پتلی تماشہ
ذرایع ابلاغ میں اپوزیشن کے نام سے اک تماشہ بپا ہے جسے اگر پتلی تماشہ کہا جائے توشاید غلط نہ ہوگا۔
الیکشن 2018ء کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور دیگر چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل جو متحدہ اپوزیشن وجود میں آئی تھی اور جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ عمران خان کی زیر قیادت بننے والی مخلوط حکومت کو''ٹف ٹائم'' دے گی،اس سے وابستہ تمام امیدیں ابھی سے دم توڑتی نظر آتی ہیں جب کہ نیا جمہوری دور شروع ہوئے،ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔
بقول شاعر ''حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے'' ذرایع ابلاغ میں اپوزیشن کے نام سے اک تماشہ بپا ہے جسے اگر پتلی تماشہ کہا جائے توشاید غلط نہ ہوگا کیونکہ کچھ بڑے اپوزیشن رہنما جوکردار اس تماشے میں ادا کررہے ہیں،اس سے صاف نظرآتا ہے کہ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں تو پہلے دن سے ہی پڑتی دکھائی دینے لگی تھیں جب اس کے رہنماؤں کے متضاد بیانات آنا شروع ہوئے،لیکن جب وزیراعظم کے انتخاب کے موقعے پر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تو کوئی شک وشبہ باقی نہ رہا کہ یہ لوگ ساتھ نہیں چل سکتے۔
زمینی صورتحال میں آتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والوں کا ماتھا تواسی وقت ٹھنکا تھا جب انتخابی نتائج سامنے آنے کے فوراً بعد جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیسزکے حوالے سے غیر معمولی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔سابق صدر مملکت آصف زرداری کے قریبی دوستوں میں سے پہلے بینکار حسین لوائی اور پھر انور مجید اور ان کے بیٹے کی گرفتاری سے واضح ہوگیا کہ پیپلزپارٹی کے ڈیفیکٹو سربراہ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ زرداری اور ان کی بہن فریال تالپورکو پہلے نیب اور ایف آئی اے میں پیش ہونے کے نوٹس جاری ہوئے اور پھر بینکنگ کورٹ نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ۔
غالباً یہی وہ مرحلہ تھا جب پیپلزپارٹی نے اعلان کیا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہیں دے گی۔ یہ اس کی طرف سے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی جس میں میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق طے ہوا تھا کہ اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی امیدوار نامزدکرے گی ۔اب پیپلزپارٹی کے پاس منحرف ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اسی لیے اس کے اس فیصلے کوگرفتاری سے بچنے اورجان چھڑانے کی کوشش سے تعبیرکیا گیا۔
رہیں یہ باتیں کہ امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سمیت اتحاد میں شامل دوسری پارٹیوں سے مشاورت نہیںکی یا شہباز شریف نے آصف زرداری کو سڑکوں پرگھسٹوانے کی بات کی تھی،اس لیے وہ پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہیں تھے، تو یہ سب بے سروپا باتیں ہیں اورکوئی وزن نہیں رکھتیں۔ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر شہباز شریف کی ماری ہوئی بڑھکیں اتنی ہی اہمیت کی حامل تھیں تو وہ اتحاد میں شامل ہی کیوں ہوئے تھے، یہ جانتے ہوئے کہ اکثریتی پارٹی ہونے کی حیثیت سے فیصلوں میں مسلم لیگ (ن) کی رائے کو ہی فوقیت حاصل ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے اچانک لیے ہوئے اس یوٹرن کا نتیجہ اتحاد کے عملاً پارہ پارہ ہونے کی صورت میں نکلا کیونکہ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتی تب بھی مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے شہباز شریف کے قائد ایوان منتخب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہاں،اتحاد میں کشش برقرار رہتی اور وہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے قابل رہتا۔اب مسلم لیگ (ن) یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ اس کے امیدوارکو پیپلز پارٹی کے ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے شکست ہوئی۔
