بدکردار سوچوں کے نرغے
اچھی حکومت اچھی، باکردار، دیانت دارسوچ کے بغیر ناممکن ہے۔
چرچل نے کہا تھا ''جب میں پیچھے مڑکر ان تمام تفکرات کی جانب دیکھتا ہوں ، مجھے اس بوڑھے شخص کی کہانی یاد آتی ہے جس نے اپنے بستر مرگ پرکہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں بے تحاشہ تکالیف کا حامل تھا جن میں اکثرکبھی رونما نہ ہوئی تھیں۔ ''
ایک اوسط درجے کا حامل انسان دن بھرکے دوران 500,000 سوچوں کاحامل ہوتا ہے جن میں کچھ سوچیں مثبت ہوتی ہیں تاہم ان میں سے بہت سی سوچیں منفی ہوتی ہیں۔ مثبت سوچیں ایسے ہارمونز خارج کرتی ہیں جو ہماری فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے کام کرتی ہیں اور منفی سوچیں ایسے ہارمونزخارج کرتی ہیں جو ہمیں علیل کرتے ہیں۔
ہم صرف وہ ہی کچھ ہیں جو ہم سوچتے ہیں اور اس کے علا وہ اورکچھ نہیں ہیں ہماری دنیا اور زندگی صرف ہماری سوچ تک محدود ہے ہم اپنی سوچ کے مطابق ہی دیکھ سکتے ہیں، اس کے آگے اورکچھ دکھائی ناممکن ہے، سوچیں ہمارا ریموٹ کنٹرول ہوتی ہیں اور ہم ریموٹ کنٹرول کے آگے مکمل بے بس ہوتے ہیں اگرکوئی یہ سمجھا بیٹھا ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کا مالک ہے تو وہ اول درجے کا بے وقوف ہے ہم سب اپنے آپ کے کرائے دار ہوتے ہیں ۔ ہمارا مالک ہماری سوچیں ہوتی ہیں۔
یاد رکھیں کرائے دارکبھی مالک کو اپنا دشمن نہیں بناتا ہے کیونکہ اگر وہ آپ کا دشمن بن گیا تو آپ کی بے دخلی یقینی ہوجاتی ہے۔ مالک کو ہمیشہ دوست بناکے رکھیں اسے اپنا خیرخواہ بنائیں۔ ورنہ آپ بھی ہمارے اہم ترین کرداروں کی طرح کہیں بیٹھے اور لیٹے اپنے آپ کوکوس رہے ہونگے بدکردار اور بدکار سوچیں انسان کو شیطان سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ شیطان سے تو بچا جاسکتا ہے، اس کے نرغے سے نکلا جاسکتا ہے اس کا وار خالی جاسکتا ہے ، اس کا بہکاوا ناکامی سے دوچار ہوسکتا ہے، لیکن بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے سے نکلنا ناممکن ہے، ان کا وارکبھی خالی نہیں جاتا ہے۔
ان کا بہکاوا کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتا ہے آ پ اورکچھ نہ کریں صرف ملک کی مختلف جیلوں کا مطالعاتی دورے کرکے دیکھ لیں اور ان میں قیام پذیر تمام مجرموں بشمول سیاسی مجرموں کے سب سے صرف ایک سوال پوچھ لیں کہ آپ کو اس حال پر پہنچانے والا اصل مجرم کون ہے یقین جانیے وہ سب کے سب اپنی بدکردار اور بدکار سوچوں کو برا بھلا، لعنت ملامت اورگالیاں دیتے ہوئے پائے جائیں گے اور وہ بھی اس قدر بلند آواز میں کہ جیل میں موجود تمام قیدی ڈر اور خوف سے کانپ کانپ اٹھیں گے۔
انسان کی ہر پشمانی، ہر تکلیف ، ہراذیت ، ہر ذلالت کے پیچھے سوچیں ہی کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہیں۔ سکندر اعظم ، ہٹلر ، مسیولینی، شاہ فرانس، شاہ ایران اور دیگر کو ان کی سوچوں ہی نے تمام عمر اذیت میں رکھا تڑپائے تڑپائے رکھا ۔آج ہمارے ملک میں موجود ہر غلاظت ، ذلالت ،کرپشن، لوٹ مار،کمیشن خوری کی موجودگی کی ساری کی ساری ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ہی انسان کو غلط کاموں پر اکساتی ہے ورغلاتی ہیں للچاتی ہیں ۔ یاد رکھیں شیطان کی حدیں ہیں لیکن ان کی کوئی حدیں نہیں ہیں اورانھیں لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔
شیطان کے پاس انسان کو دبوچنے کے مخصوص انداز ہیں لیکن ان کے پاس انسان کو دبوچنے کے ہرانداز موجود ہیں ، ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان بدکردار اور بدکار سوچوں نے عام لوگوں کوکم اورہمارے حکمرانوں کو زیادہ دبوچا اور اپنے نرغے میں لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعدادوشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیاگیا۔
اس تجزیے جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار د ے سکتے ہیں کے مطابق عوام کی خوشی وخوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم ، اچھی آمدن اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود بھی معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔
ہماری خوشی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے ہمارا کردارکیا ہے ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اورہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے ، لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے وہ آب وہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر، اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے اور حکومت کے معیارکا سارا دارومدار سوچ پر ہوتا ہے ۔
