بُک شیلف
بُک شیلف
ایران میں کچھ دن
مصنف: محمد علم اللہ
صفحات: 125، قیمت: 120 روپے
ناشر: فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لیمیٹڈ، نئی دلی
بٹوارے سے قبل کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو اس کی حدود یہ مشرق میں آسام اور بنگال سے شروع ہو کر مغرب میں 'ڈریونڈ لائن' پر تمام ہوتی، جس کے پار واقع افغانستان کو ہندوستان سے ایک الگ نگری تصور کیا جاتا۔ اسی سرحد سے جڑا ہوا ایک اور ملک ایران بھی ایک جداگانہ سلطنت رہا، جب کہ اگر تاریخی طور پر ایران کے اثرات کی بات کی جائے تو اس کی گہرائی آج قلب ہند سمجھے جانے والے علاقوں تک واضح طور پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔
آج بھی سرزمین فارس کے باشندے اپنے شیریں لہجے میں گویا ہوتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں پاک و ہند کی کسی نگری کے باسی ہوں، کیوں کہ ہمارے ہاں ہندی یا اردو کہی جانے والی زبان کے بہت سے لفظ سرزمین فارس سے وارد ہو کر ہمارے لہجوں میں اس قدر رچ بس گئے کہ ہم اُن کے ہو گئے اور وہ ہمارے۔۔۔ اس سفرنامے میں نئی سرحدوں اور بٹواروں کے ہنگام کے برسوں بعد آنکھ کھولنے والے ہندوستانی نوجوان صحافی محمد علم اللہ اس نگری کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں، جس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی فارس کی خاک میں اپنی تاریخی اور ثقافتی ساجھے داری کی زیارت کرنے گیا ہے۔
دوسری طرف اگرچہ بہتیرے مقامات پر اجنبیت یا شناخت کی دشواری آڑے آئی، مگر اہل فارس نے ہندوستانیوں کے لیے اپنی تاریخ کے دریچے وا کیے۔ ایک طرف وہ بتا رہے تھے تو دوسری طرف سفرنامہ نگار کی صورت ایک ہندوستانی کیا محسوس کر رہا تھا، اسے کہاں حیرانی ہوئی، کہاں وہ متاثر ہوا اور کہاں اس کی خواہشیں تکمیل سے پہلے دم توڑ گئیں، اِن سب کا احاطہ اس روداد سفر میں موجود ہے۔ سادی اور سیدھی زبان اس سفری احوال کی خصوصیت ہے، ساتھ ہی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم اس کی پڑھت کو سہل بناتی ہے۔ اس سے عام ہندوستانی قاری کو بٹوارے کے بعد براہ راست زمینی جُڑت کھو دینے والے ملک سے متعلق دل چسپ معلومات ملیں گی، جو شاید اس قدر چرچا میں نہیں آپاتیں۔
من کہی
مصنف: ڈاکٹر قمر فاروق
صفحات: 224، قیمت: 500 روپے
ناشر: زربفت پبلی کیشنز، لاہور
یہ کتاب یک سطری کلمات پر مشتمل ہے، تاہم کہیں تین، چار رواں اور ہم قافیہ جملوں کے ساتھ بھی بات کہی گئی ہے۔ مذہبی مضامین سے معاشرتی بیماریوں اور رویوں کے ساتھ حب الوطنی کے ابواب پر تمام ہوتا ہے، جنہیں موضوعات کے اعتبار سے اہم نکات کی طرح بھی شمار کیا جا سکتا ہے اور کہیں ان کی حیثیت زریں اقوال کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
''زندگی، کام یابی اور ناکامی'' کے زیر عنوان رقم طراز ہیں: کام یاب لوگ اپنی ہر کام یابی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں... میری سوچ ہی میری کام یابی اور ناکامی ہے... مستقل مزاجی کام یابی اور ناکامی کے ساتھ جنت اور دوزخ کا بھی فیصلہ کرتی ہے... چھوٹی باتوں میں الجھو گے، تو زندگی سے الجھ جاؤ گے... ساٹھ ستر سال کی عارضی زندگی میں اتنی بے باکی اچھی نہیں وغیرہ۔ بہت سی جگہوں پر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بات ہم نے پہلے بھی کہیں پڑھی ہے۔