پیپلزپارٹی نے صرف قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ہاتھ نہیں دکھایا بلکہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے چناؤکے موقعے پر ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر اپنی اتحادی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو شکست سے دو چارکرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا جہاں پی ٹی آئی کے نامزدکردہ امیدوار عثمان بزدار صرف 27 ووٹ زیادہ لے کر حمزہ شہباز سے جیتے ہیں ۔ مبصرین کہتے ہیں اگر پیپلز پارٹی بیوفائی نہ کرتی تو پانسہ پلٹتا دیکھ کر شایدکچھ اور ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کو مل جاتے اورکم ازکم پنجاب اس کے ہاتھ سے نہ نکلتا، لیکن اونٹ کو اس کروٹ بیٹھتے دیکھنا پی پی پی کو منظور نہ تھا اور اس نے وہی کیا ،جو اسے اسکرپٹ میں لکھا ہوا ملا تھا۔
بہت ضبط کرنے اور برداشت سے کام لینے کے باوجود لیگی اتحادی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ زرداری صاحب کی مجبوری سمجھتے ہیں اور انھیں کوئی گلہ نہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کے اس پتلی تماشے میں ایک اور یو ٹرن لیا اور اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں سے اسپیکرکے پاس ڈیمانڈ نوٹ جمع کرایا کہ شہباز شریف کو ایوان میں قائد حزب اختلاف (اپوزیشن لیڈر) مقررکیا جائے۔ ان کا مطالبہ مانتے ہوئے اسپیکر نے ایسا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔
ایم این اے اورپی پی پی کی سیکریٹری انفارمیشن، نفیسہ شاہ نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے دلیل دی کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے قائد حزب اختلاف کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کا حق تھا، اس لیے ان کی پارٹی نے اس کی حمایت کی۔ ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ قائد ایوان کے انتخاب کے وقت انھیں ن لیگ کا یہ استحقاق کیوں یاد نہ رہا اور اب شہباز شریف پی پی پی کے لیے کیسے قابل قبول ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اپنے لیے ہوئے اس یو ٹرن کی داد ہی نہیں چاہتی سودے بازی بھی کرنا چاہتی ہے۔ اسے مسلم لیگ (ن) کی جس بات پر اعتراض تھا کہ اس نے شہبازشریف کو قائد ایوان کے منصب کے لیے امیدوار نامزد کرتے وقت دوسری اتحادی پارٹیوں کو اعتماد میں نہیں لیا تھا، اب اسی کا اعادہ کرتے ہوئے اس نے خود صدر مملکت کے انتخاب کے لیے، جو 4 ستمبر کو ہونے جا رہا ہے، بیرسٹر اعتزاز احسن کواپوزیشن کا امیدوار نامزد کردیا ہے ۔ یہی نہیں وہ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بھی اس کے نامزد کردہ امیدوارکی حمایت کرے ۔ حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد میں شامل دوسری پارٹیوں سے رابطے بھی شروع کردیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتزاز احسن سربراہ مملکت کے اعلیٰ ترین منصب کے لیے عارف علوی سے کہیں زیادہ موزوں اور بہتر امیدوار ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سینئر پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ آئینی اور قانونی امور سلجھانے کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ڈاکٹر علوی سیاست کے میدان خار زار میں اتارے ہوئے نئے کھلاڑی ہیں اورکسی بھی طرح اپنے مد مقابل کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتے لیکن یہاں معاملہ موازنے کا نہیں طریقہ کار پر اختلاف کا ہے ۔مسلم لیگ (ن) یہ اعتراض کرنے میں (اگرکرتی ہے تو) بالکل حق بجانب ہوگی کہ جو بات پہلے غلط تھی وہ اب کیسے صحیح ہوگئی۔
اگر پی پی پی سمیت دوسری اتحادی پارٹیوں سے مشاورت کیے اور انھیں اعتماد میں لیے بغیر مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ اتنا غلط تھا کہ پی پی پی نے انھیں ووٹ نہ دینے کا اعلان کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی، تو اب وہ خود کس منہ سے اعتزاز احسن کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حمایت مانگتی ہے ۔وہ اپوزیشن کا اتحاد قائم رکھنے کے وسیع تر مفاد میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو معاف کردے تو اور بات ہے ورنہ موزوں ترین امیدوار ہونے کے باوجودکوئی طاقت اعتزازکو شکست سے نہیں بچا سکتی۔