اچھی حکومت اچھی، باکردار، دیانت دارسوچ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ سوچیں صرف بدکرداراور بدکارہی نہیں ہوتیں بلکہ با کردار اور پاکیزہ بھی ہوتی ہیں اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے میں آجاتے ہیں یا پھر باکردار اور پاکیزہ سوچوں کو اپنے لیے چن لیتے ہیں ،آئیں مل کر انتظار کرتے ہیں ۔
ایک اوسط درجے کا حامل انسان دن بھرکے دوران 500,000 سوچوں کاحامل ہوتا ہے جن میں کچھ سوچیں مثبت ہوتی ہیں تاہم ان میں سے بہت سی سوچیں منفی ہوتی ہیں۔ مثبت سوچیں ایسے ہارمونز خارج کرتی ہیں جو ہماری فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے کام کرتی ہیں اور منفی سوچیں ایسے ہارمونزخارج کرتی ہیں جو ہمیں علیل کرتے ہیں۔
ہم صرف وہ ہی کچھ ہیں جو ہم سوچتے ہیں اور اس کے علا وہ اورکچھ نہیں ہیں ہماری دنیا اور زندگی صرف ہماری سوچ تک محدود ہے ہم اپنی سوچ کے مطابق ہی دیکھ سکتے ہیں، اس کے آگے اورکچھ دکھائی ناممکن ہے، سوچیں ہمارا ریموٹ کنٹرول ہوتی ہیں اور ہم ریموٹ کنٹرول کے آگے مکمل بے بس ہوتے ہیں اگرکوئی یہ سمجھا بیٹھا ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کا مالک ہے تو وہ اول درجے کا بے وقوف ہے ہم سب اپنے آپ کے کرائے دار ہوتے ہیں ۔ ہمارا مالک ہماری سوچیں ہوتی ہیں۔
یاد رکھیں کرائے دارکبھی مالک کو اپنا دشمن نہیں بناتا ہے کیونکہ اگر وہ آپ کا دشمن بن گیا تو آپ کی بے دخلی یقینی ہوجاتی ہے۔ مالک کو ہمیشہ دوست بناکے رکھیں اسے اپنا خیرخواہ بنائیں۔ ورنہ آپ بھی ہمارے اہم ترین کرداروں کی طرح کہیں بیٹھے اور لیٹے اپنے آپ کوکوس رہے ہونگے بدکردار اور بدکار سوچیں انسان کو شیطان سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ شیطان سے تو بچا جاسکتا ہے، اس کے نرغے سے نکلا جاسکتا ہے اس کا وار خالی جاسکتا ہے ، اس کا بہکاوا ناکامی سے دوچار ہوسکتا ہے، لیکن بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے سے نکلنا ناممکن ہے، ان کا وارکبھی خالی نہیں جاتا ہے۔
ان کا بہکاوا کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتا ہے آ پ اورکچھ نہ کریں صرف ملک کی مختلف جیلوں کا مطالعاتی دورے کرکے دیکھ لیں اور ان میں قیام پذیر تمام مجرموں بشمول سیاسی مجرموں کے سب سے صرف ایک سوال پوچھ لیں کہ آپ کو اس حال پر پہنچانے والا اصل مجرم کون ہے یقین جانیے وہ سب کے سب اپنی بدکردار اور بدکار سوچوں کو برا بھلا، لعنت ملامت اورگالیاں دیتے ہوئے پائے جائیں گے اور وہ بھی اس قدر بلند آواز میں کہ جیل میں موجود تمام قیدی ڈر اور خوف سے کانپ کانپ اٹھیں گے۔
انسان کی ہر پشمانی، ہر تکلیف ، ہراذیت ، ہر ذلالت کے پیچھے سوچیں ہی کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہیں۔ سکندر اعظم ، ہٹلر ، مسیولینی، شاہ فرانس، شاہ ایران اور دیگر کو ان کی سوچوں ہی نے تمام عمر اذیت میں رکھا تڑپائے تڑپائے رکھا ۔آج ہمارے ملک میں موجود ہر غلاظت ، ذلالت ،کرپشن، لوٹ مار،کمیشن خوری کی موجودگی کی ساری کی ساری ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ہی انسان کو غلط کاموں پر اکساتی ہے ورغلاتی ہیں للچاتی ہیں ۔ یاد رکھیں شیطان کی حدیں ہیں لیکن ان کی کوئی حدیں نہیں ہیں اورانھیں لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔
شیطان کے پاس انسان کو دبوچنے کے مخصوص انداز ہیں لیکن ان کے پاس انسان کو دبوچنے کے ہرانداز موجود ہیں ، ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان بدکردار اور بدکار سوچوں نے عام لوگوں کوکم اورہمارے حکمرانوں کو زیادہ دبوچا اور اپنے نرغے میں لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعدادوشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیاگیا۔
اس تجزیے جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار د ے سکتے ہیں کے مطابق عوام کی خوشی وخوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم ، اچھی آمدن اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود بھی معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔
ہماری خوشی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے ہمارا کردارکیا ہے ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اورہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے ، لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے وہ آب وہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر، اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے اور حکومت کے معیارکا سارا دارومدار سوچ پر ہوتا ہے ۔
اچھی حکومت اچھی، باکردار، دیانت دارسوچ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ سوچیں صرف بدکرداراور بدکارہی نہیں ہوتیں بلکہ با کردار اور پاکیزہ بھی ہوتی ہیں اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے میں آجاتے ہیں یا پھر باکردار اور پاکیزہ سوچوں کو اپنے لیے چن لیتے ہیں ،آئیں مل کر انتظار کرتے ہیں ۔