اے این پی اور درون و بیرون
’’ہمارا مینڈیٹ دہشت گردی سے چھینا گیا، ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے، ہمیں جان بوجھ کر ہرایا گیا، بلکہ اس میں بیرونی ہاتھ...
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اے این پی کے ایک اجلاس میں وہی کچھ کہا گیا جس کی توقع تھی کہ
''ہمارا مینڈیٹ دہشت گردی سے چھینا گیا، ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے، ہمیں جان بوجھ کر ہرایا گیا، بلکہ اس میں بیرونی ہاتھ کا بھی پتہ چلا ہے''
یہ تو صرف وہ تھا جو کہا گیا یا اخباروں میں آ گیا لیکن ہمیں معلوم ہے اور جتنا کچھ ہم اے این پی کے ''غازیان گفتار'' کو جانتے ہیں تو آف دی ریکارڈ یہ بھی کہا گیا ہو گا کہ ہمارے خلاف سورج اور چاند نے سازش کی اور ستاروں نے جعلی ووٹ ڈالے اور ٹیپ کا یہ بند کہ افسوس پختون قوم نے اپنے لیڈروں کے ساتھ وفا نہیں کی حالانکہ لیڈروں نے ان کے لیے تن من (دھن نہیں) کی بازی لگا دی تھی۔
گویا حقیقت میں اے این پی اب بھی نہیں جاگی کیونکہ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے، وہ مینڈیٹ مینڈیٹ کی رٹ لگا رہی ہے حالانکہ مینڈیٹ ایک قطعی ناپائیدار اور آنی جانی چیز ہے اور پاکستان میں تو یہ ہوتا رہتا ہے، ایک پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملتا ہے لیکن دوسری باری میں کچھ بھی نہیں رہتا 'پھر جب مخصوص مدت گزرتی ہے تو پھر اپنا مینڈیٹ یا ''باری'' حاصل کر لیتی ہے، مطلب یہ کہ مینڈیٹ کھونا اور پانا کوئی خاص یا حیرت کی بات ہی نہیں ہے اور اے این پی کی یہ مینڈیٹ کی رٹ ہی بتا رہی ہے کہ اس نے کیا کیا کچھ کھویا ہے، اس نے ایک صدی کی جدوجہد کھوئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو کھویا۔۔۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو کھو بیٹھتے ہیں، ان کے پاس دنیا جہان کا سب کچھ بھی ہو تو وہ تہی دست ہی رہتا ہے، اصل نقصان کا تو اسے احساس تک نہیں، ہزاروں خدائی خدمت گاروں کے جدی پشتی خاندان اس نے اپنے سے دور کر دیے جو اس پارٹی کا خون تھے، پشتو کے وہ بے پناہ اور مخلص اہل قلم جو اس تحریک کے روح رواں تھے اس سے دور ہوگئے ۔
باچا خان، ولی خان ، ٹکر ہاتھی خیل اور بھابڑہ کے شہیدوں تک کوبھلادیا گیا اور اب یہ کبھی واپس نہیں آنے والا۔ مینڈیٹ تو اس کے مقابل کوئی چیز ہی نہیں اور یہی سارے پرابلمز کی جڑ ہے۔ اے این پی کے اجلاس میں دہشت گردی بیرونی ہاتھ اور سازشیں تو نظر آ گئیں لیکن اصل وجوہات نہیں دیکھ پائی، خیر یہ تو ہونا ہی تھا کہ اے این پی بھلے ہی خود کو وہی پارٹی کہے، لیکن سچ یہ ہے کہ بہت کچھ بدل گیاہے،اب کم از کم وہ پارٹی نہیں جسے پختون اپنی پارٹی سمجھتے تھے، عوام نے جو ان سے توقعات لگائی تھیں ، وہ پوری نہ ہوسکیں۔
خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے ۔۔۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی کو آگے کردیا گیا کیوں کہ منصوبہ ساز جان گئے تھے کہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ لوہے نے لوہے کو کاٹا اور ایسا کاٹا کہ دونوں طرف کا لوہا لہولہان ہو گیا اور اس لوہے کا نام پختون تھا کیونکہ جس طرف سے بھی مر رہا تھا وہ پختون ہی ہوتا تھا، اگر پرانی والی اے این پی ہوتی تو اس صورت حال کو دیکھ کر صاف معذرت کر لیتی کہ ہم اس جنگ میں نہیں کود سکتے۔
جو سب سے قابل ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ اے این پی میں صرف اندر کے آدمیوں کو اہمیت دی جائے گی، کسی بیرونی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پارٹی پر اپنی مرضی مسلط کرے، ''بیرونی فرد'' کا یہ اشارہ صرف مور بی بی بیگم نسیم ولی خان کی طرف ہے حالانکہ اس بے چاری، درد کی ماری، اپنوں کی ڈسی ہوئی خاتون آہن نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے، صرف ایک بیان دیا ہے جس میں کچھ حقائق اور کچھ چہروں سے نقاب سرکانے کی کوشش کی ہے، وہ بھی صرف اس توقع کے ساتھ کہ شاید اب بھی یہ لوگ سنبھل جائیں حالانکہ کم و بیش یہی باتیں بدلے ہوئے الفاظ میں غلام احمد بلور نے بھی کہی ہیں۔