بقول شاعر ''حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے'' ذرایع ابلاغ میں اپوزیشن کے نام سے اک تماشہ بپا ہے جسے اگر پتلی تماشہ کہا جائے توشاید غلط نہ ہوگا کیونکہ کچھ بڑے اپوزیشن رہنما جوکردار اس تماشے میں ادا کررہے ہیں،اس سے صاف نظرآتا ہے کہ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں تو پہلے دن سے ہی پڑتی دکھائی دینے لگی تھیں جب اس کے رہنماؤں کے متضاد بیانات آنا شروع ہوئے،لیکن جب وزیراعظم کے انتخاب کے موقعے پر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تو کوئی شک وشبہ باقی نہ رہا کہ یہ لوگ ساتھ نہیں چل سکتے۔
زمینی صورتحال میں آتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والوں کا ماتھا تواسی وقت ٹھنکا تھا جب انتخابی نتائج سامنے آنے کے فوراً بعد جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیسزکے حوالے سے غیر معمولی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔سابق صدر مملکت آصف زرداری کے قریبی دوستوں میں سے پہلے بینکار حسین لوائی اور پھر انور مجید اور ان کے بیٹے کی گرفتاری سے واضح ہوگیا کہ پیپلزپارٹی کے ڈیفیکٹو سربراہ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ زرداری اور ان کی بہن فریال تالپورکو پہلے نیب اور ایف آئی اے میں پیش ہونے کے نوٹس جاری ہوئے اور پھر بینکنگ کورٹ نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ۔
غالباً یہی وہ مرحلہ تھا جب پیپلزپارٹی نے اعلان کیا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہیں دے گی۔ یہ اس کی طرف سے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی جس میں میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق طے ہوا تھا کہ اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی امیدوار نامزدکرے گی ۔اب پیپلزپارٹی کے پاس منحرف ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اسی لیے اس کے اس فیصلے کوگرفتاری سے بچنے اورجان چھڑانے کی کوشش سے تعبیرکیا گیا۔
رہیں یہ باتیں کہ امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سمیت اتحاد میں شامل دوسری پارٹیوں سے مشاورت نہیںکی یا شہباز شریف نے آصف زرداری کو سڑکوں پرگھسٹوانے کی بات کی تھی،اس لیے وہ پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہیں تھے، تو یہ سب بے سروپا باتیں ہیں اورکوئی وزن نہیں رکھتیں۔ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر شہباز شریف کی ماری ہوئی بڑھکیں اتنی ہی اہمیت کی حامل تھیں تو وہ اتحاد میں شامل ہی کیوں ہوئے تھے، یہ جانتے ہوئے کہ اکثریتی پارٹی ہونے کی حیثیت سے فیصلوں میں مسلم لیگ (ن) کی رائے کو ہی فوقیت حاصل ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے اچانک لیے ہوئے اس یوٹرن کا نتیجہ اتحاد کے عملاً پارہ پارہ ہونے کی صورت میں نکلا کیونکہ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتی تب بھی مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے شہباز شریف کے قائد ایوان منتخب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہاں،اتحاد میں کشش برقرار رہتی اور وہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے قابل رہتا۔اب مسلم لیگ (ن) یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ اس کے امیدوارکو پیپلز پارٹی کے ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے شکست ہوئی۔
