یہ عمران خان کون ہوگا
اس نوجوان کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا آگے بڑھتے رہنے کا جذبہ اور رویہ ہے۔
آنے والے دو چار دنوں میں ہمارے نئے حکمران اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے تازہ تازہ منتخب ہیں اور پانچ برس کے لیے ہم پر حکومت کا حق رکھتے ہیں۔ ہماری ان سے فی الحال صرف اتنی گزارش ہے کہ وہ ان پانچ برسوں میں زیادہ نہیں تو پانچ ماہ تک اپنے حلف کی پاسداری ضرور کریں۔
گزشتہ حکومتوں اور حکمرانوں کی طرح پورے پانچ برس حلف کی خلاف ورزی میں نہ گزار دیں۔ ان کی خوش قسمتی کے وہ جہاں حلف برداری کے لیے گئے وہاں ایک کاغذ موجود تھا جسے حلف نامہ کہا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی نے حلف لے لیا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ حلف اٹھا لیا ہے۔ اس لینے اور اٹھانے میں بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک صاحب جو ایک معصوم صفت سیاست دان تھے، وزارت کا حلف اٹھانے کراچی جا رہے تھے' ریلوے اسٹیشن پر جو لوگ انھیں الوداع کہنے گئے تو ان میں نوجوان شیخ خورشید بھی تھے۔
حسب عادت انھیں مذاق کی سوجھی تو انھوں نے پوچھ لیا کہ آپ کے پاس حلف کہاں ہے جسے آپ نے کراچی کی اس تقریب میں اٹھانا ہے۔ یہ سن کر وہ گھبرا گئے اور اپنے ملازم پر برسنے لگے کہ اس نے ان کے سامان میں حلف کیوں نہیں رکھا۔ شدید گھبراہٹ کے اس عالم میں مسلم لیگ کے ایک کارکن لیڈر چوہدری ظفر اللہ کو ان پر رحم آ گیا اور انھوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں نے پتہ کر لیا ہے حلف نامہ کراچی میں موجود ہے۔ آپ کو اس وزنی حلف نامے کو اٹھانا نہیں صرف پڑھنا اور لینا پڑے گا۔
عرض یہ کہ ہمارے نئے وزراء' گورنرز' وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم سب صاحبان مہربانی فرما کر اس حلف نامے کی کم از کم پانچ ماہ تک پابندی کریں۔ اس کے بعد وہ اپنے تمام ارادے' خواہشیں اور تمنائیں پوری کر لیں۔ میں تجویز تو یہ پیش کر رہا تھا کہ یہ حلف نامہ ہر وزیر کے دفتر میں اس کے سامنے والی دیوار پر چسپاں ہو۔ وہ خود بھی اسے دیکھ کر شرماتا رہے اور اس کے ملاقاتی بھی زیر لب مسکراتے رہیں۔ میں عرض تو کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن ایک خبر نے حلف برداری یاد کرا دی۔
ہماری قومی سیاست میں کوئی ساٹھ برس بعد ایک بنیادی تبدیلی آئی ہے اور وہ ہے ایک نئے قومی سطح کے سیاست دان کی اچانک آمد، جن کا نام نامی ہے عمران خان نیازی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سولہ سترہ برس سے بھرپور سیاست کر رہے ہیں اور اب پہلی دفعہ انھیں الیکشن کے موقع پر سامنے آنے کا موقع ملا ہے۔ پوری پاکستانی قوم خصوصاً نوجوان نسل کا جانا پہچانا اور عالمی سطح پر معروف شخصیت عمران اپنی شخصیت کے اعتبار سے کوئی غیر معروف نہیں ہے۔
اس نوجوان کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا آگے بڑھتے رہنے کا جذبہ اور رویہ ہے۔ اپنی کرکٹ کی کامیابی کو اس نے مالی منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اس نے اپنی والدہ کے نام سے ایک اسپتال بنا کر اپنی پبلک زندگی کا آغاز کیا۔ اسپتال کے آغاز پر اس وقت کی صوبائی حکومت اور بعد میں عام پبلک نے اس کے ساتھ زبردست تعاون کا اظہار کیا اور عمران نے اس امداد کے ساتھ ایک جدید ترین اسپتال بنا دیا۔
اس اسپتال نے عمران کو ایک قومی لیڈر بنا دیا اور اس پس منظر میں جب وہ سیاست میں آیا تو ملک کے مایوس اور پرانی سیاست سے برہم نوجوان طبقے نے اس کے ساتھ غیر معمولی حد تک تعاون کیا اور اسے دھاندلی کے الزامات کے باوجود الیکشن میں بڑی کامیابی ملی۔ آج عمران خان اگر کسی صوبے میں حکمران نہیں ہے تو اسے اس کی سیاست میں بہت بڑا عمل دخل مل چکا ہے اور وہ مقامی حکومتوں کو پریشان کر سکتا ہے لیکن یہ شوکت خانم جیسے خیراتی اسپتال بنانے والے کی سیاست نہیں ہو گی اگر وہ پرانی طرز کی سیاست کرنا چاہے گا تو پھر وہ جلد ہی عمران نہیں رہے گا ایک اور سیاست دان ہو گا جن کی پہلے سے بہتات ہے۔
