اب کی دھاندلیاں اور ماضی کے دھاندلے

جو الیکشن رزلٹ ان دو ہفتے گزرنے کے بعد نامکمل شکل میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، کچھ غیر متوقع نہ بھی سہی بھیڑ چال کا۔۔۔

h.sethi@hotmail.com

ملک کی تاریخ میں 11 مئی 2013ء بلا شبہ ایک اہم دن تھا جب جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے بندوں کو تولنے کے بجائے ان کی گنتی ہی کو پیمانہ بنانے کا عمل قائم رکھنے کا طریق اپنانے کا مظاہرہ ہوا یعنی اس شعر پر یقین کی تجدید ہوئی کہ

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے

لیکن الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے والوں نے ایک اور شعر کی نمنا کی سے بھی الیکشن میں بطور آزمائش موسم کا مزہ لینے کا اہتمام نہایت ضروری سمجھا کیونکہ مئی کے دوسرے ہفتے میں اہل ذوق یہ شعر اگر انھیں جلتے سورج کے نیچے چند گھنٹے کھڑا ہونا پڑے تو دہرانا نہیں بھولتے

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ

حکومت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے بڑے بلند بانگ دعوے سننے، پڑھنے کو ملے کہ ایسا فول پروف بندوبست زیر تجویز ہے۔ ایسے عدالتی افسر، انتظامی نگران بلکہ خاکی پوش اس جنرل الیکشن پر مامور ہوں گے کہ ناخواندہ ووٹر بھی ''فیئر اینڈ فری'' کا اپنی اپنی زبان میں فصیح و بلیغ ترجمہ کرتے پائے جائیں گے لیکن اگر فرق پڑا تو اس والے الیکشن کے بارے میں اس حد تک رعایت برتی جا سکتی ہے کہ دھاندلی تو ضرور ہوئی دھاندلا نہیں ہوا جو گزشتہ تمام الیکشنوں کا، ماسوائے یحییٰ خاں والے 1970ء کے الیکشن کے، طرۂ امتیاز رہا ہے۔

2013ء کے عام انتخابات کی دو امتیازی خصوصیات رہیں جن کا بالخصوص PTI کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان لوگوں کو بھی اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس دلایا جنھوں نے کبھی پولنگ اسٹیشن کی شکل نہیں دیکھی تھی اور ان نوجوانوں سے ووٹ لیا جو ووٹ کی طاقت اور اہمیت کو ملک و قوم کے لیے بے معنی گردانتے اور تضیع اوقات سمجھتے تھے۔ عام لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں بھی تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے ہی احساس جگایا کہ صرف ایک ووٹ بھی پانسہ پلٹ سکتا ہے۔


دوسری خصوصیت اس الیکشن کی میڈیا کی موجودگی بلکہ نگرانی تھی۔ الیکٹرانک میڈیا کی آنکھ نے جہاں بھی بدنظمی، دھاندلی، چوری، ہوشیاری، عیاری، بدمعاشی، ملی بھگت، چالاکی، نااہلی، جانبداری، فرمانبرداری، خدمت گزاری، پھرتی یا سست کاری، خوفزدگی، فنکاری یا بددیانتی جس میں الیکشن دھاندلی کا عنصر دیکھا اسے مستقل محفوظ کر کے نشر کر دیا بلکہ یوں کہیے حشر نشر کر دیا اور جس نے ایک بار ایسی واردات ٹی وی اسکرین پر دیکھنی مس کر دی اس نے نشر مکرر درمکرر پر ضرور دیکھ لی۔

جو الیکشن رزلٹ ان دو ہفتے گزرنے کے بعد نامکمل شکل میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، کچھ غیر متوقع نہ بھی سہی بھیڑ چال کا مروجہ کلچر ضرور پیش کرتے ہیں۔ اسی لیے مسلم لیگ ن کی اکثریت روزافزوں ہے لیکن اس کا مثبت پہلو بھی ہے کہ اس اکثریتی پارٹی کو ماضی کی بری حکمرانی، کرپشن، لاقانونیت، انرجی کرائسس، گرانی وغیرہ پر قابو پانے میں فری ہینڈ ملے گا اور PTI کی طرف سے مفید اور قابل عمل تنقیدی مشورے ملیں گے نہ کہ مخالفت برائے مخالفت۔

