گرین لائن منصوبہ تاخیر کا شکار

اس منصوبے پر جاری کام کے دوران حفاظتی اقدامات ناکافی ہونے کے باعث چوری کی وارداتیں کثرت سے ہونے لگیں۔

شہرکراچی عروس البلاد، غریب پرور، غریب کی ماں شہر، مگر یہ سب القابات ماضی کی باتیں ہیں عصر حاضر میں جن القابات سے شہر کراچی کو نوازا جاتا ہے وہ القابات تحریر کرتے ہوئے بھی دل دکھی ہوتا ہے کیونکہ یہ وہی شہر کراچی ہے جہاں پورے ملک سے لوگ فقط سیاحت کی غرض سے آتے اور اپنے آبائی شہروں میں واپس جاکر جب شہر کراچی کی خوبصورت و بلند و بالا عمارات اہم ترین تفریح گاہوں کلفٹن، چڑیا گھر، صاف ستھرے بازاروں کا تذکرہ کرتے سننے والوں کو بھی تجسس ہوتا کہ کاش ہم بھی جلد کراچی جائیں اور سیاحت سے لطف اندوز ہوں۔

سیاحت کے ساتھ ساتھ لوگ بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لازمی حاضری دیتے البتہ وقت گزرنے کے ساتھ شہر کراچی کی رونقیں ماند پڑگئیں آج شہر مسائلستان کا منظر پیش کر رہا ہے گوکہ پورا ملک ہی مسائل سے دوچار ہے۔ بہرکیف آج کی نشست میں ہم جس مسئلے کا تذکرہ کرینگے وہ ہے گرین لائن بس منصوبہ فیز ون۔ جب گرین لائن بس منصوبے کا آغاز 2016ء ماہ جنوری میں کیا گیا تو ٹریفک کے مسائل سے دو چار شہرکراچی کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا کہ چلوکم سے کم کسی حد تک ہی سہی ٹریفک کے مسائل میں تو قدرے کمی آئیگی۔

وفاقی حکومت نے جب اس منصوبے کا آغاز کیا تو یہ عندیہ بھی دیدیا کہ یہ دو برس میں یعنی جون 2018ء تک مکمل کرلیا جائے گا جس تیز رفتاری سے اس منصوبے کا کام جاری تھا امکان یہی تھا کہ وقت مقررہ پر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا البتہ پھر سیاسی حالات نے ایسی کروٹ لی کہ ملکی سیاست کا منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا بالخصوص 28 جولائی 2017ء کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد۔ اب کیفیت یہ ہے کہ گرین لائن بس منصوبہ تاخیرکا شکار ہو رہا ہے۔

اس منصوبے کے ساتھ ایک ستم یہ بھی رہا کہ اس منصوبے کی تکمیل چونکہ وفاقی حکومت کے ذمے تھی مگر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت و سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان روابط کا فقدان بھی واضح رہا البتہ اس منصوبے کی تاخیر کا ایک باعث یہ بھی رہا ہے اس منصوبے پر جاری کام کے دوران حفاظتی اقدامات ناکافی ہونے کے باعث چوری کی وارداتیں کثرت سے ہونے لگیں اور نقاب پوش چور بڑی دیدہ دلیری سے قیمتی پرزہ جات و دیگر متعلقہ سامان چوری کر کے لے جاتے البتہ صوبائی حکومت اس منصوبے کے لیے حفاظتی معاملات بھی اپنے ذمے لینے کو تیار نہ تھی مگر اب تمام حفاظتی امور رینجرز کے حوالے کرنے سے چوری کی وارداتوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔

گرین لائن بس منصوبہ عبداللہ موڑ سرجانی ٹاؤن تا گرومندر 18.4 کلو میٹر طویل ہے جس میں ایلویٹڈ اسٹرکچر 11.7 کلومیٹر ہے، سرجانی تا ناگن چورنگی 8 کلومیٹر ہے جب کہ سخی حسن، کے ڈی اے چورنگی اور فائیو اسٹار چورنگی پر تعمیر ہونیوالے تین فلائی اوورز 3 کلومیٹر طوالت رکھتے ہیں جب کہ بورڈ آفس چورنگی پر انٹر چینج بھی مکمل ہو چکا ہے اور گزشتہ برس اس کا افتتاح بھی ہوچکا ہے جب کہ گرین لائن کوریڈور کے انٹری پوائنٹ عبداللہ موڑ پر بس اسٹاپ بھی تکمیل کے مراحل طے کرچکا ہے البتہ بس ٹرمنل پر ایندھن پانی و واشنگ ایریا کی تعمیر کا کام ابھی باقی ہے جب کہ سات بس اسٹیشنوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔


