عمران خان تبدیلی کے سفر پر گامزن
اگر عمران خان اپنے حلیفوں کے ہاتھوں مجبور ہوتے رہے تو انہیں مخالفین سے زیادہ حواریوں کی وجہ سے دشواری پیش آئے گی
اقتدار کیا ہے؟ ''اقتدار'' کا لفظ میری ناقص سوچ سے بالاتر ہے۔ اقتدار کو میں نشے کا نام دوں یا پھر انسانی خدمت کا جذبہ قرار دوں؟ دولت اور شہرت کی ہوس کہوں یا پھر بے بس و لاچار انسان کی ناخدا بننے کی خواہش سمجھوں؟ باتیں انسانیت کے ساتھ مخلص پن کی، اللہ اور رسول ﷺ کے قانون کو نافذ کرنے کی، سادگی اور میانہ روی کی، غریب لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور خدمت کرنے کی مگر اقتدار میں آنے کےلیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ آخرکیوں؟
اقتدار حاصل کرنے کےلیے انسان تمام اخلاقی اور اسلامی راوایات کو پس پشت کیوں ڈال دیتا ہے؟ اگر یہ اقتدار انسانی خدمت، ہمدردی، حسن سلوک اور حقدار کو حق دینے کےلیے حاصل کیا جاتا ہے تو پھراس اقتدار کو ناجائز طریقے سے کسی کا حق مار کر حاصل کرکے آپ جائز طریقے پر کیسے چل سکتے ہیں؟ جب آپ نے کسی بھی چیز کو ناجائز طریقے سے حاصل کیا تو اس کے اندر اللہ تعالی کی مرضی اور برکت شامل حال نہیں رہتی۔
پھر ان لوگوں ہی کی مرضی شامل ہوتی ہے جن کی مدد سے آپ نے یہ منصب حاصل کیا ہوتا ہے۔ اگر سمجھا جائے تو اقتدار مخمل کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے؛ جس پر سونے کےلیے آپ کو اپنے حساب کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
ایک بادشاہ کی خواب گاہ میں ایک لونڈی صفائی کرتے ہوئے بادشاہ کے بستر پر اس غرض کے ساتھ لیٹتی ہے کہ اس پر سونے کا کیا مزہ دیکھا جائے۔ جیسے ہی وہ لونڈی بادشاہ کے بستر پر لیٹتی ہے تو اس نرم اور مخملی بستر پر اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ بادشاہ اپنی خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے اور لونڈی کو اپنے بستر پر سویا ہوا پاتا ہے تو فوراً لونڈی کو گرفتار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب لونڈی کو گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو بادشاہ اس سے پوچھتا ہے تم نے میرے بستر پر سونے کی جرأت کیوں کی؟
لونڈی نے کہا، ''حضور میں آپ کے بستر پر نہیں سوئی تھی لیکن جیسے ہی آپ کے بستر پر لیٹی تو مجھے نیند آگئی۔'' اس پر بادشاہ نے لونڈی کو کوڑوں کی سزا سنا دی۔ جب لونڈی کو سزا دینے کے بعد بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے لونڈی سے کہا، ''دیکھی تم نے بادشاہ کے بستر پر سونے کی سزا؟'' لونڈی بولی، ''بادشاہ سلامت! میں تو ایک دن سوئی اور سزا پالی۔ آپ تو ہر روز بادشاہ کے بستر پر سوتے ہیں۔ آپ اپنی سزا کا خیال کیجیے۔''
بادشاہت ملنے پر خوشی کے ساتھ نعرے لگانے والو! انا اور غرور کی مستی میں دوسروں کا کا مذاق اڑانے والو! کل جب تم سے مسند سلطنت پر بیٹھنے کا حساب مانگا جائے گا تو کیا جواب دو گے؟
موجودہ منتخب حکمران تبدیلی تو چاہتے ہیں اور تبدیلی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں، مگر اقتدار حاصل کرنے کےلیے کسی بھی صورت سابقہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ طاقتور اور کرپٹ لوگوں کو اقتدار میں شامل کرنے کےلیے ان کو الیکٹیبلز کا نام دیا گیا ہے، چاہے وہ پیپلز پارٹی کے ہوں یا پھر مسلم لیگ (ن)، (ق)، ع غ یا کوئی بھی ہو، سب قابل قبول ہیں۔ عمران خان نے جس نظام کے خلاف 1996 میں جدوجہد شروع کی تھی، آخرکار انہیں اسی نظام کا حصہ بننا پڑا۔ وڈیرہ شاہی اور طاقتوروں کے ہاتھوں سے پاکستان کو آزاد کروانا عمران خان کا نعرہ تھا۔ بائیس سال تک عمران خان اس نظام کے خلاف لڑتے رہے۔ اس نظام کو توڑنے کےلیے عمران خان نے ہرطرح کا زور لگایا مگر وڈیرہ شاہی اور طاقتوروں کا نظام عمران خان ختم نہ کرسکا۔
