گلگت میں طالبان

گلگت سٹی میں قیام کے دوران کام سے فراغت کے بعد اک روز کارگاہ بدھا گھومنے کی غرض سے پہنچے۔

تاحد نگاہ پھیلا سبزہ آنکھوں میں تراوت پیدا کر رہا تھا۔ پہاڑوں سے پھوٹتے چشموں کا ساز، صاف ہوا میں رچی مہک اور خنکی کے باعث طبیعت پر عجب خمار طاری تھا۔ میں جنت نظیر گلگت کی اس حسین وادی کے سحر میں گم تھا کہ ساتھ موجود مقامی دوست کی غمزدہ آواز مجھے واپس کھینچ لائی۔ صدام بھائی آج پھر چلاس میں ایک اسکول نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر اس سے سوال کیا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر دھیمی آواز میں کہا صدام بھائی اس معاملے کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے۔

'طالبان' میں نے چونک کر پوچھا؟ جی طالبان صدام بھائی، یہ وہ طالبان ہیں جو سوات و دیگر علاقوں میں آپریشن کے دوران فرار ہوکر داریل کے علاقے میں آ چھپے ہیں۔ یہ خوفناک انکشاف تھا کیونکہ گلگت سی پیک کا گیٹ وے ہے اور دیامر بھاشا ڈیم سمیت کئی اہم منصوبے یہاں زیر تعمیر ہیں۔ گلگت کے دس ڈسٹرکٹ میں سے واحد دیامر ڈسٹرکٹ ہے جہاں سو فیصد آبادی سنی فقہ سے ہے۔ ہنزہ میں نوے فیصد سے زائد اسماعیلی ہیں اور باقی آٹھ ڈسٹرکٹ میں شیعہ سنی مخلوط آبادی ہے، تاہم گلگت سٹی سمیت زیادہ تر میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ماضی میں یہاں فرقہ وارانہ واقعات ہوئے، مگر 2013 سے یہاں امن ہے۔ دیامر ڈویژن میں دو اضلاع ہیں، جن میں استور اور دوسرا دیامر ہی کہلاتا ہے۔

میں کراچی میں تھا جب اسکولز نذر آتش کرنے کا واقعہ رونما ہوا۔ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ گلگت کا رخ کیا۔ اسلام آباد سے سڑک کے ذریعے سفر شروع کیا تاکہ گلگت کے بارے میں زمینی حقائق جاننے میں آسانی رہے۔ بالا کوٹ، ناران، کاغان کی حسین وادیاں عبور کرنے کے بعد خیبرپختونخوا کا علاقہ کوہستان شروع ہوگیا، جس کی سرحدیں دیامر سے ملتی ہیں۔ ہمارے پڑاؤ کا انتظام گلگت سٹی میں واقع پولیس ریسٹ ہاؤس میں تھا۔

دوران سفر مختلف مقامات پر رکنے سے لوگوں کی بود و باش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی دیامر گلگت کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ کوہستان اور دیامر کے لوگوں کی معاشرتی و روایتی اقدار یکساں ہیں۔ یہی وجہ ہے کے 1994 میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے یہاں سر اٹھایا اور 1998 میں پہلی مرتبہ داریل، تانگیر، تھور نالہ سمیت دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے چھ اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد 2004 اور پھر 2011 میں لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے ہوئے۔ چلاس سٹی میں واقع گرلز مڈل اسکول تکیہ چھ مرتبہ نشانہ بن چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں علم و دانش کے حوالے سے دیامر کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ آج بھی داریل میں بدھ بھکشوؤں کے دور کی یونیورسٹی کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

2013 کے بعد اچانک اسکولوں کو نشانہ بنایا جانا ممکنہ طور پر دیامر بھاشا ڈیم کے خلاف غیر ملکی سازش تصور کیا جارہا ہے، کیونکہ ماضی کی نسبت اب شرپسندوں کو مقامی آبادی کی خاص حمایت حاصل نہیں ہے۔ گلگت میں قیام کے دوران مختلف فقوں کے لوگوں سے رائے لیتا رہا ہوں، جن کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت نے نقصان ہی پہنچایا ہے، جس کا اندازہ اب سب کو ہے۔ لوگوں میں شعور آرہا ہے۔ ایک روز نلتر ویلی کی سیر کا پروگرام بنا، راستہ میں جیپ خراب ہوجانے کے باعث مقامی ڈرائیور جیپ سمیت لینا پڑا۔ نلتر ویلی جتنی خوبصورت ہے راستہ اتنا ہی دشوار گزار ہے۔

دوران سفر دیہاتی ڈرائیور سے فرقہ واریت کے حوالے سے میں نے جاننا چاہا۔ اس نے رسان سے جواب دیا کہ ہم گلگتی لوگ فرقہ واریت کے خلاف ہیں، لیکن سوات، پارہ چنار اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں سے لوگ آکر یہاں مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس نے سادگی سے کہا کہ حالات درست رہیں تو ہی یہاں ٹورسٹ آتے ہیں اور ان کی آمد سے ہی ہمارے گھروں کا چولہا جلتا ہے، تو ہم مقامی کیوں چاہیں گے کہ حالات بگڑیں۔


