کراچی کے عمی بھائی اور انقلابی تبدیلی
ملک لیڈروں سے نہیں چلا کرتا، لیڈر تو صرف رہنمائی کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے منشور ''تبدیلی'' کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوری اقدامات کا باقاعدہ آغازکر دیا ہے۔
ہمارے اس کالم کا موضوع کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے وطن عزیزکے سب سے بڑے شہرکراچی سے قومی اسمبلی کی بارہ نشستیں حاصل کر لی ہیں اور خاص بات یہ کہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے ہیڈکوارٹرز 90 کے حلقے سے بھی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔اس حوالے سے یہی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے لوگوں نے الطاف بھائی کی جگہ عمی بھائی کا انتخاب کر لیا ہے اور یوں وہ علاقائی سوچ سے آزاد ہوکر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔
کراچی کے عوامی حلقوں کی یہ دلی خواہش تھی کہ عمران خان اپنی کراچی کی سیٹ کو برقرار رکھتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ''وزیراعظم کراچی سے ''کا نعرہ بے عملی کا شکار ہوا ایک مخصوص طبقے کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں تحریک انصاف کی کامیابی ایجینسوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ بہرحال تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے شہرکی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور منتخب نمائیندے خالد مقبول صدیقی کو اپنی بائیس رکنی کابینہ میں شامل کرلیا ہے جو ایک اچھی اور خوش آیند بات ہے۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد میں متعین اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے بنی گالا کا دورہ کیا اورکامیابی پر عمران خان کو مبارک باد پیش کی۔ اس ضمن میں ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ایک بیان میں عمران خان کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ''عمران خان کا انتخاب بہادر اور عزت مند پاکستانیوں کی امنگوں کی علامت ہے'' جہاں تک عمران کی ذاتی بصیر ت کے حوالے سے بات کی جائے تواس میں کسی بھی بات کا شائبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک سادہ طرز زندگی اپنانے کے عادی ہیں، قومی سوچ کے مالک ہیں۔
خان صاحب نے اپنی جملہ تقریر میں اپنی حکومت کا لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے عام آدمی کی معاشی حالت کو بہتر بنانا، قرضہ فری پاکستان کی تشکیل کا اعادہ، سیاحت کے فروغ، ٹیکس کے بگڑے ہوئے نظام کی براہ راست نگرانی، صحت کارڈ کا اجرا، نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی اورگلوبل وارمنگ کے تحت زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کاعزم، خارجہ پالیسی کے ضمن میں تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی پیشرفت کے سلسلے میں جلد اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کا قطعی اور بلامشروط فیصلہ کیا۔
عمران صاحب آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کا اندرونی اور بیرونی انتظام وانصرام میں الیکشن اور سلیکشن دو ایسے قوت بخش عوامل ہیں جو ایک دوسرے کے تعاون سے ہی پیش قدمی کرتے ہیں۔ یعنی اقتدارکی دو ٹانگیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ گویا کسی بھی سطح پر دونوں کے درمیان ہمہ وقت ہم آہنگی کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
الیکشن عوامی جمہوری عمل کا نام ہے۔ چونکہ ملک میں رہنے والے لوگوں کی بھی حکومت سازی میں آئینی اور دستوری حصے داری ہوتی ہے، اس لیے بذریعہ ووٹ مناسب اور اہل عوامی امیدواروں کا چنائو عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ اسمبلیوں میں جا کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے قانون سازی کرسکیں ۔ سیلیکشن سے مراد ''اسٹیبلشمنٹ '' ہے جو اپنی تعلیمی استعداد اور قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر حکومت کے کاموں میں حصے دار ہوتے ہیں۔ جن میں افواج پاکستان، بیوروکریسی (سول سروسزکے اعلیٰ افسران)، عدلیہ اور مختلف سراغ رساں خفیہ ادارے شامل ہیں۔
یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں جمہوری عمل کی جڑوں سے بہت زیادہ مضبوط ہوا کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ کم ازکم بیوروکریسی کو اعتماد میں لیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں ہمیں یقین ہے کہ ملک کی بیوروکریسی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی شاہی بیوروکریسی نہ صرف برٹش اسٹائل ہے بلکہ ایک سے زائد بیرونی ممالک کی شہریتوں(Multi national citizenship) کی حامل بھی ہے اور مالی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ ملک بجائے آگے جانے کے پیچھے کی طرف جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک کا دانشمند حلقہ بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاست چند ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے یہاں ہم ماضی کی روشنی میں اور تجربے کی بنیاد پر آپ کی خدمت اقدس میں چند معروضات پیش کرنے کی ادنیٰ سی جسارت کریں گے کہ آپ ایک مخلص، سچے، عوام سے محبت اور عوام کا درد رکھنے والی وہ واحد سربراہ ہیں جو تہہ دل سے کچھ کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں مگر آ پ کو سب سے زیادہ خطرہ Status Quo کے تحت ایسے با اثر اشرافیہ اور جاگیر داروں کے سازشی ٹولے سے ہوگا جو آپ کے ظاہری وفادار بن کر آپ کی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور عوام بھی بخوبی ایسے طبقے سے خوب اچھی طرح سے واقف ہے۔
یہ طبقہ ہر دور میں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے۔گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ طبقہ کسی نہ کسی زاویے سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بھی رہے ہیں ۔ جوکام بھی آپ عوامی فلاح اور عوام کی خوشحالی کے لیے انجام دیں گے، یہی طبقہ ان کاموں کی ادائیگی میں سب بڑی رکاوٹ بنے گا ۔ یہ طبقہ آپ کے ارد گرد ایسا گھیرائو رکھے گا تاکہ آپ کے قریبی مخلص ساتھیوں سے آپ کو دورکیا جا سکے۔ فخر ایشیا اور غریب عوام کے پسندیدہ رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو آپ کے سامنے زندہ مثال ہیں۔
شکر ہے اللہ تعالی کی پاک ذات کا جس نے ہمیں قدرتی وسائل اور بے بہا دولت سے نوازا ۔ مضبوط اور طاقتور جنگجو افواج ، قابل اعلیٰ افسران کی مضبوط ٹیم بیدار مغزدانشور، مفکرین اور سائنسدانوں کی دولت سے ملک مالا مال ہے۔ عدالتوں کا اعلیٰ نظام ہے۔ یہا ں آمریت یا فرد واحد (بادشاہت ) کا راج نہیں ۔ اقتدار میں عوام کی حصے داری ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے ہم پریشان ہیں، کیوں ؟
کبھی آپ نے سوچا۔ جی ہاں !کہیں ہمارے اندر ہی خرابی ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہدایات کے باوجود کفران نعمت کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہوں، جس کا ادراک ہم نہیں کر پا رہے۔ سچ کا بول بالا نہیں، ہم الہامی طاقت کی بجائے دنیاوی طاقت سے ڈرتے ہیں، ہمارا ایمان کمزور ہے۔ نچلی سطح پر عوام اخلاقی انحطاط کا بری طرح شکار ہیں۔ایک اسلامی معاشرے میں انسانوں کا اخلاق گرنا سوائے ہماری تباہی کے کچھ نہیں ۔ ہم یہ بھی سنا کرتے تھے کہ جیسے عوام ویسے لیڈر۔ یاد رکھیے ملک لیڈروں سے نہیں چلا کرتا، لیڈر تو صرف رہنمائی کرتے ہیں۔
ملک کا نظم و نسق کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ 71سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ، ان سب خداداد نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم پوری دنیا میں بد ترین دہشت گردی، کرپشن کی عالمی ڈگریوں کا اعزاز حاصل کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں ہمارا شمار تیسرے نمبرکے شہری کے طور پر ہورہا ہے۔ بس اس وقت اسی خرابی کو پکڑنے کی اشد ضرورت ہے۔جس کا بِِیڑا عمران خان نے اٹھانے کا قوی عزم کیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی مدد و رہنمائی فرمائے اور وہ نہ صرف تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ کیا اچھا ہوکہ وہ تبدیلی انقلاب کی شکل اختیارکر لے۔