تاہم اس وقت جو گرین لائن بس منصوبے کی صورتحال سامنے ہے وہ یہ ہے کہ کے آئی سی ایل کے چیف فنانشل آفیسر کوئی دو ہفتے قبل میڈیا کو ایک گفتگو کے دوران بتا چکے ہیں کہ گرین لائن بس کوریڈور کو اس حد تک مکمل کردیا گیا ہے کہ اس پر بسیں چلائی جاسکتی ہیں اور جو کام نامکمل ہے وہ ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے ایسا لاہور میں بھی ہوا تھا کہ میٹرو کوریڈور کا سول ورکس مکمل ہوتے ہی بس سروس شروع کردی گئی تھی اور دیگر ترقیاتی کام بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے تھے اورکراچی میں بھی ایسا ممکن ہے کہ بس سروس شروع کردی جائے اور دیگر کام ساتھ ساتھ ہوتے رہیں گے اور سروس کے دوران اگر کوئی خامی بھی ہوگی تو وہ خامی بھی سامنے آجائے گی۔

ہمارے خیال میں ان کی تجویز معقول ہے اور قابل عمل بھی البتہ دوسری جانب صوبائی حکومت سندھ کے ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد اطہر کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ جب تک کوریڈور پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا ہم گرین لائن بس پروجیکٹ کا کنٹرول نہیں لیں گے جب کہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو گرین لائن بس منصوبہ جسکا معمولی سا کام باقی ہے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے اور اس پروجیکٹ پر کام کرنیوالے متعلقہ لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اگر ہمیں بروقت ضروری سامان مہیا کردیا جائے تو یہ منصوبہ فقط چند یوم کا کام ہے البتہ ایک اور مسئلہ بھی سامنے آیا کہ اس پروجیکٹ پرکام کرنیوالے لوگوں کو بروقت ادائیگی نہیں ہو رہی ۔

اب اس عمل کا ذمے دارکسے ٹھہرایا جائے کیونکہ ان کام کرنے والوں کو بکرا عید پر بھی مکمل ادائیگی نہیں ہوئی جسکے باعث یہ لوگ شدید مالی پریشانیوں سے دوچار ہوئے اب بروقت ادائیگی زیڈ کے بی کمپنی جوکہ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی ذمے دار ہے یا دیگر لوگ یا ادارے ذمے دار ہیں مناسب ہوگا کہ اس قسم کے چھوٹے موٹے مسائل پر خصوصی توجہ فرمائیں تاکہ یہ گرین لائن منصوبہ جلد مکمل ہوسکے یعنی رقم کی ادائیگی و سامان کی ترسیل ایک اور بات یہ کہ یہ منصوبہ ابھی تک اپنے مقرر کردہ بجٹ یعنی 17 ارب 8 کروڑ میں ہی مکمل ہو رہا ہے مطلب یہ کہ وقت گزرنے یا تاخیرکے باعث یہ منصوبہ اضافی رقوم کا طالب نہیں ہے۔

نومنتخب وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے اولین خطاب میں جوکہ انھوں نے 19 اگست 2018ء کو قوم سے کیا اس خطاب میں بار بار کراچی کے مسائل کا نہ صرف تذکرہ کرتے رہے ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کا عزم بھی ظاہر کرچکے ہیں جب کہ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ جوکہ دوسری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ منتخب ہوچکے ہیں نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کا اظہار کر چکے ہیں۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں یہ مناسب موقع ہے کہ تمام ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دیکر انھیں حل کیا جائے بالخصوص گرین لائن بس منصوبہ جلد مکمل کیا جائے تاکہ کراچی کے باسی جوکہ لاتعداد مسائل سے دوچار ہیں کسی ایک مسئلے سے تو چھٹکارا پاسکیں اور اس کے بعد امید ہے کہ وفاقی حکومت و سندھ حکومت شہرکراچی کے تمام مسائل حل کرنے کے ساتھ عوام کو بنیادی سہولیات جن میں پانی، تعلیم، علاج، روزگار و رہائش کی سہولیات فراہم کرے گی۔
Load Next Story