وقت گزرتا گیا۔ پاکستان میں تبدیل تو نہ آئی مگر عمران خان کے جارحانہ رویّے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ سادہ لوح انسان سیاست کے رنگ میں رنگنے لگا، بااثر اور طاقتور افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا شروع کردیا۔ جیسے جیسے بااثر افراد تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے، تو چند ہی سال میں تحریک انصاف پاکستان کی طاقتور اور مقبول ترین پارٹی بن کر پورے ملک میں سامنے آئی۔ چند سال پہلے کسی بھی حلقے سے کامیاب نہ ہونے والی پارٹی 2013 کے الیکشن میں ایک صوبے پر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور مرکز میں بھی اپنی نمائندگی کو ثابت کرنے میں خاصی حد تک کامیاب رہی۔ مگر تحریک انصاف کا ''تبدیلی'' کا نعرہ مسلسل جاری رہا اور وہ پورے ملک سے با اثر اور طاقتور افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرتے ہوئے انہیں ''الیکٹیبلز'' کا نام دیتی رہی۔
ایک پریس کانفرنس میں جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ تو اس نظام کو ختم کرنے کےلیے نکلے تھے۔ آج آپ خود اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں کرکٹ کا میچ ہاکی کے کھلاڑیوں سے کھیل کر نہیں جیت سکتا۔ اگر مجھ کو کرکٹ کا میچ جیتنا ہے تو کرکٹ کی ہی ٹیم کو منتخب کرنا ہوگا۔
موجودہ الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیوں سے بہترین بیٹسمین اور باؤلرز کو منتخب کرکے عمران خان نے ایک بہترین ٹیم ترتیب دی اور اس کے نتیجے میں وہ 2018 کا الیکشن جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ مگر پھر بھی تحریک انصاف پارلیمنٹ میں بڑی مشکلوں سے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی؛ دو تہائی اکثریت کےلیے تحریک انصاف کو پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے مدد لینا پڑی۔ یہاں بھی تحریک انصاف نے اپنا تبدیلی کا سفر جاری رکھا اور جن پارٹیوں کو اپنے ساتھ نہ ملانے کا ہر تقریر اور پریس کانفرنس میں کہا جاتا تھا، اور جن پارٹیوں کے لیڈروں پر طرح طرح کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے تھے، آخرکار ان ہی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف حکومت بنا پائی۔ اس طرح عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
جب عمران خان نے اپنی کابینہ وزراء کا اعلان کیا تو اس میں بھی بہت زیادہ تبدیلی نظر آئی۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کو نظرانداز کرکے حلیف پارٹیوں کے نمائندوں کے درمیان وزارتیں تقسیم کی گئیں۔ ابھی تک عمران خان مسلسل تبدیلی کے سفر پر گامزن ہیں۔ حلیف پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے نخرے مکمل طور پر اٹھائے جارہے ہیں۔ اگر اسی طرح حلیف پارٹیوں اور آزاد امیداروں کے ہاتھوں عمران خان مجبور ہوتے رہے تو شاید انہیں اپوزیشن سے زیادہ اپنی حلیف جماعتوں کی وجہ سے حکومت کرنے میں دشواری پیش آئے۔
کیا عمران خان اس مجبوری اور بے بسی کے عالم میں پاکستان کے اندر تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ یا پھر مسلسل اس نظام کے ہاتھوں خود ہی تبدیل ہوتے رہیں گے؟
دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو کر پاکستانی عوام اس وقت عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر اسی طرح عمران خان اپنے اقتدار کو بچاتے رہے اور عوام کی خوشحالی و تبدیلی کا نعرہ صرف نعرہ ہی رہ گیا تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان کے اندر بھی صرف اور صرف حکمرانی کرنے کا شوق ہے نہ کہ عوام کی خوشحالی اور تبدیلی کا جذبہ۔ اگر عمران خان عوام کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے نہ کرسکے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ عزت، ذلت میں تبدیل ہو جائے گی۔