ہمارے اس کالم کا موضوع کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے وطن عزیزکے سب سے بڑے شہرکراچی سے قومی اسمبلی کی بارہ نشستیں حاصل کر لی ہیں اور خاص بات یہ کہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے ہیڈکوارٹرز 90 کے حلقے سے بھی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔اس حوالے سے یہی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے لوگوں نے الطاف بھائی کی جگہ عمی بھائی کا انتخاب کر لیا ہے اور یوں وہ علاقائی سوچ سے آزاد ہوکر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔
کراچی کے عوامی حلقوں کی یہ دلی خواہش تھی کہ عمران خان اپنی کراچی کی سیٹ کو برقرار رکھتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ''وزیراعظم کراچی سے ''کا نعرہ بے عملی کا شکار ہوا ایک مخصوص طبقے کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں تحریک انصاف کی کامیابی ایجینسوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ بہرحال تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے شہرکی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور منتخب نمائیندے خالد مقبول صدیقی کو اپنی بائیس رکنی کابینہ میں شامل کرلیا ہے جو ایک اچھی اور خوش آیند بات ہے۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد میں متعین اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے بنی گالا کا دورہ کیا اورکامیابی پر عمران خان کو مبارک باد پیش کی۔ اس ضمن میں ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ایک بیان میں عمران خان کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ''عمران خان کا انتخاب بہادر اور عزت مند پاکستانیوں کی امنگوں کی علامت ہے'' جہاں تک عمران کی ذاتی بصیر ت کے حوالے سے بات کی جائے تواس میں کسی بھی بات کا شائبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک سادہ طرز زندگی اپنانے کے عادی ہیں، قومی سوچ کے مالک ہیں۔
خان صاحب نے اپنی جملہ تقریر میں اپنی حکومت کا لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے عام آدمی کی معاشی حالت کو بہتر بنانا، قرضہ فری پاکستان کی تشکیل کا اعادہ، سیاحت کے فروغ، ٹیکس کے بگڑے ہوئے نظام کی براہ راست نگرانی، صحت کارڈ کا اجرا، نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی اورگلوبل وارمنگ کے تحت زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کاعزم، خارجہ پالیسی کے ضمن میں تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی پیشرفت کے سلسلے میں جلد اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کا قطعی اور بلامشروط فیصلہ کیا۔
عمران صاحب آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کا اندرونی اور بیرونی انتظام وانصرام میں الیکشن اور سلیکشن دو ایسے قوت بخش عوامل ہیں جو ایک دوسرے کے تعاون سے ہی پیش قدمی کرتے ہیں۔ یعنی اقتدارکی دو ٹانگیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ گویا کسی بھی سطح پر دونوں کے درمیان ہمہ وقت ہم آہنگی کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
الیکشن عوامی جمہوری عمل کا نام ہے۔ چونکہ ملک میں رہنے والے لوگوں کی بھی حکومت سازی میں آئینی اور دستوری حصے داری ہوتی ہے، اس لیے بذریعہ ووٹ مناسب اور اہل عوامی امیدواروں کا چنائو عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ اسمبلیوں میں جا کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے قانون سازی کرسکیں ۔ سیلیکشن سے مراد ''اسٹیبلشمنٹ '' ہے جو اپنی تعلیمی استعداد اور قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر حکومت کے کاموں میں حصے دار ہوتے ہیں۔ جن میں افواج پاکستان، بیوروکریسی (سول سروسزکے اعلیٰ افسران)، عدلیہ اور مختلف سراغ رساں خفیہ ادارے شامل ہیں۔
یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں جمہوری عمل کی جڑوں سے بہت زیادہ مضبوط ہوا کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ کم ازکم بیوروکریسی کو اعتماد میں لیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں ہمیں یقین ہے کہ ملک کی بیوروکریسی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی شاہی بیوروکریسی نہ صرف برٹش اسٹائل ہے بلکہ ایک سے زائد بیرونی ممالک کی شہریتوں(Multi national citizenship) کی حامل بھی ہے اور مالی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ ملک بجائے آگے جانے کے پیچھے کی طرف جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک کا دانشمند حلقہ بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاست چند ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے یہاں ہم ماضی کی روشنی میں اور تجربے کی بنیاد پر آپ کی خدمت اقدس میں چند معروضات پیش کرنے کی ادنیٰ سی جسارت کریں گے کہ آپ ایک مخلص، سچے، عوام سے محبت اور عوام کا درد رکھنے والی وہ واحد سربراہ ہیں جو تہہ دل سے کچھ کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں مگر آ پ کو سب سے زیادہ خطرہ Status Quo کے تحت ایسے با اثر اشرافیہ اور جاگیر داروں کے سازشی ٹولے سے ہوگا جو آپ کے ظاہری وفادار بن کر آپ کی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور عوام بھی بخوبی ایسے طبقے سے خوب اچھی طرح سے واقف ہے۔
یہ طبقہ ہر دور میں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے۔گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ طبقہ کسی نہ کسی زاویے سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بھی رہے ہیں ۔ جوکام بھی آپ عوامی فلاح اور عوام کی خوشحالی کے لیے انجام دیں گے، یہی طبقہ ان کاموں کی ادائیگی میں سب بڑی رکاوٹ بنے گا ۔ یہ طبقہ آپ کے ارد گرد ایسا گھیرائو رکھے گا تاکہ آپ کے قریبی مخلص ساتھیوں سے آپ کو دورکیا جا سکے۔ فخر ایشیا اور غریب عوام کے پسندیدہ رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو آپ کے سامنے زندہ مثال ہیں۔
شکر ہے اللہ تعالی کی پاک ذات کا جس نے ہمیں قدرتی وسائل اور بے بہا دولت سے نوازا ۔ مضبوط اور طاقتور جنگجو افواج ، قابل اعلیٰ افسران کی مضبوط ٹیم بیدار مغزدانشور، مفکرین اور سائنسدانوں کی دولت سے ملک مالا مال ہے۔ عدالتوں کا اعلیٰ نظام ہے۔ یہا ں آمریت یا فرد واحد (بادشاہت ) کا راج نہیں ۔ اقتدار میں عوام کی حصے داری ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے ہم پریشان ہیں، کیوں ؟
کبھی آپ نے سوچا۔ جی ہاں !کہیں ہمارے اندر ہی خرابی ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہدایات کے باوجود کفران نعمت کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہوں، جس کا ادراک ہم نہیں کر پا رہے۔ سچ کا بول بالا نہیں، ہم الہامی طاقت کی بجائے دنیاوی طاقت سے ڈرتے ہیں، ہمارا ایمان کمزور ہے۔ نچلی سطح پر عوام اخلاقی انحطاط کا بری طرح شکار ہیں۔ایک اسلامی معاشرے میں انسانوں کا اخلاق گرنا سوائے ہماری تباہی کے کچھ نہیں ۔ ہم یہ بھی سنا کرتے تھے کہ جیسے عوام ویسے لیڈر۔ یاد رکھیے ملک لیڈروں سے نہیں چلا کرتا، لیڈر تو صرف رہنمائی کرتے ہیں۔
ملک کا نظم و نسق کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ 71سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ، ان سب خداداد نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم پوری دنیا میں بد ترین دہشت گردی، کرپشن کی عالمی ڈگریوں کا اعزاز حاصل کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں ہمارا شمار تیسرے نمبرکے شہری کے طور پر ہورہا ہے۔ بس اس وقت اسی خرابی کو پکڑنے کی اشد ضرورت ہے۔جس کا بِِیڑا عمران خان نے اٹھانے کا قوی عزم کیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی مدد و رہنمائی فرمائے اور وہ نہ صرف تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ کیا اچھا ہوکہ وہ تبدیلی انقلاب کی شکل اختیارکر لے۔