بہت سی جگہوں پر ہم مختصر جملوں میں دیے گئے پیغام سے اختلاف بھی محسوس ہوتا ہے، بعض جگہوں پر معنویت نہیں کھلتی، لیکن بات کافی گہری معلوم ہوتی ہے، مختصر تحریر پسند کرنے والوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس کتاب میں کہیں مذکور نہیں، مگر ہمیں لگتا ہے کہ طالب علموں کو بالخصوص ان نصیحتوں سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، اس سے وہ آنے والی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان پائیں گے اور بہت کچھ سیکھ پائیں گے۔
یادوں کی سرزمین
(سقوط مشرقی پاکستان کے پس منظر کی یادیں)
مصنف: آفتاب عالم
صفحات: 104، قیمت: درج نہیں
ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان
اس کتاب کے مصنف ادیب سہیل کے سپوت ہیں، جو سید پور (مشرقی پاکستان) میں بیتے ہوئے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں، جب وہاں بجلی کے کھمبے نصب ہوئے تو کس قدر اضطراب تھا کہ اب لالٹینوں کی مدھم روشنی سے جان چھوٹے گی، لیکن تار اور بلب لگنے میں وقت لگا اور جب گلی کے بلب سے برآمدہ روشن ہوا تو پھر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جب ہم سائے نے اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر بجلی لی تو عالم یہ تھا کہ اِن کی چھوٹی بہن شام ہوتے ہی بلب کی روشنی دیکھنے پڑوس میں چلی جاتی تھیں۔
وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں اہل کراچی کے برعکس مشرقی پاکستان کے اردو بولنے والوں نے فاطمہ جناح کی مخالفت میں ووٹ دیا، کہتے ہیں 'اُسی وقت سے بنگالیوں کا اردو بولنے والوں پر اعتماد ختم ہو گیا' بلکہ مصنف تو 1971ء کے واقعے کو صدارتی چناؤ کے نتائج سے ہی پیدا ہونے والی صورت حال قرار دیتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اردو بولنے والے جہاں بھی رہتے ہیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے پر تلے رہتے ہیں، جب کہ دوسری جگہ وہ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے دوران اُن کے نام کے ساتھ سابق مشرقی پاکستان (بہاری) لکھا گیا، جب کہ دوسرے امیدواروں کے آگے نہیں لکھا گیا۔
ہم نے اس کتاب کو اپنے موضوع پر ایک اہم حوالہ پایا، تاہم بعض جگہوں پر بے ربط جملے مفہوم پر اثرانداز ہوتے ہیں، امید ہے اشاعت ثانی میں اس کمی کو دور کیا جائے گا۔ پروفیسر سحر انصاری اس کتاب میں رقم طراز ہیں،''آفتاب عالم کی تحریر نہ صحافیانہ ہے اور نہ بالکل ادبی۔ وہ ایک حساس اور باشعور ناظر کی طرح سفاک مناظر پر نگاہ ڈالتے اور الفاظ کے پیکر میں ڈھالتے ہیں۔'' زاہدہ حنا لکھتی ہیں آفتاب عالم نے بہت جرأت سے وہ باتیں لکھی ہیں، جنہیں ادیب بھائی زیر لب کہتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔۔۔'
اپنا گھر
مصنف: وقاص اسلم
صفحات: 124، قیمت: 200 روپے
ناشر: گلستان کتاب گھر، خانیوال
پانچ برس کی عمر قلم کاری کے حامل اس نوجوان کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ پہلی کتاب بہ عنوان 'عظیم قربانی' دو سال قبل شایع ہوئی۔ مصنف ابھی ایم اے (اردو) کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں 22 کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔ یوں تو یہ کہانیاں بچوں کی ہیں، اور بہت سی کہانیوں کے کردار بھی معصوم اور ہلکے پھلکے سے ہیں، مگر بہت سی کہانیوں کے مرکزی خیال بہت بڑے ہیں، اور وہ اخلاقی تربیت کے ساتھ غوروفکر بھی مجبور کرتے ہیں۔