ہم پاکستانی جو کسی سیاسی پارٹی کے ساتھی نہیں بلکہ اس ملک کے ساتھی ہیں عمران خان کو کسی غلط سیاست میں الجھا کر اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں ایک ایسے جرأت مند نوجوان کی ضرورت ہے جو ملک کے مفاد کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دے سکے۔ یہ میں اسی لیے عرض کر رہا ہوں کہ ہم سیاست دانوں کی خود غرضیوں سے ایسے سانحوں سے گزر چکے ہیں جب اقتدار کی خاطر ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس لیے یوں کہیں کہ ''دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔''
ہم عمران خان کی چھاچھ بھی پھونکے بغیر نہیں پی سکتے کیونکہ عمران خان سیاست میں اناڑی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کے پاکستانی اور پاکستانیت کے نظریات کس حد تک مستحکم ہیں اور وہ بھی کہیں امریکی اشاروں پر واہگہ کے اس پار تو دیکھنا شروع نہیں کر دیں گے۔ ہمارا ایک جماندرو مسئلہ یہ ہے کہ ہم قوم بننے سے پہلے قومی لیڈر شپ سے محروم ہو گئے اور ملک کے مفادات سے لاپروا سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ گئے جنھوں نے ہماری قومی سوچ ہی بدل دی۔ ان سیاست دانوں کی وجہ سے سانحہ ڈھاکہ سامنے آیا جس نے باقی ماندہ پاکستان کی سوچ ہی بدل دی اور اب بھی کوئی لیڈر بلاتکلف علیحدگی کی بات کہہ دیتا ہے۔
عمران اس پاکستان کا نوجوان ہے جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اور ان زخموں کو لے کر پیدا ہوا ہے اور حالات نے اسے پاکستان میں غیر معمولی اہمیت دے دی ہے۔ وہ آج کی سیاست میں ایک منفی قسم کی ویٹو پاور بھی رکھتا ہے اور مثبت بھی۔ یہ اس قوم کی قسمت ہے کہ اس کا نیا لیڈر کیسا نکلتا ہے۔ کتنا پاکستانی، کتنا ہندوستانی، کتنا امریکی اور کتنا غیر واضح اور نیمے دروں نیمے بروں۔ چنانچہ یہ عمران خان کون ہو گا مجھے ذاتی طور پر عمران سے بہت امیدیں ہیں اگر اس کو بگاڑا نہ گیا تو وہ آج صوبہ خیبرپختون کا حکمران ہونے کے بعد کالا باغ بھی بنا سکتا ہے ورنہ شوکت خانم کینسر اسپتال تو ہے ہی۔
گزشتہ حکومتوں اور حکمرانوں کی طرح پورے پانچ برس حلف کی خلاف ورزی میں نہ گزار دیں۔ ان کی خوش قسمتی کے وہ جہاں حلف برداری کے لیے گئے وہاں ایک کاغذ موجود تھا جسے حلف نامہ کہا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی نے حلف لے لیا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ حلف اٹھا لیا ہے۔ اس لینے اور اٹھانے میں بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک صاحب جو ایک معصوم صفت سیاست دان تھے، وزارت کا حلف اٹھانے کراچی جا رہے تھے' ریلوے اسٹیشن پر جو لوگ انھیں الوداع کہنے گئے تو ان میں نوجوان شیخ خورشید بھی تھے۔
حسب عادت انھیں مذاق کی سوجھی تو انھوں نے پوچھ لیا کہ آپ کے پاس حلف کہاں ہے جسے آپ نے کراچی کی اس تقریب میں اٹھانا ہے۔ یہ سن کر وہ گھبرا گئے اور اپنے ملازم پر برسنے لگے کہ اس نے ان کے سامان میں حلف کیوں نہیں رکھا۔ شدید گھبراہٹ کے اس عالم میں مسلم لیگ کے ایک کارکن لیڈر چوہدری ظفر اللہ کو ان پر رحم آ گیا اور انھوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں نے پتہ کر لیا ہے حلف نامہ کراچی میں موجود ہے۔ آپ کو اس وزنی حلف نامے کو اٹھانا نہیں صرف پڑھنا اور لینا پڑے گا۔
عرض یہ کہ ہمارے نئے وزراء' گورنرز' وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم سب صاحبان مہربانی فرما کر اس حلف نامے کی کم از کم پانچ ماہ تک پابندی کریں۔ اس کے بعد وہ اپنے تمام ارادے' خواہشیں اور تمنائیں پوری کر لیں۔ میں تجویز تو یہ پیش کر رہا تھا کہ یہ حلف نامہ ہر وزیر کے دفتر میں اس کے سامنے والی دیوار پر چسپاں ہو۔ وہ خود بھی اسے دیکھ کر شرماتا رہے اور اس کے ملاقاتی بھی زیر لب مسکراتے رہیں۔ میں عرض تو کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن ایک خبر نے حلف برداری یاد کرا دی۔
