روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پرسوچی کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا زید رعدالحسین
سوچی نے اس معاملے پرجو معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے،اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کےسابق سربراہ
KARACHI:
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ زید رعدالحسین کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے بعد آنگ سانک سوچی کو مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ زید رعدالحسین نے کہا کہ میانمار میں فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھانے جانے والے مظالم پر میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث میانمارآرمی چیف کا فیس بک اکاؤنٹ بند
زید رعدالحسین کا کہنا تھا کہ سوچی نے اس معاملے پر جو معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے اس سے بہتر تھا کہ وہ خاموش رہتیں حالانکہ رہنما کے طور پر وہ بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو میانمار فوج کی ترجمانی کرنے کے بجائے مسلمان اقلیت کے حق میں بات کرنی چاہیے تھی اور فوج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کی مذمت کرنی چاہیے تھی مگر وہ ان کا دفاع کرتی رہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ میانمار آرمی چیف کا ٹرائل ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا اپنی حالیہ رپورٹس میں کہنا تھا کہ میانمارکے آرمی چیف اوردیگر اعلیٰ فوجی افسران روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں جب کہ آنگ سان سوچی ان مظالم کو روکنے میں ناکام رہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ زید رعدالحسین کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے بعد آنگ سانک سوچی کو مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ زید رعدالحسین نے کہا کہ میانمار میں فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھانے جانے والے مظالم پر میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث میانمارآرمی چیف کا فیس بک اکاؤنٹ بند
زید رعدالحسین کا کہنا تھا کہ سوچی نے اس معاملے پر جو معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے اس سے بہتر تھا کہ وہ خاموش رہتیں حالانکہ رہنما کے طور پر وہ بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو میانمار فوج کی ترجمانی کرنے کے بجائے مسلمان اقلیت کے حق میں بات کرنی چاہیے تھی اور فوج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کی مذمت کرنی چاہیے تھی مگر وہ ان کا دفاع کرتی رہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ میانمار آرمی چیف کا ٹرائل ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا اپنی حالیہ رپورٹس میں کہنا تھا کہ میانمارکے آرمی چیف اوردیگر اعلیٰ فوجی افسران روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں جب کہ آنگ سان سوچی ان مظالم کو روکنے میں ناکام رہیں۔