شاید اس کا سبب یہ ہو کہ 'بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے' اور اب وہ جن بھوتوں اور پریوں کی ماورائے عقل کہانیوں کے بہ جائے حقیقت پسند کہانیاں زیادہ پڑھنے لگے ہیں۔ جیسے 'پیسے نہیں، جنت' کا مرکزی خیال بیٹی کی پیدائش پر بیمار ذہنی رویہ ہے۔ 'انوکھی تجارت' کا موضوع جہیز ہے، اسی طرح ایک اور کہانی کا موضوع جائیداد کی تقسیم جیسا سنجیدہ اور گہرا ہے۔ 'حقیقی خوشی' میں سیٹھ اور مزدور موضوع ہیں۔ ایک کہانی 'ٹول پلازہ' میں چھپا ہوا بھید بھی قاری کو چونکا دیتا ہے۔ ان کہانیوں میں مذہبی حوالے اس کی ایک اضافی خوبی ہے۔
ہم رِکاب (کتابی سلسلہ: اول)
مدیر: سہیل احمد صدیقی
صفحات: 110، قیمت: 150 روپے (15 ڈالر)
ناشر: پاک چین بزم ادب
چین سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو اب سات عشرے پورے ہونے کو ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ادبی اشتراک کو منظم طریقے سے روشناس کرانے کے لیے اِس کثیر السانی ادبی جریدے کا ڈول ڈالا گیا ہے، سرورق اور عنوان سے یہ قوی احساس ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات میں یقینی طور پر چینی اردو سمبندھ کا احاطہ کیا جائے گا، لیکن ورق الٹیے تو اس میں انگریزی، فارسی، سندھی اور پنجابی حتیٰ کہ سرائیکی، ہندکو، براہوی، شینا اور کھوار جیسی زبانوں کے ادبی رنگ بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
سندھی ہائیکو بھی پڑھنے کو ملتی ہے، غزلیات اور منظومات کے ساتھ پنجابی صنف شاعری 'سی حرفی' بھی موجود ہے، نثری ٹکڑے بھی ہیں اور چینی متن کے عکس بھی چسپاں ہیں۔۔۔ جریدے کی ابتدا چین کے بزرگ اردو شاعر انتخاب عالم کے حوالے سے خصوصی گوشے سے کی گئی ہے۔ اُن کا اصل نام شی شوان ہے، جس کے لفظی ترجمے 'انتخاب عالم' کو انہوں نے قلمی نام کے طور پر اپنایا ہے، ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو؎
سراہتا ہے ہمیں اس لیے زمانہ کہ ہم
فریب کھا کے جواباً سلام کرتے ہیں
مقام دو یا نہ دو فرق کچھ نہیں پڑتا
کہ ہم ضمیر جہاں میں قیام کرتے ہیں
اس میں بہت سے ادب پارے قند مکرر کے طور پر بھی شایع کیے گئے ہیں، جن میں انتخاب عالم کا مضمون 'شب کراچی' اس شہر سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے۔
اجرا۔ 26
مدیر: اقبال خورشید
صفحات: 312، قیمت: 500 روپے
ناشر: Beyond Time Publication کراچی
اس پرچے میں بھی حسب روایت حمد و نعت سے سلسلہ شروع ہوتا ہے اور نظمیں، ہائیکو، غزلیں، افسانے، مباحث، یادیں، خاکے، مضامین، تبصرے وغیرہ کو زینت بناتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نعیم بیگ کے افسانوی مجموعے 'پیچھا کرتی آوازیں' پر رفیع اللہ میاں اور اقبال خورشید کے درمیان ہونے والا مکالمہ بھی شامل اشاعت ہے، اس گفتار کی نوعیت 'برقیاتی' بتائی گئی ہے، بہرحال 'جواب الجواب' پڑھتے ہوئے ایک نئے طرز کا احساس اور دو طرفہ بات چیت کا خوب لطف آتا ہے، جیسے گئے وقتوں میں ڈاک سے خطوط لکھے جاتے تھے، اِسے آج کے دور میں 'برقی مراسلے' (ای میل) سمجھ لیجیے، شاید اس گفتگو کا وسیلہ بھی یہی رہا ہے۔
