سندھ میں پھر مخلوط حکومت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو دہشت گردی سمیت بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا

ایک طرف مسلم لیگ ن دبائو ڈالے گی دوسری طرف خٰیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی سادہ طرز زندگی اپنانے کا کہہ رہی ہے

ایم کیو ایم میں سنجیدہ تنظیمی معاملات کے باوجود قائد الطاف حسین سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے ملاقات کی ہے فوٹو: فائل

سندھ میں ایک بار پھر حکومت بنانے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات اگلے ہفتے شروع ہونیوالے ہیں، دونوں جماعتوں کو دہشتگردی سمیت بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

خیال رہے دونوں کی مخلوط حکومت کے دوران نو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے،جس کا دونوں پر دبائو ہے، لگتا ہے اس صورتحال میں ایم کیو ایم '' وزارت داخلہ'' کا مطالبہ کرے گی ، جس پر دونوں میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں، الطاف حسین کی نامزد کردہ کمیٹی جب پیپلزپارٹی کی کمیٹی سے مذاکرات کرے گی تو وہ تعلیم ، بلدیات اور صحت کی وزارتیں لینا بھی پسند کرے گی، دونوں جماعتوں میں ایک اور معاملہ جس پر اختلاف پیدا ہوسکتا ہے، وہ سندھ لوکل گورمنٹ آرڈیننس 2012 ہے، دونوں جماعتوں پر اس سال کے آخر تک بلدیاتی الیکشن کرانے کا دبائو ہوگا، کیونکہ ن لیگ پنجاب میں نومبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کر چکی ہے، دونوں جماعتوں کو ان حالات میں بھی دبائو کا سامنا ہوگا ، اگر بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختون خوا کی حکومتیں بہتر کارکردگی دکھا دیتی ہیں۔


ایک طرف مسلم لیگ ن دبائو ڈالے گی دوسری طرف خٰیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی سادہ طرز زندگی اپنانے کا کہہ رہی ہے ، ایم کیو ایم میں سنجیدہ تنظیمی معاملات کے باوجود قائد الطاف حسین سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے ملاقات کی ہے اور صدر زرداری کیطرف سے سندھ میں حکومت کی تشکیل اور دونوں جماعتوں میں تعاون کے حوالے سے اہم پیغام پہنچایا ہے، الطاف حسین کی رحمان ملک کے ساتھ ملاقات غیرمعمولی تھی کیونکہ الطاف حسین پارٹی میں اندرونی مسائل کے موقع پر ایسی ملاقاتیں نہیں کرتے ، لیکن لگتا ہے کہ انھیں رحمن ملک پر بہت زیادہ اعتماد ہے اور انھوں نے رحمن ملک سے اپنی جماعت کے اندرونی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا ہوگا،متحدہ جب اندرونی مسائل سے نکل آئے گی تو پیپلزپارٹی کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی، مخدوم امین فہیم کی سربراہ میں الطاف حسین کی نامزد کمیٹی سے مذاکرات کرے گی جس میں قائم علی شاہ اور سید خورشید شاہ بھی شامل ہوں گے۔

ایم کیو ایم کو پارٹی کے اندر سے رپورٹ ملی ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کی حمایت میں ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کومتاثر کرنے کیلیے دخل اندازی کی ہے، اس معاملے پر گذشتہ ہفتہ کو ہونیوالے ایم کیو ایم کے ورکرز کنونشن میںبڑی سنجیدہ بحث و تمحیض ہوئی،ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم وزارت داخلہ اس لئے چاہتی ہے کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور دہشت گردی کی وجہ سے وہ مسلسل دبائو میں ہے، اور ایک عوامی جماعت ہونے کیوجہ سے لوگ اس کا احتساب کرتے ہیں، ایم کیو ایم کو یقین ہے کہ سینیئر وزیر اسی کا ہوگا علاوہ ازیں 6 وزارتیں بھی ملیں گی ، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ عشرت العباد نے 10 سال کی گورنر شپ کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے تاہم ان کی گورنرشپ اب ختم ہونیوالی ہے کیونکہ ن لیگ چاروں صوبوں میں اپنی پسند کے گورنر نامزد کرے گی۔

ایک یہ بھی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اہم وزارتیں مانگے گی اگر مرضی کی وزارتیں نہ ملیں تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرے گی، اس وقت جو صورتحال ہے اس میں بہت کم امکان ہے کہ ن لیگ ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دے گی، سندھ کی وزارت اعلیٰ کیلئے پیپلزپارٹی کے پاس 2,3 امیدوار ہیں تاہم پارٹی اعلان کرنے میں ابھی تاخیر کر رہی ہے، البتہ قائم علی شاہ پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، پیپلزپارٹی نے مذاکرات کیلئے سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس میں شرجیل میمن، سراج درانی اور نثار کھوڑو شامل ہیں، جبکہ پیپلزپارٹی کیلیے ایم کیوایم کو وزارت داخلہ دینا آسان نہیں ہوگا لیکن وزارت اعلیٰ کے امیدوار پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، اگر سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کی بڑی مانگ پوری کردی جاتی ہیں تو ایم کیوایم قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے نامزد اپوزیشن لیڈر کی حمایت کر سکتی ہے، خیال رہے کہ پی ٹی آئی بھی اپنا اپوزیشن لیڈر بنوانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
Load Next Story