کراچی میں کتھک رقاصہ علینہ رائے کی مسحور کن پرفارمنس
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ٹی ٹو ایف کے زیر اہتمام ’’کتھک کل اور آج کے‘‘عنوان سے محفل سجائی گئی۔
کراچی میں ٹی ٹوایف کے تحت اعضا کی شاعری کی ایک خوبصورت تقریب سجائی گئی جس میں کتھک رقص کی ماہر رقاصہ علینہ رائے نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے سماں باندھ دیا اور حاضرین کے دل موہ لیے۔
اگرماضی کے جھروکوں میں ہم اس بات کا مشاہدہ کریں کہ برصغیر (غیر منقسم ہندوستان میں) آٹھ مختلف اقسام کے رقص رائج رہے ہیں ، کتھک ان ہی کلاسیکل رقص کی ایک قسم ہے جوشمالی ہندوستان میں زیادہ مقبول رہا ہے۔ برصغیر میں مغلوں کی آمد کے بعد کتھک میں بہت سی اہم تبدیلیاں آئیں۔
مندروں سے نکل کر یہ رقص مغل دربار کی زینت بن گیا اور اسے ایک کلاسیکل فن سمجھا جانے لگا۔اس خوبصورت فن کی آبیاری میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اس فن کو اگلی نسلوں تک بھی منتقل کر رہی ہیں ،مغل دور میں کتھک میں جو تبدیلیاں آئیں، اْن میں سے اہم ترین تتکار اور چکرہیں، تتکار مطلب پاؤں اور گھنگرؤں کی تھاپ سے پیدا ہونے والی آواز۔۔۔ کتھک، ایک ایسا رقص، جو دیکھنے والے کو مسحور کر دے، صرف محسوسات ہی اس تتکار کا اصل مطلب اور پیغام سمجھ سکتے ہیں ، وادی سندھ میں پھلنے پھولنے والی موہنجو داڑو کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والی رقاصہ کی مورتی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس خطے میں پانچ ہزار سال پہلے بھی رقص کو ایک اہم فن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
رقص کی قدیم ترین کتاب ناٹیہ شاستر بھی اسی دھرتی پر رقم ہوئی جو آج کل پاکستان کا حصہ ہے۔ کتھک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا رقص ہے جس میں فارسی رسم و رواج جھلکتا ہے۔ اس رقص کوپیش کرنے والے رقاص یا رقاصہ علیحدہ قسم کے دلچسپ دلکش اور دیدہ زیب پیراہن زیب تن کرتے ہیں۔
مغلیہ دور میں یہ رقص عروج پر تھا،ماضی کے اسی رقص کو اگر ہم موجودہ تناظر میں دیکھے تو اس حوالے سے گذشتہ روز کراچی کی سماجی سرگرمیوں کے لیے معروف ایک گوشے میں ذہنوں پر اپنے نقش چھوڑدینے والی تقریب منعقد کی گئی ، علینہ رائے نے دس سال تک دبئی میں گرو پالی چندرا اور نتیش سرس وت جی سے باقاعدہ طور پر کتھک رقص کی تربیت لی، آج کل وہ برطانیہ سے نفسیات میں ڈگری حاصل کر رہی ہیں، وہ 2016ء سے ہر سال گرمیوں میں پاکستان آتی ہیں اور کئی طلبہ کو پاکستان میں کتھک رقص سکھارہی ہیں۔
اپنے کیریئر میں علینہ رائے نے متحدہ عرب امارات اور لندن بھر میں تقریبات اور تہواروں میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ٹی ٹو ایف میں منعقدہ پروگرام ''کتھک کل سے آج تک'' میں انھوں نے پہلی مرتبہ اکیلے پرفارم کیا جس میں انھوں دورسے شروع ہونے والے این ایکٹمنٹ نریٹا کلاسیکل کتھک کو' سٹائل ردیمک اورنرتیا کنٹمپری' تک کیسے سفر کیا پر روشنی ڈالی۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ٹی ٹو ایف کے زیر اہتمام ''کتھک کل اور آج کے''عنوان سے محفل سجائی گئی جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کھتک کی ماہر رقاصہ علینہ رائے نے چہرے کے خوبصورت تاثرات کے ساتھ رقص پیش کرکے شرکا سے خوب داد وصول کی۔ تقریب میں ہونے والی پرفارمنس ''دم مست قلندر، تیری دیوانی، موہے رنگ دو لعل، آج جانے کی ضد نہ کرو، پیرا ہو'' پرطبلے کی تھاپ پر چلتے پاؤں،چہرے پر خوبصورت تاثرات کے ساتھ رقص پیش کیا تو دیکھنے والے سحر میں جکڑ گئے اور تالیاں بجا کر خوب داد دی۔
رقاصہ علینہ رائے نے کہا کہ پاکستان میں کھتک ڈانسرز کی تعداد بہت کم ہے اور بالخصوص کراچی میں تو نہ ہونے کے برابر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فن کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ رقص اعضا کی شاعری ہے میرا آج کا ڈانس بھی کتھک کے سفر پر مبنی ہے، کتھک کی مدد سے کہانیاں بتائی جاتی ہیں اور آج کل کے دور میں کتھک فلموں میں زیادہ ہورہا ہے پہلے کے لوگ اس آرٹ سے ناآشنا تھے لیکن اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کی بدولت نوجوان نسل کو اسے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