گلگت سٹی میں قیام کے دوران کام سے فراغت کے بعد اک روز کارگاہ بدھا گھومنے کی غرض سے پہنچے۔ واقعی انتہائی حسین علاقہ ہے۔ واپسی پر تھکن کے باعث جلد سوگیا۔ صبح بھی جلدی اٹھ بیٹھا کیونکہ ایکسپریس ٹی وی کے لیے ڈی آئی جی گلگت کا انٹرویو لینا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو روح فرسا خبر منتظر تھی کہ کارگاہ کی دور افتادہ پولیس چیک پوسٹ پر شرپسندوں نے حملہ کیا، جس میں تین پولیس اہلکار شہید اور کچھ زخمی ہوئے۔ حملے میں اہم طالبان کمانڈر خلیل اپنے ساتھی سمیت مارا گیا۔ داریل میں پولیس کی جانب سے شرپسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور اس واقعہ کے بعد اس میں تیزی آگئی ہے۔

اگلے دن گلگت سٹی کے ایس ایس پی سے انٹرویو کے دوران اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ملی۔ آٹھ کے لگ بھگ شرپسندوں نے داریل سے پیدل سفر کیا۔ اس کے لیے پہاڑی نالوں اور گھاٹیوں کا استعمال کیا گیا۔ صبح فجر کے وقت جب ایک پولیس اہلکار نے نماز کی غرض سے چوکی کا دروازہ کھولا تو گھات لگائے شرپسندوں نے دھاوا بول دیا۔ اچانک حملے کے باوجود پولیس اہلکاروں نے مقابلہ کیا۔ ایک نہتے پولیس اہلکار نے کمانڈر خلیل سے دوبدو لڑائی کے دوران ہتھیار چھین کر اسے اور اس کے ساتھی کو نشانہ بنایا۔ کمانڈر خلیل پندرہ کمانڈرز میں سب سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔

گلگت کے لوگ دلیری میں مثال رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کارگل جنگ کے دوران کارہائے نمایاں انجام دینے پر گلگت کی ناردرن لائٹ انفنٹری کو باقاعدہ پاک فوج کی رجمنٹ کا درجہ دیا گیا۔ اسی طرح پاک افغان بارڈر پر جب پاکستان کی جانب سے گیٹ وغیرہ تعمیر کیا جارہا تھا تو افغان فوج نے رکاوٹ ڈالنے کے لیے پے درپے حملے کیے۔ اس دوران ناردرن لائٹ انفنٹری کو طلب کیا گیا، جس کے جوانوں نے افغان فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے۔این ایل آئی کی تاریخ معنی رکھتی ہے۔ گلگت کے لوگ زیادہ تر محب وطن ہیں۔ 1948 میں این ایل آئی کے ساتھ مل کر مقامی آبادی نے گلگت کو آزاد کرایا اور بخوشی پاکستان سے الحاق کیا۔

دوران قیام خنجراب بارڈر پر بھی اپنے پروگرام گرفت کی ریکارڈنگ کے لیے پہنچے۔ ہماری خواہش پر طے ہوا کہ خنجراب بارڈر سے چائنا کے علاقے زن جیانگ کا دورہ بھی کیا جائے۔ ہمارے پاس نہ ویزہ تھا اور نہ ہی پاسپورٹ، لیکن حکومتی سطح پر سرحد پار جانے کی اجازت مل ہی گئی۔

پاکستان اور چین کے اچھے تعلقات کے باعث مقامی کاروباری افراد کا راہداری کارڈ بنتا ہے، جس کے ذریعے وہ چین کے صوبے زن جیانگ جاسکتے ہیں، اسی طرح زن جیانگ کے لوگ گلگت آتے ہیں لیکن اس کے لیے مقامی ہونا اور راہداری کارڈ شرط ہے۔ خنجراب پر ریکارڈنگ کے بعد سیکیورٹی فورس کے ہمراہ زن جیانگ میں داخل ہوئے، جہاں کے ڈرائی پورٹ پر چینی فوج نے بھرپور استقبال کیا اور خوب آؤ بھگت کی۔ اجازت تو ہمیں کاشغر تک کی ملی تھی لیکن وقت کی کمی کے باعث واپسی کی راہ لی۔ اگلے دن اسلام آباد روانگی پر راستے میں دیامر سے ہوتے ہوئے جانا تھا، جہاں ڈی آئی جی گلگت ہمارے منتظر تھے اور نشانہ بننے والے اسکولز کی شوٹ کے ساتھ مقامی آبادی کی رائے لینا تھی، لیکن لینڈ سلائیڈنگ میں پھنسنے کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا۔

بہرحال اس وقت گلگت کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ مقامی عمائدین و آبادی کے تعاون سے کچھ شرپسندوں کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن اس مسئلے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ بھارت اس علاقے کو پاکستان و بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ تصور کرتے ہوئے متنازعہ قرار دیتا ہے اور اگر عسکریت پسند یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے تو دیامر بھاشا ڈیم و سی پیک کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
Load Next Story