معروف قلم کار اور مصنف ایس ایم شاہد سے گفتگو اور فرینک اسٹاکٹَن اور ڈورس لیسنگ کے ترجمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں 'اجرا' کے پچھلے شمارے پر آنے والی آرا بھی شامل ہیں، جس میں رشید امجد پچھلے اداریے میں اقبال خورشید کے اٹھائے گئے سوالات کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'ہنر کے ساتھ ظرف نہ ہو تو ہنر تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ پرچے کے سرورق اور پچھلا سر ورق تصدق سہیل کے نمونۂ مصوری سے آراستہ ہے۔ اس کے علاوہ انعام راجا کے فن پاروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔
لاریب
مصنف: اقبال حیدر
صفحات: 144، ہدیہ: 200 روپے
ناشر: Zakcom
میں نے جن آنکھوں سے دیکھی ہیں سنہری جالیاں
آئینے میں اب وہ آنکھیں دیکھتا رہتا ہوں میں
یہ ہدیۂ حمدو نعت دراصل 2006ء میں پہلی بار منصہ شہود پر آنے والی کتاب کی اشاعت نو ہے، اس کا انتساب والدین، شریک حیات اور تین بچوں کی نذر کیا گیا ہے۔ مصنف درس وتدریس کے علاوہ صحافتی شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور یہ ان کی پہلی کاوش ہے، جس میں، اس کے ابتدائی صفحے پر نقل کیے گئے فرمان نبوی ﷺ کی تکمیل کی گئی ہے کہ 'تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اُس کو، اُس کے ماں باپ، اولاد اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔'' ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں کہ اقبال حیدر نے خشیت الٰہی میں 'حب الٰہی کے پہلو پیدا کر دیے ہیں اور ان کے ہاں خشیت محبت بن گئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی کو اس میں شاعر کا وہ دل دھڑکتا ہوا نظر آیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے معمور ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ان اشعار کو ان خیالات کو نکتہ آفرینی، اور ندرت احساس کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
مزے مزے کے مشاعرے
(مزاحیہ مضامین)
مرتب: شجاع الدین غوری
صفحات: 208، قیمت: 500 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
یوں تو یہ کتاب بہت سے مشاہیر ادب کے مشاعروں پر لکھے گئے شگفتہ مضامین پر مشتمل ہے، لیکن مرتِب کی طرف سے ابتدائی مضمون میں نہایت سنجیدگی سے اردو مشاعروں کی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مشمولات میں شوکت تھانوی اپنی شریک حیات کو مشاعروں میں لے جانے کی بپتا کہتے ہیں تو کنہیا لال کپور اپنے صدر مشاعرہ بننے کا دل چسپ احوال بیان کرتے ہیں، حاجی لق لق کے افسانے سے ماخوذ 'متحرک مشاعرہ' اور مرزا فرحت اللہ بیگ کا 'دہلی کا ایک یادگارہ مشاعرہ' بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف 'آب گُم' سے 'دھیرج پور کا پہلا اور آخری مشاعرہ' بھی موجود ہے۔ کتاب کے مندرجات کی فہرست میں اگرچہ صفحہ نمبر غائب ہیں، لیکن اس میں نیاز فتح پوری، مجید لاہوری، ابن انشا، سید ضمیر جعفری وغیرہ کے ساتھ ساتھ مرتِب کے بھی دو مضامین نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعاتی مزاح کے حوالے سے یہ ایک اچھی کتاب ہے، جس میں ہمیں مشاعروں پر لکھا گیا مزاح یک جا دکھائی دیتا ہے۔