جس طرح شاعری میں اپنی بات کو کم الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے بالکل ایسی ہی اس رقص کی مدد سے ہم اپنے تاثرات بیان کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میری خواہش ہے اور امید کرتی ہوں کہ آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو اور کتھک کو پروموٹ کریں کیونکہ یہ ایک بہترین آرٹ ہے۔
اگرماضی کے جھروکوں میں ہم اس بات کا مشاہدہ کریں کہ برصغیر (غیر منقسم ہندوستان میں) آٹھ مختلف اقسام کے رقص رائج رہے ہیں ، کتھک ان ہی کلاسیکل رقص کی ایک قسم ہے جوشمالی ہندوستان میں زیادہ مقبول رہا ہے۔ برصغیر میں مغلوں کی آمد کے بعد کتھک میں بہت سی اہم تبدیلیاں آئیں۔
مندروں سے نکل کر یہ رقص مغل دربار کی زینت بن گیا اور اسے ایک کلاسیکل فن سمجھا جانے لگا۔اس خوبصورت فن کی آبیاری میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اس فن کو اگلی نسلوں تک بھی منتقل کر رہی ہیں ،مغل دور میں کتھک میں جو تبدیلیاں آئیں، اْن میں سے اہم ترین تتکار اور چکرہیں، تتکار مطلب پاؤں اور گھنگرؤں کی تھاپ سے پیدا ہونے والی آواز۔۔۔ کتھک، ایک ایسا رقص، جو دیکھنے والے کو مسحور کر دے، صرف محسوسات ہی اس تتکار کا اصل مطلب اور پیغام سمجھ سکتے ہیں ، وادی سندھ میں پھلنے پھولنے والی موہنجو داڑو کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والی رقاصہ کی مورتی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس خطے میں پانچ ہزار سال پہلے بھی رقص کو ایک اہم فن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
رقص کی قدیم ترین کتاب ناٹیہ شاستر بھی اسی دھرتی پر رقم ہوئی جو آج کل پاکستان کا حصہ ہے۔ کتھک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا رقص ہے جس میں فارسی رسم و رواج جھلکتا ہے۔ اس رقص کوپیش کرنے والے رقاص یا رقاصہ علیحدہ قسم کے دلچسپ دلکش اور دیدہ زیب پیراہن زیب تن کرتے ہیں۔
مغلیہ دور میں یہ رقص عروج پر تھا،ماضی کے اسی رقص کو اگر ہم موجودہ تناظر میں دیکھے تو اس حوالے سے گذشتہ روز کراچی کی سماجی سرگرمیوں کے لیے معروف ایک گوشے میں ذہنوں پر اپنے نقش چھوڑدینے والی تقریب منعقد کی گئی ، علینہ رائے نے دس سال تک دبئی میں گرو پالی چندرا اور نتیش سرس وت جی سے باقاعدہ طور پر کتھک رقص کی تربیت لی، آج کل وہ برطانیہ سے نفسیات میں ڈگری حاصل کر رہی ہیں، وہ 2016ء سے ہر سال گرمیوں میں پاکستان آتی ہیں اور کئی طلبہ کو پاکستان میں کتھک رقص سکھارہی ہیں۔
اپنے کیریئر میں علینہ رائے نے متحدہ عرب امارات اور لندن بھر میں تقریبات اور تہواروں میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ٹی ٹو ایف میں منعقدہ پروگرام ''کتھک کل سے آج تک'' میں انھوں نے پہلی مرتبہ اکیلے پرفارم کیا جس میں انھوں دورسے شروع ہونے والے این ایکٹمنٹ نریٹا کلاسیکل کتھک کو' سٹائل ردیمک اورنرتیا کنٹمپری' تک کیسے سفر کیا پر روشنی ڈالی۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ٹی ٹو ایف کے زیر اہتمام ''کتھک کل اور آج کے''عنوان سے محفل سجائی گئی جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کھتک کی ماہر رقاصہ علینہ رائے نے چہرے کے خوبصورت تاثرات کے ساتھ رقص پیش کرکے شرکا سے خوب داد وصول کی۔ تقریب میں ہونے والی پرفارمنس ''دم مست قلندر، تیری دیوانی، موہے رنگ دو لعل، آج جانے کی ضد نہ کرو، پیرا ہو'' پرطبلے کی تھاپ پر چلتے پاؤں،چہرے پر خوبصورت تاثرات کے ساتھ رقص پیش کیا تو دیکھنے والے سحر میں جکڑ گئے اور تالیاں بجا کر خوب داد دی۔
رقاصہ علینہ رائے نے کہا کہ پاکستان میں کھتک ڈانسرز کی تعداد بہت کم ہے اور بالخصوص کراچی میں تو نہ ہونے کے برابر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فن کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ رقص اعضا کی شاعری ہے میرا آج کا ڈانس بھی کتھک کے سفر پر مبنی ہے، کتھک کی مدد سے کہانیاں بتائی جاتی ہیں اور آج کل کے دور میں کتھک فلموں میں زیادہ ہورہا ہے پہلے کے لوگ اس آرٹ سے ناآشنا تھے لیکن اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کی بدولت نوجوان نسل کو اسے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
جس طرح شاعری میں اپنی بات کو کم الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے بالکل ایسی ہی اس رقص کی مدد سے ہم اپنے تاثرات بیان کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میری خواہش ہے اور امید کرتی ہوں کہ آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو اور کتھک کو پروموٹ کریں کیونکہ یہ ایک بہترین آرٹ ہے۔