کیوں کہ غلام احمد بلور بھی اگرچہ اپنی وفا داری بشرط استواری کی وجہ سے ابھی تک اے این پی کے ساتھ ہیں لیکن باچا خان اور ولی خان کی صحبت یافتہ اور اصلی رہنماء ہیں، اس لیے نہایت خندہ پیشانی سے اپنی ہار قبول کرتے ہوئے بولے کہ ہماری شکست کا نتیجہ ہماری غلط پالیسیاں ہیں اور یہی حقیقت ہے، ہو سکتا ہے کہ اندر خانے غلام احمد بلور کو بھی ''باہر کا آدمی'' کی کارروائی شروع کی جا چکی ہو، حالانکہ اس کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ، جب اجمل خٹک اور بیگم نسیم ولی خان کو ''باہر کے لوگ'' کہا جا سکتا ہے تو غلام احمد بلور کو بھی آوٹ کیا جا سکتا ہے اور اس بے چاری نے تو اپنے بیان میں صرف ماتم کیا ہے، گریہ زاری کی ہے، اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے اور اتنا تو اس کا حق ہے کیوں کہ اس وقت جو اندر کے آدمی بنے ہوئے ہیں ۔
جس زمانے میں پارٹی تو کیا ملک سے بھی باہر عیش کر رہے تھے تو بہادر ماں سر پر دوپٹہ باندھ کر میدان میں کھڑی تھی۔ زمانے کے بھی عجیب کھیل ہیں، آج وہ جو اندرون سے بھی اندرون تھیں ''باہر'' کی ہو گئی ہیں اور جو باہر سے بھی باہر تھے وہ گھر کے مالک بن بیٹھے ہیں، جہاں تک پختونوں کی بے وفائی اور دوسروں کی وفا داری کا تعلق ہے تو یہ تو ایک سیدھا سادا اصول ہے اگر آپ باہیں پھیلا کر میرا خیر مقدم کریں گے تو میں بھی باہیں پھیلا کر گلے ملوں گا، اگر آپ صرف ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کریں گے تو میں بھی صرف ہاتھ بڑھاؤں گا اگر آپ دور سے سر ہلا کر علیک سلیک کریں گے تو میں دور ہی سے سر ہلانے پر اکتفا کروں گا، اور اگر آپ مجھے ایک تھپڑ ماریں گے تو میں دو تھپڑ ماروں گا اور پختون تو حماقت کی حد تک اسی مزاج کا مالک ہے۔
''ہمارا مینڈیٹ دہشت گردی سے چھینا گیا، ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے، ہمیں جان بوجھ کر ہرایا گیا، بلکہ اس میں بیرونی ہاتھ کا بھی پتہ چلا ہے''
یہ تو صرف وہ تھا جو کہا گیا یا اخباروں میں آ گیا لیکن ہمیں معلوم ہے اور جتنا کچھ ہم اے این پی کے ''غازیان گفتار'' کو جانتے ہیں تو آف دی ریکارڈ یہ بھی کہا گیا ہو گا کہ ہمارے خلاف سورج اور چاند نے سازش کی اور ستاروں نے جعلی ووٹ ڈالے اور ٹیپ کا یہ بند کہ افسوس پختون قوم نے اپنے لیڈروں کے ساتھ وفا نہیں کی حالانکہ لیڈروں نے ان کے لیے تن من (دھن نہیں) کی بازی لگا دی تھی۔
گویا حقیقت میں اے این پی اب بھی نہیں جاگی کیونکہ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے، وہ مینڈیٹ مینڈیٹ کی رٹ لگا رہی ہے حالانکہ مینڈیٹ ایک قطعی ناپائیدار اور آنی جانی چیز ہے اور پاکستان میں تو یہ ہوتا رہتا ہے، ایک پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملتا ہے لیکن دوسری باری میں کچھ بھی نہیں رہتا 'پھر جب مخصوص مدت گزرتی ہے تو پھر اپنا مینڈیٹ یا ''باری'' حاصل کر لیتی ہے، مطلب یہ کہ مینڈیٹ کھونا اور پانا کوئی خاص یا حیرت کی بات ہی نہیں ہے اور اے این پی کی یہ مینڈیٹ کی رٹ ہی بتا رہی ہے کہ اس نے کیا کیا کچھ کھویا ہے، اس نے ایک صدی کی جدوجہد کھوئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو کھویا۔۔۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو کھو بیٹھتے ہیں، ان کے پاس دنیا جہان کا سب کچھ بھی ہو تو وہ تہی دست ہی رہتا ہے، اصل نقصان کا تو اسے احساس تک نہیں، ہزاروں خدائی خدمت گاروں کے جدی پشتی خاندان اس نے اپنے سے دور کر دیے جو اس پارٹی کا خون تھے، پشتو کے وہ بے پناہ اور مخلص اہل قلم جو اس تحریک کے روح رواں تھے اس سے دور ہوگئے ۔