مصنف: محمد علم اللہ
صفحات: 125، قیمت: 120 روپے
ناشر: فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لیمیٹڈ، نئی دلی
بٹوارے سے قبل کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو اس کی حدود یہ مشرق میں آسام اور بنگال سے شروع ہو کر مغرب میں 'ڈریونڈ لائن' پر تمام ہوتی، جس کے پار واقع افغانستان کو ہندوستان سے ایک الگ نگری تصور کیا جاتا۔ اسی سرحد سے جڑا ہوا ایک اور ملک ایران بھی ایک جداگانہ سلطنت رہا، جب کہ اگر تاریخی طور پر ایران کے اثرات کی بات کی جائے تو اس کی گہرائی آج قلب ہند سمجھے جانے والے علاقوں تک واضح طور پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔
آج بھی سرزمین فارس کے باشندے اپنے شیریں لہجے میں گویا ہوتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں پاک و ہند کی کسی نگری کے باسی ہوں، کیوں کہ ہمارے ہاں ہندی یا اردو کہی جانے والی زبان کے بہت سے لفظ سرزمین فارس سے وارد ہو کر ہمارے لہجوں میں اس قدر رچ بس گئے کہ ہم اُن کے ہو گئے اور وہ ہمارے۔۔۔ اس سفرنامے میں نئی سرحدوں اور بٹواروں کے ہنگام کے برسوں بعد آنکھ کھولنے والے ہندوستانی نوجوان صحافی محمد علم اللہ اس نگری کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں، جس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی فارس کی خاک میں اپنی تاریخی اور ثقافتی ساجھے داری کی زیارت کرنے گیا ہے۔
دوسری طرف اگرچہ بہتیرے مقامات پر اجنبیت یا شناخت کی دشواری آڑے آئی، مگر اہل فارس نے ہندوستانیوں کے لیے اپنی تاریخ کے دریچے وا کیے۔ ایک طرف وہ بتا رہے تھے تو دوسری طرف سفرنامہ نگار کی صورت ایک ہندوستانی کیا محسوس کر رہا تھا، اسے کہاں حیرانی ہوئی، کہاں وہ متاثر ہوا اور کہاں اس کی خواہشیں تکمیل سے پہلے دم توڑ گئیں، اِن سب کا احاطہ اس روداد سفر میں موجود ہے۔ سادی اور سیدھی زبان اس سفری احوال کی خصوصیت ہے، ساتھ ہی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم اس کی پڑھت کو سہل بناتی ہے۔ اس سے عام ہندوستانی قاری کو بٹوارے کے بعد براہ راست زمینی جُڑت کھو دینے والے ملک سے متعلق دل چسپ معلومات ملیں گی، جو شاید اس قدر چرچا میں نہیں آپاتیں۔
من کہی
مصنف: ڈاکٹر قمر فاروق
صفحات: 224، قیمت: 500 روپے
ناشر: زربفت پبلی کیشنز، لاہور
یہ کتاب یک سطری کلمات پر مشتمل ہے، تاہم کہیں تین، چار رواں اور ہم قافیہ جملوں کے ساتھ بھی بات کہی گئی ہے۔ مذہبی مضامین سے معاشرتی بیماریوں اور رویوں کے ساتھ حب الوطنی کے ابواب پر تمام ہوتا ہے، جنہیں موضوعات کے اعتبار سے اہم نکات کی طرح بھی شمار کیا جا سکتا ہے اور کہیں ان کی حیثیت زریں اقوال کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
''زندگی، کام یابی اور ناکامی'' کے زیر عنوان رقم طراز ہیں: کام یاب لوگ اپنی ہر کام یابی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں... میری سوچ ہی میری کام یابی اور ناکامی ہے... مستقل مزاجی کام یابی اور ناکامی کے ساتھ جنت اور دوزخ کا بھی فیصلہ کرتی ہے... چھوٹی باتوں میں الجھو گے، تو زندگی سے الجھ جاؤ گے... ساٹھ ستر سال کی عارضی زندگی میں اتنی بے باکی اچھی نہیں وغیرہ۔ بہت سی جگہوں پر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بات ہم نے پہلے بھی کہیں پڑھی ہے۔