حضرت عمرفاروقؓ کو بھی اقتدار اللہ تعالی نے ہی دیا تھا اور فرعون کو بھی اللہ تعالی نے ہی اقتدار سے نوازا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اقتدار کے لالچ میں آکر عوام کے ساتھ وہی ظلم روا رکھتے ہیں جو وقت کے فرعون رکھتے آئے ہیں یا اپنے عیش و عشرت کی زندگی کو چھوڑ کر عوام کی خو شحالی کےلیے اپنا آرام و سکون بھول جاتے ہیں... یا پھراس فرسودہ نظام کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسی طرح تبدیلی کے سفر پر مسلسل گامزن رہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اقتدار حاصل کرنے کےلیے انسان تمام اخلاقی اور اسلامی راوایات کو پس پشت کیوں ڈال دیتا ہے؟ اگر یہ اقتدار انسانی خدمت، ہمدردی، حسن سلوک اور حقدار کو حق دینے کےلیے حاصل کیا جاتا ہے تو پھراس اقتدار کو ناجائز طریقے سے کسی کا حق مار کر حاصل کرکے آپ جائز طریقے پر کیسے چل سکتے ہیں؟ جب آپ نے کسی بھی چیز کو ناجائز طریقے سے حاصل کیا تو اس کے اندر اللہ تعالی کی مرضی اور برکت شامل حال نہیں رہتی۔
پھر ان لوگوں ہی کی مرضی شامل ہوتی ہے جن کی مدد سے آپ نے یہ منصب حاصل کیا ہوتا ہے۔ اگر سمجھا جائے تو اقتدار مخمل کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے؛ جس پر سونے کےلیے آپ کو اپنے حساب کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
ایک بادشاہ کی خواب گاہ میں ایک لونڈی صفائی کرتے ہوئے بادشاہ کے بستر پر اس غرض کے ساتھ لیٹتی ہے کہ اس پر سونے کا کیا مزہ دیکھا جائے۔ جیسے ہی وہ لونڈی بادشاہ کے بستر پر لیٹتی ہے تو اس نرم اور مخملی بستر پر اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ بادشاہ اپنی خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے اور لونڈی کو اپنے بستر پر سویا ہوا پاتا ہے تو فوراً لونڈی کو گرفتار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب لونڈی کو گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو بادشاہ اس سے پوچھتا ہے تم نے میرے بستر پر سونے کی جرأت کیوں کی؟
لونڈی نے کہا، ''حضور میں آپ کے بستر پر نہیں سوئی تھی لیکن جیسے ہی آپ کے بستر پر لیٹی تو مجھے نیند آگئی۔'' اس پر بادشاہ نے لونڈی کو کوڑوں کی سزا سنا دی۔ جب لونڈی کو سزا دینے کے بعد بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے لونڈی سے کہا، ''دیکھی تم نے بادشاہ کے بستر پر سونے کی سزا؟'' لونڈی بولی، ''بادشاہ سلامت! میں تو ایک دن سوئی اور سزا پالی۔ آپ تو ہر روز بادشاہ کے بستر پر سوتے ہیں۔ آپ اپنی سزا کا خیال کیجیے۔''
بادشاہت ملنے پر خوشی کے ساتھ نعرے لگانے والو! انا اور غرور کی مستی میں دوسروں کا کا مذاق اڑانے والو! کل جب تم سے مسند سلطنت پر بیٹھنے کا حساب مانگا جائے گا تو کیا جواب دو گے؟
موجودہ منتخب حکمران تبدیلی تو چاہتے ہیں اور تبدیلی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں، مگر اقتدار حاصل کرنے کےلیے کسی بھی صورت سابقہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ طاقتور اور کرپٹ لوگوں کو اقتدار میں شامل کرنے کےلیے ان کو الیکٹیبلز کا نام دیا گیا ہے، چاہے وہ پیپلز پارٹی کے ہوں یا پھر مسلم لیگ (ن)، (ق)، ع غ یا کوئی بھی ہو، سب قابل قبول ہیں۔ عمران خان نے جس نظام کے خلاف 1996 میں جدوجہد شروع کی تھی، آخرکار انہیں اسی نظام کا حصہ بننا پڑا۔ وڈیرہ شاہی اور طاقتوروں کے ہاتھوں سے پاکستان کو آزاد کروانا عمران خان کا نعرہ تھا۔ بائیس سال تک عمران خان اس نظام کے خلاف لڑتے رہے۔ اس نظام کو توڑنے کےلیے عمران خان نے ہرطرح کا زور لگایا مگر وڈیرہ شاہی اور طاقتوروں کا نظام عمران خان ختم نہ کرسکا۔
وقت گزرتا گیا۔ پاکستان میں تبدیل تو نہ آئی مگر عمران خان کے جارحانہ رویّے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ سادہ لوح انسان سیاست کے رنگ میں رنگنے لگا، بااثر اور طاقتور افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا شروع کردیا۔ جیسے جیسے بااثر افراد تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے، تو چند ہی سال میں تحریک انصاف پاکستان کی طاقتور اور مقبول ترین پارٹی بن کر پورے ملک میں سامنے آئی۔ چند سال پہلے کسی بھی حلقے سے کامیاب نہ ہونے والی پارٹی 2013 کے الیکشن میں ایک صوبے پر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور مرکز میں بھی اپنی نمائندگی کو ثابت کرنے میں خاصی حد تک کامیاب رہی۔ مگر تحریک انصاف کا ''تبدیلی'' کا نعرہ مسلسل جاری رہا اور وہ پورے ملک سے با اثر اور طاقتور افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرتے ہوئے انہیں ''الیکٹیبلز'' کا نام دیتی رہی۔