ہماری قومی سیاست میں کوئی ساٹھ برس بعد ایک بنیادی تبدیلی آئی ہے اور وہ ہے ایک نئے قومی سطح کے سیاست دان کی اچانک آمد، جن کا نام نامی ہے عمران خان نیازی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سولہ سترہ برس سے بھرپور سیاست کر رہے ہیں اور اب پہلی دفعہ انھیں الیکشن کے موقع پر سامنے آنے کا موقع ملا ہے۔ پوری پاکستانی قوم خصوصاً نوجوان نسل کا جانا پہچانا اور عالمی سطح پر معروف شخصیت عمران اپنی شخصیت کے اعتبار سے کوئی غیر معروف نہیں ہے۔
اس نوجوان کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا آگے بڑھتے رہنے کا جذبہ اور رویہ ہے۔ اپنی کرکٹ کی کامیابی کو اس نے مالی منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اس نے اپنی والدہ کے نام سے ایک اسپتال بنا کر اپنی پبلک زندگی کا آغاز کیا۔ اسپتال کے آغاز پر اس وقت کی صوبائی حکومت اور بعد میں عام پبلک نے اس کے ساتھ زبردست تعاون کا اظہار کیا اور عمران نے اس امداد کے ساتھ ایک جدید ترین اسپتال بنا دیا۔
اس اسپتال نے عمران کو ایک قومی لیڈر بنا دیا اور اس پس منظر میں جب وہ سیاست میں آیا تو ملک کے مایوس اور پرانی سیاست سے برہم نوجوان طبقے نے اس کے ساتھ غیر معمولی حد تک تعاون کیا اور اسے دھاندلی کے الزامات کے باوجود الیکشن میں بڑی کامیابی ملی۔ آج عمران خان اگر کسی صوبے میں حکمران نہیں ہے تو اسے اس کی سیاست میں بہت بڑا عمل دخل مل چکا ہے اور وہ مقامی حکومتوں کو پریشان کر سکتا ہے لیکن یہ شوکت خانم جیسے خیراتی اسپتال بنانے والے کی سیاست نہیں ہو گی اگر وہ پرانی طرز کی سیاست کرنا چاہے گا تو پھر وہ جلد ہی عمران نہیں رہے گا ایک اور سیاست دان ہو گا جن کی پہلے سے بہتات ہے۔
ہم پاکستانی جو کسی سیاسی پارٹی کے ساتھی نہیں بلکہ اس ملک کے ساتھی ہیں عمران خان کو کسی غلط سیاست میں الجھا کر اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں ایک ایسے جرأت مند نوجوان کی ضرورت ہے جو ملک کے مفاد کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دے سکے۔ یہ میں اسی لیے عرض کر رہا ہوں کہ ہم سیاست دانوں کی خود غرضیوں سے ایسے سانحوں سے گزر چکے ہیں جب اقتدار کی خاطر ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس لیے یوں کہیں کہ ''دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔''
ہم عمران خان کی چھاچھ بھی پھونکے بغیر نہیں پی سکتے کیونکہ عمران خان سیاست میں اناڑی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کے پاکستانی اور پاکستانیت کے نظریات کس حد تک مستحکم ہیں اور وہ بھی کہیں امریکی اشاروں پر واہگہ کے اس پار تو دیکھنا شروع نہیں کر دیں گے۔ ہمارا ایک جماندرو مسئلہ یہ ہے کہ ہم قوم بننے سے پہلے قومی لیڈر شپ سے محروم ہو گئے اور ملک کے مفادات سے لاپروا سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ گئے جنھوں نے ہماری قومی سوچ ہی بدل دی۔ ان سیاست دانوں کی وجہ سے سانحہ ڈھاکہ سامنے آیا جس نے باقی ماندہ پاکستان کی سوچ ہی بدل دی اور اب بھی کوئی لیڈر بلاتکلف علیحدگی کی بات کہہ دیتا ہے۔
عمران اس پاکستان کا نوجوان ہے جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اور ان زخموں کو لے کر پیدا ہوا ہے اور حالات نے اسے پاکستان میں غیر معمولی اہمیت دے دی ہے۔ وہ آج کی سیاست میں ایک منفی قسم کی ویٹو پاور بھی رکھتا ہے اور مثبت بھی۔ یہ اس قوم کی قسمت ہے کہ اس کا نیا لیڈر کیسا نکلتا ہے۔ کتنا پاکستانی، کتنا ہندوستانی، کتنا امریکی اور کتنا غیر واضح اور نیمے دروں نیمے بروں۔ چنانچہ یہ عمران خان کون ہو گا مجھے ذاتی طور پر عمران سے بہت امیدیں ہیں اگر اس کو بگاڑا نہ گیا تو وہ آج صوبہ خیبرپختون کا حکمران ہونے کے بعد کالا باغ بھی بنا سکتا ہے ورنہ شوکت خانم کینسر اسپتال تو ہے ہی۔