بہت سی جگہوں پر ہم مختصر جملوں میں دیے گئے پیغام سے اختلاف بھی محسوس ہوتا ہے، بعض جگہوں پر معنویت نہیں کھلتی، لیکن بات کافی گہری معلوم ہوتی ہے، مختصر تحریر پسند کرنے والوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس کتاب میں کہیں مذکور نہیں، مگر ہمیں لگتا ہے کہ طالب علموں کو بالخصوص ان نصیحتوں سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، اس سے وہ آنے والی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان پائیں گے اور بہت کچھ سیکھ پائیں گے۔
یادوں کی سرزمین
(سقوط مشرقی پاکستان کے پس منظر کی یادیں)
مصنف: آفتاب عالم
صفحات: 104، قیمت: درج نہیں
ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان
اس کتاب کے مصنف ادیب سہیل کے سپوت ہیں، جو سید پور (مشرقی پاکستان) میں بیتے ہوئے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں، جب وہاں بجلی کے کھمبے نصب ہوئے تو کس قدر اضطراب تھا کہ اب لالٹینوں کی مدھم روشنی سے جان چھوٹے گی، لیکن تار اور بلب لگنے میں وقت لگا اور جب گلی کے بلب سے برآمدہ روشن ہوا تو پھر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جب ہم سائے نے اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر بجلی لی تو عالم یہ تھا کہ اِن کی چھوٹی بہن شام ہوتے ہی بلب کی روشنی دیکھنے پڑوس میں چلی جاتی تھیں۔
وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں اہل کراچی کے برعکس مشرقی پاکستان کے اردو بولنے والوں نے فاطمہ جناح کی مخالفت میں ووٹ دیا، کہتے ہیں 'اُسی وقت سے بنگالیوں کا اردو بولنے والوں پر اعتماد ختم ہو گیا' بلکہ مصنف تو 1971ء کے واقعے کو صدارتی چناؤ کے نتائج سے ہی پیدا ہونے والی صورت حال قرار دیتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اردو بولنے والے جہاں بھی رہتے ہیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے پر تلے رہتے ہیں، جب کہ دوسری جگہ وہ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے دوران اُن کے نام کے ساتھ سابق مشرقی پاکستان (بہاری) لکھا گیا، جب کہ دوسرے امیدواروں کے آگے نہیں لکھا گیا۔
ہم نے اس کتاب کو اپنے موضوع پر ایک اہم حوالہ پایا، تاہم بعض جگہوں پر بے ربط جملے مفہوم پر اثرانداز ہوتے ہیں، امید ہے اشاعت ثانی میں اس کمی کو دور کیا جائے گا۔ پروفیسر سحر انصاری اس کتاب میں رقم طراز ہیں،''آفتاب عالم کی تحریر نہ صحافیانہ ہے اور نہ بالکل ادبی۔ وہ ایک حساس اور باشعور ناظر کی طرح سفاک مناظر پر نگاہ ڈالتے اور الفاظ کے پیکر میں ڈھالتے ہیں۔'' زاہدہ حنا لکھتی ہیں آفتاب عالم نے بہت جرأت سے وہ باتیں لکھی ہیں، جنہیں ادیب بھائی زیر لب کہتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔۔۔'
اپنا گھر
مصنف: وقاص اسلم
صفحات: 124، قیمت: 200 روپے
ناشر: گلستان کتاب گھر، خانیوال
پانچ برس کی عمر قلم کاری کے حامل اس نوجوان کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ پہلی کتاب بہ عنوان 'عظیم قربانی' دو سال قبل شایع ہوئی۔ مصنف ابھی ایم اے (اردو) کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں 22 کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔ یوں تو یہ کہانیاں بچوں کی ہیں، اور بہت سی کہانیوں کے کردار بھی معصوم اور ہلکے پھلکے سے ہیں، مگر بہت سی کہانیوں کے مرکزی خیال بہت بڑے ہیں، اور وہ اخلاقی تربیت کے ساتھ غوروفکر بھی مجبور کرتے ہیں۔
