گستاخانہ خاکے اور ہم
گستاخی کرنے والوں کو تنبیہہ تو ایک طرف الٹا خوش ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔
مغرب کے ایک مخصوص طبقے کا رویہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیوں ہے؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آج کل زیادہ شدت سے اس لیے لکھا جا رہا ہے کہ حال ہی میں ہالینڈ کی حزب مخالف کے ایک متعصب لیڈر نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے رسول پاک ﷺ کے بارے میں گستاخانہ خاکوں کے ایک مقابلے کا نہ صرف اہتمام کیا ہے بلکہ اسلامی دنیا کے شدید ردعمل کے باوجود اپنے اس مذموم ارادے پر ڈٹا ہوا ہے ۔
مزید تفتیش پر معلوم ہوا کہ وہ یہ اسلام دشمنی کی مہم بہت دنوں سے چلا رہا ہے اور گزشتہ انتخابات میں بھی اس کا سارا زور ہالینڈ میں مقیم مسلمانوں کو (جو کل آبادی کا تقریباً 5 فیصد ہیں) وہاں سے نکالنا یا ان کے لیے بطور مسلمان زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر بنانا تھا۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے اور اسلام کی مقبولیت کی لہر نے یورپ کے مذہبی شدت پسندوں اور لامذہب لوگوں کو ایک صف میں جمع کر دیا ہے اس دو دھاری تلوار کے مضروبین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے وہاں کا میڈیا بھی انسانی حقوق اور آزادی رائے کے نام پر نہ صرف اپنا کام دکھا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد اور مذہبی جنونیوں کے طور پر بدنام کرنے میں پیش پیش ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یعنی مسلمان دنیا ان مسلسل حملوں کے جواب میں کیا کر رہی ہے؟ چند برس قبل جب ڈنمارک میں اسی طرح کی ایک حرکت کی گئی تھی تو پاکستان کی حد تک اس کا جواب اور رد عمل ایک مخصوص نوع کی جذباتی نعرے بازی تک محدود رہا۔ احتجاجی مظاہروں کی آڑ میں کچھ غیر ملکی ایجنٹوں اور پیشہ ور تخریب کاروں نے لوٹ مار کا ایک ایسا بازار گرم کیا کہ رسول پاک ؐ کی حرمت پر جان دینے والے کروڑوں لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
اطلاعات کے مطابق یہ مٹھی بھر شرپسند غم و غصے میں ڈوبے ہوئے احتجاجی جلسوں کے کسی جگہ پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بینکوں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار شروع کر دیتے جس کی زد میں مشتعل ہجوم کا کچھ حصہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا اور یوں ایک بہت نازک اور جذباتی مسئلہ ایک ایسی ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا تھا کہ گستاخی کرنے والوں کو تنبیہہ تو ایک طرف الٹا خوش ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔
مال روڈ لاہور کی پرانی پریس کلب کے ہمسائے میں واقع لاہور کے ایک مشہور اور تاریخی ریستوران کی تباہی اور آتشزدگی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کے بعد سے اب تک وہ ریستوران بھی بغیر کسی ''جرم'' کے بند پڑا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت کی حکومت نے حب رسول ﷺ کے اظہار میں اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے اس ساری صورتحال کی طرف سے آنکھیں ہی بند کر لی تھیں۔
موجودہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بہت بروقت اور انتہائی ذمے داری کے ساتھ نہ صرف اس پورے معاملے میں عوامی جذبات کا ساتھ دیا ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا کو ساتھ لے کر نبی پاکﷺ کی حرمت کی حفاظت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو ہر اسٹیج پر اٹھانے اور سرکاری سطح پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان مخصوص شرپسندوں کے اس متصبانہ اور قابل نفرت رویے کو خود مغرب کے اہل دل اور اہل نظر کی اکثریت کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ ملک کے اندر مظاہرے کرنے والے بھی اس بار ان پیشہ ور ایجنٹوں کو اپنی صفوں میں گھس کر یا اپنے نام پر اس توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دیں گے جس میں گھوم پھر کر سارا نقصان خود ہمارا ہی ہوتا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ پچاس سے زیادہ ممالک اور تقریباً ڈیڑھ ارب افراد پر مشتمل مسلمان امت اپنی تعداد' تشخص اور ناموس رسالت کے نام پر یک دل اور یک جان ہو کر آگے بڑھے اور ہر ممکن اور متعلقہ پلیٹ فارم پر دنیا کو یہ سبق اور پیغام دے کہ ہم ایک امن پسند قوم ضرور ہیں مگر وہ نام نہاد آزادی رائے ہمیں قبول نہیں جس میں مسلمانوں کے عقائد اور مذہبی جذبات کے حوالے سے ان کے بڑوں کی توہین کی جائے اور یہ کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر ہمیں بھی اپنی آزادی فکر و عمل سے کام لینے کا اتنا ہی حق ہو گا۔
مجھے یقین ہے کہ اس سے نہ صرف وہ لوگ خود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے بلکہ ان کی اکثریت ہمارے ساتھ مل کر اس کار خیر میں ہماری ہم آواز اور ہم قدم ہو گی اور مجھے اپنی اس نظم کو دوبارہ سے لکھنا پڑے گا جو امت مسلمہ کے انتشار اور بے جہتی کے حوالے سے 45 برس قبل لکھی گئی تھی اور جس کا محور اور محرک علامہ صاحب کا یہ مصرعہ تھا کہ ''ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات''
گمشدہ عکس
کون ہیں یہ جو مٹھیاں اپنی کھوٹے سکوں سے بھر کے لائے ہیں
آنکھ کے بے وقار دامن میں' کون ہیں یہ جو لے کے آئے ہیں
بے ثمر خواب، بے ہنر آنسو' اک ارب لوگ ہیں کہ سائے ہیں
اتنے پتھر اگر ہم ہو جائیں
رفعت کوہ' آسمان لگے
اتنے ذرے اگر ہوں جمع کہیں
وسعت دشت' بے نشان لگے
اتنے تارے اگر چمکتے ہوں
ظرف خورشید اک چراغ لگے
اتنے غنچے اگر مہکتے ہوں
موسم زرد بے سراغ لگے!
کون ہیں یہ جو رات دن اپنی؟
گمشدہ بستیوں کے ملبے سے ' بے عمل خواہش اٹھاتے ہیں!
کون ہیں یہ جو چیونٹیوں کی طرح' ٹوٹی قبروں میں گھر بناتے ہیں!
کون ہیں یہ جو میرے چار طرف' چلتے پھرتے ہیں' آتے جاتے ہیں!
میں نے دیکھا تو جتنے چہرے تھے
ہو بہو نین نقش میرے تھے
مزید تفتیش پر معلوم ہوا کہ وہ یہ اسلام دشمنی کی مہم بہت دنوں سے چلا رہا ہے اور گزشتہ انتخابات میں بھی اس کا سارا زور ہالینڈ میں مقیم مسلمانوں کو (جو کل آبادی کا تقریباً 5 فیصد ہیں) وہاں سے نکالنا یا ان کے لیے بطور مسلمان زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر بنانا تھا۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے اور اسلام کی مقبولیت کی لہر نے یورپ کے مذہبی شدت پسندوں اور لامذہب لوگوں کو ایک صف میں جمع کر دیا ہے اس دو دھاری تلوار کے مضروبین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے وہاں کا میڈیا بھی انسانی حقوق اور آزادی رائے کے نام پر نہ صرف اپنا کام دکھا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد اور مذہبی جنونیوں کے طور پر بدنام کرنے میں پیش پیش ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یعنی مسلمان دنیا ان مسلسل حملوں کے جواب میں کیا کر رہی ہے؟ چند برس قبل جب ڈنمارک میں اسی طرح کی ایک حرکت کی گئی تھی تو پاکستان کی حد تک اس کا جواب اور رد عمل ایک مخصوص نوع کی جذباتی نعرے بازی تک محدود رہا۔ احتجاجی مظاہروں کی آڑ میں کچھ غیر ملکی ایجنٹوں اور پیشہ ور تخریب کاروں نے لوٹ مار کا ایک ایسا بازار گرم کیا کہ رسول پاک ؐ کی حرمت پر جان دینے والے کروڑوں لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