ایک پریس کانفرنس میں جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ تو اس نظام کو ختم کرنے کےلیے نکلے تھے۔ آج آپ خود اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں کرکٹ کا میچ ہاکی کے کھلاڑیوں سے کھیل کر نہیں جیت سکتا۔ اگر مجھ کو کرکٹ کا میچ جیتنا ہے تو کرکٹ کی ہی ٹیم کو منتخب کرنا ہوگا۔
موجودہ الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیوں سے بہترین بیٹسمین اور باؤلرز کو منتخب کرکے عمران خان نے ایک بہترین ٹیم ترتیب دی اور اس کے نتیجے میں وہ 2018 کا الیکشن جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ مگر پھر بھی تحریک انصاف پارلیمنٹ میں بڑی مشکلوں سے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی؛ دو تہائی اکثریت کےلیے تحریک انصاف کو پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے مدد لینا پڑی۔ یہاں بھی تحریک انصاف نے اپنا تبدیلی کا سفر جاری رکھا اور جن پارٹیوں کو اپنے ساتھ نہ ملانے کا ہر تقریر اور پریس کانفرنس میں کہا جاتا تھا، اور جن پارٹیوں کے لیڈروں پر طرح طرح کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے تھے، آخرکار ان ہی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف حکومت بنا پائی۔ اس طرح عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
جب عمران خان نے اپنی کابینہ وزراء کا اعلان کیا تو اس میں بھی بہت زیادہ تبدیلی نظر آئی۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کو نظرانداز کرکے حلیف پارٹیوں کے نمائندوں کے درمیان وزارتیں تقسیم کی گئیں۔ ابھی تک عمران خان مسلسل تبدیلی کے سفر پر گامزن ہیں۔ حلیف پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے نخرے مکمل طور پر اٹھائے جارہے ہیں۔ اگر اسی طرح حلیف پارٹیوں اور آزاد امیداروں کے ہاتھوں عمران خان مجبور ہوتے رہے تو شاید انہیں اپوزیشن سے زیادہ اپنی حلیف جماعتوں کی وجہ سے حکومت کرنے میں دشواری پیش آئے۔
کیا عمران خان اس مجبوری اور بے بسی کے عالم میں پاکستان کے اندر تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ یا پھر مسلسل اس نظام کے ہاتھوں خود ہی تبدیل ہوتے رہیں گے؟
دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو کر پاکستانی عوام اس وقت عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر اسی طرح عمران خان اپنے اقتدار کو بچاتے رہے اور عوام کی خوشحالی و تبدیلی کا نعرہ صرف نعرہ ہی رہ گیا تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان کے اندر بھی صرف اور صرف حکمرانی کرنے کا شوق ہے نہ کہ عوام کی خوشحالی اور تبدیلی کا جذبہ۔ اگر عمران خان عوام کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے نہ کرسکے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ عزت، ذلت میں تبدیل ہو جائے گی۔
حضرت عمرفاروقؓ کو بھی اقتدار اللہ تعالی نے ہی دیا تھا اور فرعون کو بھی اللہ تعالی نے ہی اقتدار سے نوازا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اقتدار کے لالچ میں آکر عوام کے ساتھ وہی ظلم روا رکھتے ہیں جو وقت کے فرعون رکھتے آئے ہیں یا اپنے عیش و عشرت کی زندگی کو چھوڑ کر عوام کی خو شحالی کےلیے اپنا آرام و سکون بھول جاتے ہیں... یا پھراس فرسودہ نظام کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسی طرح تبدیلی کے سفر پر مسلسل گامزن رہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