باچا خان، ولی خان ، ٹکر ہاتھی خیل اور بھابڑہ کے شہیدوں تک کوبھلادیا گیا اور اب یہ کبھی واپس نہیں آنے والا۔ مینڈیٹ تو اس کے مقابل کوئی چیز ہی نہیں اور یہی سارے پرابلمز کی جڑ ہے۔ اے این پی کے اجلاس میں دہشت گردی بیرونی ہاتھ اور سازشیں تو نظر آ گئیں لیکن اصل وجوہات نہیں دیکھ پائی، خیر یہ تو ہونا ہی تھا کہ اے این پی بھلے ہی خود کو وہی پارٹی کہے، لیکن سچ یہ ہے کہ بہت کچھ بدل گیاہے،اب کم از کم وہ پارٹی نہیں جسے پختون اپنی پارٹی سمجھتے تھے، عوام نے جو ان سے توقعات لگائی تھیں ، وہ پوری نہ ہوسکیں۔
خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے ۔۔۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی کو آگے کردیا گیا کیوں کہ منصوبہ ساز جان گئے تھے کہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ لوہے نے لوہے کو کاٹا اور ایسا کاٹا کہ دونوں طرف کا لوہا لہولہان ہو گیا اور اس لوہے کا نام پختون تھا کیونکہ جس طرف سے بھی مر رہا تھا وہ پختون ہی ہوتا تھا، اگر پرانی والی اے این پی ہوتی تو اس صورت حال کو دیکھ کر صاف معذرت کر لیتی کہ ہم اس جنگ میں نہیں کود سکتے۔
جو سب سے قابل ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ اے این پی میں صرف اندر کے آدمیوں کو اہمیت دی جائے گی، کسی بیرونی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پارٹی پر اپنی مرضی مسلط کرے، ''بیرونی فرد'' کا یہ اشارہ صرف مور بی بی بیگم نسیم ولی خان کی طرف ہے حالانکہ اس بے چاری، درد کی ماری، اپنوں کی ڈسی ہوئی خاتون آہن نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے، صرف ایک بیان دیا ہے جس میں کچھ حقائق اور کچھ چہروں سے نقاب سرکانے کی کوشش کی ہے، وہ بھی صرف اس توقع کے ساتھ کہ شاید اب بھی یہ لوگ سنبھل جائیں حالانکہ کم و بیش یہی باتیں بدلے ہوئے الفاظ میں غلام احمد بلور نے بھی کہی ہیں۔
کیوں کہ غلام احمد بلور بھی اگرچہ اپنی وفا داری بشرط استواری کی وجہ سے ابھی تک اے این پی کے ساتھ ہیں لیکن باچا خان اور ولی خان کی صحبت یافتہ اور اصلی رہنماء ہیں، اس لیے نہایت خندہ پیشانی سے اپنی ہار قبول کرتے ہوئے بولے کہ ہماری شکست کا نتیجہ ہماری غلط پالیسیاں ہیں اور یہی حقیقت ہے، ہو سکتا ہے کہ اندر خانے غلام احمد بلور کو بھی ''باہر کا آدمی'' کی کارروائی شروع کی جا چکی ہو، حالانکہ اس کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ، جب اجمل خٹک اور بیگم نسیم ولی خان کو ''باہر کے لوگ'' کہا جا سکتا ہے تو غلام احمد بلور کو بھی آوٹ کیا جا سکتا ہے اور اس بے چاری نے تو اپنے بیان میں صرف ماتم کیا ہے، گریہ زاری کی ہے، اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے اور اتنا تو اس کا حق ہے کیوں کہ اس وقت جو اندر کے آدمی بنے ہوئے ہیں ۔
جس زمانے میں پارٹی تو کیا ملک سے بھی باہر عیش کر رہے تھے تو بہادر ماں سر پر دوپٹہ باندھ کر میدان میں کھڑی تھی۔ زمانے کے بھی عجیب کھیل ہیں، آج وہ جو اندرون سے بھی اندرون تھیں ''باہر'' کی ہو گئی ہیں اور جو باہر سے بھی باہر تھے وہ گھر کے مالک بن بیٹھے ہیں، جہاں تک پختونوں کی بے وفائی اور دوسروں کی وفا داری کا تعلق ہے تو یہ تو ایک سیدھا سادا اصول ہے اگر آپ باہیں پھیلا کر میرا خیر مقدم کریں گے تو میں بھی باہیں پھیلا کر گلے ملوں گا، اگر آپ صرف ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کریں گے تو میں بھی صرف ہاتھ بڑھاؤں گا اگر آپ دور سے سر ہلا کر علیک سلیک کریں گے تو میں دور ہی سے سر ہلانے پر اکتفا کروں گا، اور اگر آپ مجھے ایک تھپڑ ماریں گے تو میں دو تھپڑ ماروں گا اور پختون تو حماقت کی حد تک اسی مزاج کا مالک ہے۔