اطلاعات کے مطابق یہ مٹھی بھر شرپسند غم و غصے میں ڈوبے ہوئے احتجاجی جلسوں کے کسی جگہ پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بینکوں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار شروع کر دیتے جس کی زد میں مشتعل ہجوم کا کچھ حصہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا اور یوں ایک بہت نازک اور جذباتی مسئلہ ایک ایسی ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا تھا کہ گستاخی کرنے والوں کو تنبیہہ تو ایک طرف الٹا خوش ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔
مال روڈ لاہور کی پرانی پریس کلب کے ہمسائے میں واقع لاہور کے ایک مشہور اور تاریخی ریستوران کی تباہی اور آتشزدگی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کے بعد سے اب تک وہ ریستوران بھی بغیر کسی ''جرم'' کے بند پڑا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت کی حکومت نے حب رسول ﷺ کے اظہار میں اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے اس ساری صورتحال کی طرف سے آنکھیں ہی بند کر لی تھیں۔
موجودہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بہت بروقت اور انتہائی ذمے داری کے ساتھ نہ صرف اس پورے معاملے میں عوامی جذبات کا ساتھ دیا ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا کو ساتھ لے کر نبی پاکﷺ کی حرمت کی حفاظت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو ہر اسٹیج پر اٹھانے اور سرکاری سطح پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان مخصوص شرپسندوں کے اس متصبانہ اور قابل نفرت رویے کو خود مغرب کے اہل دل اور اہل نظر کی اکثریت کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ ملک کے اندر مظاہرے کرنے والے بھی اس بار ان پیشہ ور ایجنٹوں کو اپنی صفوں میں گھس کر یا اپنے نام پر اس توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دیں گے جس میں گھوم پھر کر سارا نقصان خود ہمارا ہی ہوتا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ پچاس سے زیادہ ممالک اور تقریباً ڈیڑھ ارب افراد پر مشتمل مسلمان امت اپنی تعداد' تشخص اور ناموس رسالت کے نام پر یک دل اور یک جان ہو کر آگے بڑھے اور ہر ممکن اور متعلقہ پلیٹ فارم پر دنیا کو یہ سبق اور پیغام دے کہ ہم ایک امن پسند قوم ضرور ہیں مگر وہ نام نہاد آزادی رائے ہمیں قبول نہیں جس میں مسلمانوں کے عقائد اور مذہبی جذبات کے حوالے سے ان کے بڑوں کی توہین کی جائے اور یہ کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر ہمیں بھی اپنی آزادی فکر و عمل سے کام لینے کا اتنا ہی حق ہو گا۔
مجھے یقین ہے کہ اس سے نہ صرف وہ لوگ خود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے بلکہ ان کی اکثریت ہمارے ساتھ مل کر اس کار خیر میں ہماری ہم آواز اور ہم قدم ہو گی اور مجھے اپنی اس نظم کو دوبارہ سے لکھنا پڑے گا جو امت مسلمہ کے انتشار اور بے جہتی کے حوالے سے 45 برس قبل لکھی گئی تھی اور جس کا محور اور محرک علامہ صاحب کا یہ مصرعہ تھا کہ ''ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات''
گمشدہ عکس
کون ہیں یہ جو مٹھیاں اپنی کھوٹے سکوں سے بھر کے لائے ہیں
آنکھ کے بے وقار دامن میں' کون ہیں یہ جو لے کے آئے ہیں
بے ثمر خواب، بے ہنر آنسو' اک ارب لوگ ہیں کہ سائے ہیں
اتنے پتھر اگر ہم ہو جائیں
رفعت کوہ' آسمان لگے
اتنے ذرے اگر ہوں جمع کہیں
وسعت دشت' بے نشان لگے
اتنے تارے اگر چمکتے ہوں
ظرف خورشید اک چراغ لگے
اتنے غنچے اگر مہکتے ہوں
موسم زرد بے سراغ لگے!
کون ہیں یہ جو رات دن اپنی؟
گمشدہ بستیوں کے ملبے سے ' بے عمل خواہش اٹھاتے ہیں!
کون ہیں یہ جو چیونٹیوں کی طرح' ٹوٹی قبروں میں گھر بناتے ہیں!
کون ہیں یہ جو میرے چار طرف' چلتے پھرتے ہیں' آتے جاتے ہیں!
میں نے دیکھا تو جتنے چہرے تھے
ہو بہو نین نقش میرے تھے