شاید اس کا سبب یہ ہو کہ 'بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے' اور اب وہ جن بھوتوں اور پریوں کی ماورائے عقل کہانیوں کے بہ جائے حقیقت پسند کہانیاں زیادہ پڑھنے لگے ہیں۔ جیسے 'پیسے نہیں، جنت' کا مرکزی خیال بیٹی کی پیدائش پر بیمار ذہنی رویہ ہے۔ 'انوکھی تجارت' کا موضوع جہیز ہے، اسی طرح ایک اور کہانی کا موضوع جائیداد کی تقسیم جیسا سنجیدہ اور گہرا ہے۔ 'حقیقی خوشی' میں سیٹھ اور مزدور موضوع ہیں۔ ایک کہانی 'ٹول پلازہ' میں چھپا ہوا بھید بھی قاری کو چونکا دیتا ہے۔ ان کہانیوں میں مذہبی حوالے اس کی ایک اضافی خوبی ہے۔
ہم رِکاب (کتابی سلسلہ: اول)
مدیر: سہیل احمد صدیقی
صفحات: 110، قیمت: 150 روپے (15 ڈالر)
ناشر: پاک چین بزم ادب
چین سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو اب سات عشرے پورے ہونے کو ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ادبی اشتراک کو منظم طریقے سے روشناس کرانے کے لیے اِس کثیر السانی ادبی جریدے کا ڈول ڈالا گیا ہے، سرورق اور عنوان سے یہ قوی احساس ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات میں یقینی طور پر چینی اردو سمبندھ کا احاطہ کیا جائے گا، لیکن ورق الٹیے تو اس میں انگریزی، فارسی، سندھی اور پنجابی حتیٰ کہ سرائیکی، ہندکو، براہوی، شینا اور کھوار جیسی زبانوں کے ادبی رنگ بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
سندھی ہائیکو بھی پڑھنے کو ملتی ہے، غزلیات اور منظومات کے ساتھ پنجابی صنف شاعری 'سی حرفی' بھی موجود ہے، نثری ٹکڑے بھی ہیں اور چینی متن کے عکس بھی چسپاں ہیں۔۔۔ جریدے کی ابتدا چین کے بزرگ اردو شاعر انتخاب عالم کے حوالے سے خصوصی گوشے سے کی گئی ہے۔ اُن کا اصل نام شی شوان ہے، جس کے لفظی ترجمے 'انتخاب عالم' کو انہوں نے قلمی نام کے طور پر اپنایا ہے، ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو؎
سراہتا ہے ہمیں اس لیے زمانہ کہ ہم
فریب کھا کے جواباً سلام کرتے ہیں
مقام دو یا نہ دو فرق کچھ نہیں پڑتا
کہ ہم ضمیر جہاں میں قیام کرتے ہیں
اس میں بہت سے ادب پارے قند مکرر کے طور پر بھی شایع کیے گئے ہیں، جن میں انتخاب عالم کا مضمون 'شب کراچی' اس شہر سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے۔
اجرا۔ 26
مدیر: اقبال خورشید
صفحات: 312، قیمت: 500 روپے
ناشر: Beyond Time Publication کراچی
اس پرچے میں بھی حسب روایت حمد و نعت سے سلسلہ شروع ہوتا ہے اور نظمیں، ہائیکو، غزلیں، افسانے، مباحث، یادیں، خاکے، مضامین، تبصرے وغیرہ کو زینت بناتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نعیم بیگ کے افسانوی مجموعے 'پیچھا کرتی آوازیں' پر رفیع اللہ میاں اور اقبال خورشید کے درمیان ہونے والا مکالمہ بھی شامل اشاعت ہے، اس گفتار کی نوعیت 'برقیاتی' بتائی گئی ہے، بہرحال 'جواب الجواب' پڑھتے ہوئے ایک نئے طرز کا احساس اور دو طرفہ بات چیت کا خوب لطف آتا ہے، جیسے گئے وقتوں میں ڈاک سے خطوط لکھے جاتے تھے، اِسے آج کے دور میں 'برقی مراسلے' (ای میل) سمجھ لیجیے، شاید اس گفتگو کا وسیلہ بھی یہی رہا ہے۔
