے۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حسین لوائی اورانور مجید کو اسپتال میں داخل کرنے کیلیے انتظامی دباؤ کا سامنا تھا، اسپتال انتظامیہ نے حسین لوائی کے میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹر جہانگیر کو شامل کیاجبکہ وہ رخصت پرہیں،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بعض سیاسی رہنما جن پرکرپشن کے الزامات ہیں یا مبینہ طورپرکرپشن میں ملوث ہیں۔
اپنی گرفتاری کے خوف سے طبی مراعات کا سہارا لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایسے رہنما اپنی گرفتاری کے خوف سے بعض ڈاکٹروں سے سازبازکرکے اسپتالوں میں داخل ہوجاتے ہیں تاکہ انھیں قانون کے مطابق میڈیکل گراؤنڈ پر سہولتیں مل سکیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کے بعض اراکین اسمبلی پرکرپشن کے الزامات ہیں اوروہ اپنی ممکنہ گرفتاری کے خوف اور محفوظ راستہ اختیارکرتے ہوئے نجی اسپتالوں میں علاج کی غرض سے داخل ہونے کیلیے سرگرم ہیں۔ واضح رہے کہ قومی ادارہ امراض قلب اسپتال میں گرفتار حسین لوائی 20دن سے داخل ہیں جبکہ انور مجیدبھی اسی اسپتال میں 10دن سے زیر علاج ہیں۔