شامی حکومت امن مذاکرات پر آمادہ
شام میں خانہ جنگی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ستر ہزار سے تجاوز کرتے ہوئے 94 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
روس نے کہا ہے کہ شام کی بشار الاسد حکومت نے امریکا اور روس کی طرف سے اس ملک میں امن کی خاطر مشترکہ طور پر مذاکرات شروع کرنے کی کوشش پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ ان مذاکرات کا اولین مقصد شام میں دو سال سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرانا ہے تاہم مذاکرات کی اس پیشکش پر بعض حلقوں کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
شام میں متحارب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بشار الاسد حکومت مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کر کے دراصل اپنی پوزیشنیں مضبوط کرنے کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے جب کہ نہتے شہریوں کا بے دریغ قتل عام بدستور جاری ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انھیں امن مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے ٹھوس ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ نیز صدر بشار الاسد کی عہدہ صدارت پر بدستور موجودگی کی صورت میں کوئی امن سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لہٰذا سب سے پہلے بشار الاسد کو ان کے منصب سے دستبردار کرانا لازم ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق خانہ جنگی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ستر ہزار سے تجاوز کرتے ہوئے 94 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور فریقین ابھی تک جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو سکے۔ لندن میں قیام پذیر شام کے ایک اپوزیشن لیڈر محی الدین بتخانی کا کہنا ہے کہ کسی ضمانت کے بغیر بشار حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک ایسی سرنگ میں داخل ہو جائیں جس کے دوسری طرف روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سید محی الدین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی باتیں ابھی تک محض ہوا میں ہی کی جا رہی ہیں، اس کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ ادھر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنے والے بعض حکام کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات جون میں شروع ہو سکتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ شام کے باغی مجوزہ مذاکرات میں شرکت قبول کر لیں جب کہ روس بشار الاسد حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے سات روزہ دورے پر آ رہے ہیں جو پیر کے دن اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بھی ملاقات کریں گے تا کہ مشترکہ مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکے۔ شام کے ایک اور اپوزیشن لیڈر لوئی صافی کا کہنا ہے کہ شام کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کی بات روس کی طرف سے کی جا رہی ہے۔
حالانکہ یہ بات خود شام کے سرکاری ترجمان کو کرنی چاہیے لیکن شامی حکومت کی اس ضمن میں خاموشی ہمارے دل میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کر رہی ہے۔ دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے کہنے پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہو سکتے بلکہ کم از کم 2014ء تک ہر قیمت پر اقتدار پر برقرار رہیں گے جب نئے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ بشار الاسد کی حکومت کو روس کی حمایت حاصل ہے اور اسی بناء پر بشار اپنے منصب پر برقرار رہنے کے لیے اصرار کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سرکاری فورسز مخالفین کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لبنان کی سرحد کے قریب واقع قصیر نامی شہر سے باغیوں کا قبضہ ختم کرانے کے بعد بشار حکومت کا حوصلہ بڑھ گیا ہے اور انھوں نے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔
ادھر اردن میں امریکا نے ''شام کے دوست'' کے نام سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل کی تجویز پیش کی۔ دوسری طرف یورپی یونین برسلز میں اسی مقصد کے لیے ایک کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا شام کے باغیوں کو امداد کے پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے یا کوئی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے معروف پروفیسر کرسٹوفر فلپس نے کہا ہے کہ باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کے بجائے سفارتی ذرائع سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جس کے باعث صورت حال اور زیادہ گنجلک اور پیچیدہ ہو رہی ہے۔
اسی وجہ سے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی نکتہ تلاش کرنے میں زیادہ دقت درپیش آ رہی ہے۔ جان کیری نے بھی مذاکرات شروع کرانے میں مشکلات کا اعتراف کیا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے کے موقع پر جان کیری نے کہا تھا کہ شام میں مذاکرات شروع کرانا سیدھی چڑھائی پر چڑھنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ بہرحال شام کے بحران کا حل نکالنا بڑی طاقتوں کی ذمے داری ہے، مشکلیں خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں، ان سے نکل کر ہی شام میں امن واپس لایا جاسکتا ہے۔
شام میں متحارب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بشار الاسد حکومت مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کر کے دراصل اپنی پوزیشنیں مضبوط کرنے کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے جب کہ نہتے شہریوں کا بے دریغ قتل عام بدستور جاری ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انھیں امن مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے ٹھوس ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ نیز صدر بشار الاسد کی عہدہ صدارت پر بدستور موجودگی کی صورت میں کوئی امن سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لہٰذا سب سے پہلے بشار الاسد کو ان کے منصب سے دستبردار کرانا لازم ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق خانہ جنگی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ستر ہزار سے تجاوز کرتے ہوئے 94 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور فریقین ابھی تک جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو سکے۔ لندن میں قیام پذیر شام کے ایک اپوزیشن لیڈر محی الدین بتخانی کا کہنا ہے کہ کسی ضمانت کے بغیر بشار حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک ایسی سرنگ میں داخل ہو جائیں جس کے دوسری طرف روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سید محی الدین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی باتیں ابھی تک محض ہوا میں ہی کی جا رہی ہیں، اس کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ ادھر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنے والے بعض حکام کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات جون میں شروع ہو سکتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ شام کے باغی مجوزہ مذاکرات میں شرکت قبول کر لیں جب کہ روس بشار الاسد حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے سات روزہ دورے پر آ رہے ہیں جو پیر کے دن اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بھی ملاقات کریں گے تا کہ مشترکہ مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکے۔ شام کے ایک اور اپوزیشن لیڈر لوئی صافی کا کہنا ہے کہ شام کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کی بات روس کی طرف سے کی جا رہی ہے۔
حالانکہ یہ بات خود شام کے سرکاری ترجمان کو کرنی چاہیے لیکن شامی حکومت کی اس ضمن میں خاموشی ہمارے دل میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کر رہی ہے۔ دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے کہنے پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہو سکتے بلکہ کم از کم 2014ء تک ہر قیمت پر اقتدار پر برقرار رہیں گے جب نئے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ بشار الاسد کی حکومت کو روس کی حمایت حاصل ہے اور اسی بناء پر بشار اپنے منصب پر برقرار رہنے کے لیے اصرار کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سرکاری فورسز مخالفین کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لبنان کی سرحد کے قریب واقع قصیر نامی شہر سے باغیوں کا قبضہ ختم کرانے کے بعد بشار حکومت کا حوصلہ بڑھ گیا ہے اور انھوں نے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔
ادھر اردن میں امریکا نے ''شام کے دوست'' کے نام سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل کی تجویز پیش کی۔ دوسری طرف یورپی یونین برسلز میں اسی مقصد کے لیے ایک کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا شام کے باغیوں کو امداد کے پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے یا کوئی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے معروف پروفیسر کرسٹوفر فلپس نے کہا ہے کہ باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کے بجائے سفارتی ذرائع سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جس کے باعث صورت حال اور زیادہ گنجلک اور پیچیدہ ہو رہی ہے۔
اسی وجہ سے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی نکتہ تلاش کرنے میں زیادہ دقت درپیش آ رہی ہے۔ جان کیری نے بھی مذاکرات شروع کرانے میں مشکلات کا اعتراف کیا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے کے موقع پر جان کیری نے کہا تھا کہ شام میں مذاکرات شروع کرانا سیدھی چڑھائی پر چڑھنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ بہرحال شام کے بحران کا حل نکالنا بڑی طاقتوں کی ذمے داری ہے، مشکلیں خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں، ان سے نکل کر ہی شام میں امن واپس لایا جاسکتا ہے۔