ملک کی تاریخ میں میڈیا اور بطور خاص الیکٹرانک میڈیا کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے پولنگ اسٹاف کی کارستانیاں اور طاقتور کنیڈیٹس کی من مانیاں عوام اور ووٹروں کو دستاویزی شکل میں دکھا دیں۔ جو کچھ بھی بصورت دھاندلی 2013ء الیکشن میں ہوا اس میں کچھ بھی نیا پن نہیں تھا بلکہ کیمرے کے ڈر سے بہت سی مار دھاڑ، ہلا گلہ، دھاوے، طاقت اور زور آزمائی کے مظاہرے جو اس سے پہلے ہوا کرتے تھے، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے، مخالف ووٹروں کو اندر داخل ہونے سے بزور بازو و اسلحہ روکنے کے مناظر دیکھنے کو نہیں مل سکے۔

اپنی مرضی کا پولنگ عملہ اب بھی لگوایا گیا، سہولت کے پولنگ اسٹیشن اس بار بھی بنوائے گئے لیکن میڈیا کی موجودگی اور کیمرے کی آنکھ سے چھپ چھپا کر جو کچھ ممکن تھا ہوا۔ لوگوں کے تفنن طبع کے لیے پولنگ عملے سے کچھ ایسی حماقتیں ضرور ہوئیں جن کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہو سکتا تھا۔ مثلاً جہاں ووٹروں کی تعداد تین سو تھی ڈبے میں سے بیلٹ پیپر پانچ سو نکل آئے۔ ضرور یہ انسانی غلطی یا دھاندلی نہیں کوئی جناتی فعل ہو گا۔

سائنس کا دعویٰ کہ فنا کا جو منظر ہم ہر روز دیکھتے ہیں اور یہ کہ ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' تشریح طلب ہے۔ قدرت بظاہر فنا کرتی ہے لیکن حقیقتاً شکل تبدیل کرتی ہے، ہماری نہ نظر آنے والی آوازیں تک کائنات میں محفوظ رہتی ہیں اور کوئی وقت آئے گا کہ معلوم ہو گا کہ مختلف فریکوئینسی کی بنا پر کائنات میں گم لیکن موجود آوازوں اور گفتگو کا Replay ہو سکے گا۔ یہ الگ بات کہ اس گفتگو کا آئندہ آنے والے لوگ مستقبل میں ماضی کا نظارہ کریں گے یا سماعت تک محدود رہیں گے۔ ڈرامہ سیریل Time Tunnel اسی کاوش کی شکل تھا۔

فنا اور بقا کا ذکر بوگس ووٹنگ کے حوالے سے برسبیل تذکرہ آگیا، ذکر تھا دراصل پاکستان میں ہونے والے جمہوری اور مارشلائی گزشتہ الیکشنوں اور 11 مئی کے الیکشن کے درمیان موازنے کا۔ گزشتہ الیکشن غیر متوقع طور پر اتنے شفاف نہ تھے، جتنی ہم سب کو امید تھی لیکن اگر الیکٹرانک میڈیا اور نوجوان ووٹر میدان عمل میں نہ آگیا ہوتا تو دھاندلی کا جو پانچ فیصد ہم سب نے بار بار دیکھ لیا، وہ بھی نظر نہ آتا، یہ صرف میڈیا اور باشعور ووٹروں کی موجودگی تھی کہ گزشتہ الیکشنوں والا دھاندلا دیکھنے کو نہ ملا جب ایک ایک زندہ ووٹر بیس بیس ووٹ ڈالتا تھا اور مرحوم اور لائن میں لگے ووٹر صبح 9 بجے ووٹ کا حق استعمال کر جاتے تھے، پریذائیڈنگ افسر ایک ہی ووٹر سے سو انگوٹھے لگواتا اور فرضی گنتی کرکے جیتنے والے کو ہرا دیتا اور بیلٹ بکس امیدوار کے ڈیرے پر بھجوا دیتا۔

چلتے چلتے ایک پرانے الیکشن کی بات دہرا دوں کہ اگرگوجرانوالہ کے ہار جانے والے سیاستدان کے بیلٹ بکس محفوظ کرکے آئندہ صبح ان کی Recounting نہ کروائی ہوتی تو وہ شاید منظرعام پر نہ آتا اور نہ جانے ان کے سیاستدان صاحبزادے کہاں ہوتے اور اگر ایک پریذائیڈنگ افسر کو ایک ہی شخص سے انگوٹھے لگواتے نہ پکڑا ہوتا تو نہ جانے کس کی جیت ہوتی اور کس کی ہار۔

سن 2013ء والا الیکشن آئندہ انتخابات کے لیے باوجود اپنی متعدد خامیوں، نالائقیوں، ناتجربہ کاریوں اور کئی مقامات پر دانستہ دھاندلیوں کے باوجود عوام میں جاگنے والے شعور اور میڈیا کی VIGILANCE کی بنا پر پہلے یادگار الیکشن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
Load Next Story