پیپلزپارٹی نے صرف قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ہاتھ نہیں دکھایا بلکہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے چناؤکے موقعے پر ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر اپنی اتحادی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو شکست سے دو چارکرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا جہاں پی ٹی آئی کے نامزدکردہ امیدوار عثمان بزدار صرف 27 ووٹ زیادہ لے کر حمزہ شہباز سے جیتے ہیں ۔ مبصرین کہتے ہیں اگر پیپلز پارٹی بیوفائی نہ کرتی تو پانسہ پلٹتا دیکھ کر شایدکچھ اور ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کو مل جاتے اورکم ازکم پنجاب اس کے ہاتھ سے نہ نکلتا، لیکن اونٹ کو اس کروٹ بیٹھتے دیکھنا پی پی پی کو منظور نہ تھا اور اس نے وہی کیا ،جو اسے اسکرپٹ میں لکھا ہوا ملا تھا۔
بہت ضبط کرنے اور برداشت سے کام لینے کے باوجود لیگی اتحادی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ زرداری صاحب کی مجبوری سمجھتے ہیں اور انھیں کوئی گلہ نہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کے اس پتلی تماشے میں ایک اور یو ٹرن لیا اور اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں سے اسپیکرکے پاس ڈیمانڈ نوٹ جمع کرایا کہ شہباز شریف کو ایوان میں قائد حزب اختلاف (اپوزیشن لیڈر) مقررکیا جائے۔ ان کا مطالبہ مانتے ہوئے اسپیکر نے ایسا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔
ایم این اے اورپی پی پی کی سیکریٹری انفارمیشن، نفیسہ شاہ نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے دلیل دی کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے قائد حزب اختلاف کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کا حق تھا، اس لیے ان کی پارٹی نے اس کی حمایت کی۔ ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ قائد ایوان کے انتخاب کے وقت انھیں ن لیگ کا یہ استحقاق کیوں یاد نہ رہا اور اب شہباز شریف پی پی پی کے لیے کیسے قابل قبول ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اپنے لیے ہوئے اس یو ٹرن کی داد ہی نہیں چاہتی سودے بازی بھی کرنا چاہتی ہے۔ اسے مسلم لیگ (ن) کی جس بات پر اعتراض تھا کہ اس نے شہبازشریف کو قائد ایوان کے منصب کے لیے امیدوار نامزد کرتے وقت دوسری اتحادی پارٹیوں کو اعتماد میں نہیں لیا تھا، اب اسی کا اعادہ کرتے ہوئے اس نے خود صدر مملکت کے انتخاب کے لیے، جو 4 ستمبر کو ہونے جا رہا ہے، بیرسٹر اعتزاز احسن کواپوزیشن کا امیدوار نامزد کردیا ہے ۔ یہی نہیں وہ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بھی اس کے نامزد کردہ امیدوارکی حمایت کرے ۔ حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد میں شامل دوسری پارٹیوں سے رابطے بھی شروع کردیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتزاز احسن سربراہ مملکت کے اعلیٰ ترین منصب کے لیے عارف علوی سے کہیں زیادہ موزوں اور بہتر امیدوار ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سینئر پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ آئینی اور قانونی امور سلجھانے کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ڈاکٹر علوی سیاست کے میدان خار زار میں اتارے ہوئے نئے کھلاڑی ہیں اورکسی بھی طرح اپنے مد مقابل کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتے لیکن یہاں معاملہ موازنے کا نہیں طریقہ کار پر اختلاف کا ہے ۔مسلم لیگ (ن) یہ اعتراض کرنے میں (اگرکرتی ہے تو) بالکل حق بجانب ہوگی کہ جو بات پہلے غلط تھی وہ اب کیسے صحیح ہوگئی۔
اگر پی پی پی سمیت دوسری اتحادی پارٹیوں سے مشاورت کیے اور انھیں اعتماد میں لیے بغیر مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ اتنا غلط تھا کہ پی پی پی نے انھیں ووٹ نہ دینے کا اعلان کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی، تو اب وہ خود کس منہ سے اعتزاز احسن کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حمایت مانگتی ہے ۔وہ اپوزیشن کا اتحاد قائم رکھنے کے وسیع تر مفاد میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو معاف کردے تو اور بات ہے ورنہ موزوں ترین امیدوار ہونے کے باوجودکوئی طاقت اعتزازکو شکست سے نہیں بچا سکتی۔