اعتزاز احسن پر اعتراض کیوں

یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو ن لیگ کا کیس بھی سپریم کورٹ میں لڑتے رہے۔

ali.dhillon@ymail.com

2018ء کی حکومت سازی مکمل ہونے کے آخری مرحلے یعنی صدارتی الیکشن کا وقت بھی آن پہنچا ہے، جو4ستمبر کوہوگا ،صدارتی انتخاب کے لیے دستور میں ایک الیکٹورل کالج تشکیل دیا گیا ہے۔ اس میں قومی اسمبلی کے ہر رکن، سینیٹ کے ہر رکن اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کو ایک ایک ووٹ حاصل ہے۔ جب کہ دیگر تین صوبائی اسمبلیوں کو سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر یعنی 65، 65 ووٹ ملتے ہیں۔

اس طرح صدر کے انتخاب کے لیے کل706ووٹ ہوں گے ۔ صدارتی الیکشن میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ اگر اپوزیشن کی جانب سے ایک اُمیدوار کا اعلان نہ ہو سکا یعنی (تادم تحریر) پیپلزپارٹی اعتزاز احسن پر اصرار کرتی رہی اور دیگر جماعتیں مولانا فضل الرحمن پر متفق رہیں تو تحریک انصاف کے عارف علوی کے لیے یہ معرکہ جیتنا آسان ہو جائے گا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ متحد اپوزیشن محض نام کی ''متحدہ'' رہ گئی ہے۔

جو محض اپنے ذاتی مفادات کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور جب انھیں لگتا ہے کہ اقتدار اُن سے چھن رہا ہے تو یہ لوگ کسی حدتک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی حالیہ جیت کے بعد 26جولائی سے اب تک اے پی سی کے نام پر یہ لوگ دو درجن سے زائد ملاقاتیں کر چکے ہیں مگر مجال ہے ان ملاقاتوں میں کسی نے ملکی مسائل پر بات کی ہو۔ ان ملاقاتوں میں محض اس بات پر فوکس کیا جاتا رہا کہ تحریک انصاف لوکس طرح ٹف ٹائم دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ کو اعتزاز احسن سے آخر مسئلہ کیا ہے؟یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جن کی جمہوریت کے لیے قربانیاں ہیں،یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو 2002ء کے الیکشن میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے متفقہ اُمیدوار تھے۔

یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو ن لیگ کا کیس بھی سپریم کورٹ میں لڑتے رہے، یہ وہی اعتزاز احسن ہے جن کے بارے میں مخالفین بھی کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی سیاست کے محافظ ہیں ، اگر صدارتی اُمیدوار کے لیے اعتزاز احسن کا نام واپس لیا گیا تو نظریاتی سیاست دفن ہو جائے گی۔کیاآج اعتزاز احسن ن لیگ کی نظر میں اس لیے صدارت کے قابل نہیں رہے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہیں، ان پر کرپشن کا کوئی چارج نہیں ہے۔ ن لیگ کو اُن سے کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ وہ قانون کی سربلندی کے لیے کام کریں گے۔

جہاں تک اعتزاز احسن کو میں جانتا ہوں یا میری اُن سے ایک دو بار سرسری ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، اُن کی عمر 72سال کے قریب ہے۔ وہ بیک وقت وکیل، سیاست دان، انسانی حقوق کے علمبردار، تاریخ دان ہیں ، وہ کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ کیمبرج سے واپسی پر اعتزاز احسن نے سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت کی۔ انھوں نے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف شدید تنقید کی۔


پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے اور واحد طالب علم تھے جنہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود ملازمت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ کسی فوجی حکومت میں ملازمت نہیں کر سکتے۔ انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں اس وقت کیا جب گجرات سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری انور سماں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ مارچ 1975 کی بات ہے۔ ان کی نشست پر چوہدری اعتزاز احسن بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ انھیں صوبائی کابینہ میں اطلاعات اور منصوبہ بندی اور ترقی ملی۔

1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی تو لاہور میں وکلا کی ایک ریلی پر پولیس فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا تو اعتزاز احسن نے احتجاجاً وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے انھیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکال دیا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اعتزاز احسن تحریک بحالی جمہوریت کے سرگرم رکن بن گئے۔

انھوں نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران متعدد بار گرفتار ہوئے۔ انھیں سیاسی قیدی قرار دے کر بغیر کوئی مقدمہ چلائے جیل میں رکھا گیا ۔1988 میں اعتزاز احسن لاہور سے پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990ء میں وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم 1993 کے انتخابات میں انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں مختلف اوقات میں داخلہ، قانون و انصاف، نارکوٹکس کنٹرول، تعلیم کے وزیر رہے۔ 1994 میں وہ سینیٹ کے رکن بنے۔ انھیں قائد ایوان منتخب کیا گیا۔ 1996سے 1997 تک وہ قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز رہے۔

2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لاہور اور بہاولنگر میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے جیت گئے۔9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو اعتزاز احسن نے اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ مسٹر جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اعتزاز احسن کے دلائل نے اپنا آپ منوا لیا اور معزز عدالت نے پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔ پھر 3 نومبر 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے ''ہنگامی حالت'' کے اعلان کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔اس دوران انھیں قید تنہائی اور بدترین تشدد سے گزارا گیا۔ نتیجتاً امریکی سینیٹ کے 33 ارکان نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا اور اعتزاز احسن کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں پوری دنیا میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اُن کے والدین محمد احسن علیگ اور والدہ محترمہ رشیدہ احسن کی معاشرتی شعبہ کی قابل فخر خدمات کا ذکرگجرات سے تعلق رکھنے والے بزرگوں اور عزیزوں کی زبان پر رہتا ہے۔ انھیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت چہرہ ہیں۔ دنیا بھر کے قانون دان اپنے لیکچرز میں اعتزاز احسن کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو وکلاء تحریک میں سب سے زیادہ سرگرم رہے، اور اسی وجہ سے اُن کی پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی لیکن وہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔خیر مختصر یہ کہ یہی چند وجوہات ہیں کہ ن لیگ کو میرٹ پر لوگ پسند نہیں ہیں۔

بادی النظر میں اپوزیشن کے اراکین بظاہر ایک دوسرے کا نام لینے کو تیار نہیں ہیں ، محض مجبوری کی حالت میں صرف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔حقیقت میں یہ لوگ اس لیے صدر کی کرسی کے لیے تڑپ رکھتے ہیں کیوں کہ انھیں علم ہے کہ جو صدر بنے گا اسے استثنیٰ مل جائے گا ۔ یہ لوگ جانتے ہیں صدر اپنا ہوگا تو کسی کو معافیاں مل جائیں گی،کسی کے لیے کوئی راستہ نکل آئے گا۔اس لیے یہ لوگ اعتزاز احسن کے نام پر بھی متفق نہیں ہیں۔ لیکن اعتزاز احسن صدر منتخب ہوں نہ ہوں مگر آج نہیں تو کل اُن کی اصول پسندی ، حب الوطنی اور پارٹی کے ساتھ Dedicationکا انعام ضرور ملے گا۔
Load Next Story