معروف قلم کار اور مصنف ایس ایم شاہد سے گفتگو اور فرینک اسٹاکٹَن اور ڈورس لیسنگ کے ترجمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں 'اجرا' کے پچھلے شمارے پر آنے والی آرا بھی شامل ہیں، جس میں رشید امجد پچھلے اداریے میں اقبال خورشید کے اٹھائے گئے سوالات کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'ہنر کے ساتھ ظرف نہ ہو تو ہنر تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ پرچے کے سرورق اور پچھلا سر ورق تصدق سہیل کے نمونۂ مصوری سے آراستہ ہے۔ اس کے علاوہ انعام راجا کے فن پاروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔
لاریب
مصنف: اقبال حیدر
صفحات: 144، ہدیہ: 200 روپے
ناشر: Zakcom
میں نے جن آنکھوں سے دیکھی ہیں سنہری جالیاں
آئینے میں اب وہ آنکھیں دیکھتا رہتا ہوں میں
یہ ہدیۂ حمدو نعت دراصل 2006ء میں پہلی بار منصہ شہود پر آنے والی کتاب کی اشاعت نو ہے، اس کا انتساب والدین، شریک حیات اور تین بچوں کی نذر کیا گیا ہے۔ مصنف درس وتدریس کے علاوہ صحافتی شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور یہ ان کی پہلی کاوش ہے، جس میں، اس کے ابتدائی صفحے پر نقل کیے گئے فرمان نبوی ﷺ کی تکمیل کی گئی ہے کہ 'تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اُس کو، اُس کے ماں باپ، اولاد اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔'' ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں کہ اقبال حیدر نے خشیت الٰہی میں 'حب الٰہی کے پہلو پیدا کر دیے ہیں اور ان کے ہاں خشیت محبت بن گئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی کو اس میں شاعر کا وہ دل دھڑکتا ہوا نظر آیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے معمور ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ان اشعار کو ان خیالات کو نکتہ آفرینی، اور ندرت احساس کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
مزے مزے کے مشاعرے
(مزاحیہ مضامین)
مرتب: شجاع الدین غوری
صفحات: 208، قیمت: 500 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
یوں تو یہ کتاب بہت سے مشاہیر ادب کے مشاعروں پر لکھے گئے شگفتہ مضامین پر مشتمل ہے، لیکن مرتِب کی طرف سے ابتدائی مضمون میں نہایت سنجیدگی سے اردو مشاعروں کی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مشمولات میں شوکت تھانوی اپنی شریک حیات کو مشاعروں میں لے جانے کی بپتا کہتے ہیں تو کنہیا لال کپور اپنے صدر مشاعرہ بننے کا دل چسپ احوال بیان کرتے ہیں، حاجی لق لق کے افسانے سے ماخوذ 'متحرک مشاعرہ' اور مرزا فرحت اللہ بیگ کا 'دہلی کا ایک یادگارہ مشاعرہ' بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف 'آب گُم' سے 'دھیرج پور کا پہلا اور آخری مشاعرہ' بھی موجود ہے۔ کتاب کے مندرجات کی فہرست میں اگرچہ صفحہ نمبر غائب ہیں، لیکن اس میں نیاز فتح پوری، مجید لاہوری، ابن انشا، سید ضمیر جعفری وغیرہ کے ساتھ ساتھ مرتِب کے بھی دو مضامین نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعاتی مزاح کے حوالے سے یہ ایک اچھی کتاب ہے، جس میں ہمیں مشاعروں پر لکھا گیا مزاح یک جا دکھائی دیتا ہے۔