پرویز مشرف پر جوا
اونٹ کسی کروٹ بھی بیٹھے اس کے تمام تر اثرات براہ راست حکومت اور فوج کے ادارے پر مرتب ہوں گے۔
جنرل پرویز مشرف کے نئے وزیراعظم کے تقرر سے قبل ملک سے نکل جانے پر کروڑوں کا سٹہ لگ چکا ہے۔ جواریوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ پرویز مشرف نئے وزیراعظم کے انتخاب سے قبل ہی ملک سے نکل جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ عبوری حکومت کے قیام کے بعد آئے تھے اور اس کے اختتام سے پہلے ہی جلاوطنی کی زندگی میں چلے جائیں گے، اس سلسلے میں وہی عالمی شخصیات اپناکردار ادا کررہی ہیں جو ماضی میں این آر او کی تشکیل کے وقت سرگرم عمل تھیں۔
اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں چونکہ آج تک کسی فوجی کا ٹرائل نہیں ہوا اس لیے ان کا بھی ناممکن ہے کیونکہ ٹرائل سے پوشیدہ راز منظر عام پر آنے کا خدشہ ہے، جس سے ریاستی سطح پر پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، بعض حقائق انتہائی سیکریٹ نوعیت کے ہیں جن کے افشا ہونے سے پاکستان اور غیرملکی طاقتوں کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پرویز مشرف کو دبئی یا لندن لے جانے کے لیے ضروری کارروائی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی، برطانوی، سعودی اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے سفارتی نمائندوں نے اس سلسلے میں پاکستان کے سیاسی و عسکری اداروں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ آرمی چیف بھی نواز شریف سے طویل ملاقات کرچکے ہیں جس میں یہ اہم معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا، عبوری حکومت کے علاوہ آئندہ حکومت کو ان معاملات پر راضی کرنے کے لیے ڈپلومیسی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ساری ڈیلنگ میں آئندہ حکومت کے لیے کچھ مراعات، پیشکشیں اور انکار کی صورت میں بہت سے مصائب اور سختیوں کی وعیدیں بھی شامل ہوں گی۔
ظاہر یہ ہورہا ہے نواز شریف انتخابی مہم کے دوران اور اس سے پہلے طویل عرصے سے اس بات کے حق میں ہیں اور قوم سے وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا حلف اٹھالینے کے بعد یہ ان کی آئینی اور منصبی ذمے داری بن جائے گی اور اس سے اجتناب برتنے پر وہ اور ان کی پارٹی تاحیات آئین سے انحراف اور مک مکاؤ کے طعنوں کا سامنا کرتی رہے گی اور اگر وہ اس معاملے سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کرتے ہیں تو بے پناہ مشکلات اور گمبھیر مسائل سر اٹھائیں گے۔ انھیں بے سروسامانی کے عالم میں بیک وقت معاشی اور سیاسی محاذوں پر تنہا جنگ لڑنا پڑے گی جو بہت مشکل ہدف نظر آتا ہے۔
پی پی پی جو پرویز مشرف کے خلاف اپنی قائد کے قتل کی دعویدار ہے پہلے ہی انھیں گارڈ آف آنر دے کر عزت سے رخصت کرچکی ہے اور ان کے خلاف کارروائی میں کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ دیگر بڑی جماعتیں بھی اس معاملے پر کوئی دو ٹوک موقف اور حکمت عملی ظاہر نہیں کر رہی شاید اس معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ کے وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری غیر رسمی طور پر کہہ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کو ابو سفیان سمجھ کر معاف کردیا جائے۔
ان کی پارٹی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو ملک سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینا ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ان کے وکیل کا تازہ بیان ہے کہ ملک سے باہر نہیں جارہے،مقدمات کا سامنا کریں گے۔ بے نظیر کیس میں پرویز مشرف کی 20 لاکھ روپے کی ضمانت منظور ہوگئی ہے۔ جائے حادثہ دھلوا دینے، پوسٹ مارٹم نہ ہونے، چالان میں تاخیر، ایف آئی آر میں تاخیر، مرنے والوں کے لواحقین یا زخمیوں میں سے کسی کا مدعی نہ ہونے کی وجہ سے اس مقدمے میں ان کی بریتکے امکانات بھی روشن ہیں۔
کمر کسے بیٹھے بگٹیوں کے بگٹی قتل کیس میں بھی ان کے علاوہ تمام ملزمان کی ضمانت ہوچکی ہے، ان کی ضمانت اس ہفتے داخل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس میں بھی مسابقت کے اصول کے تحت ان کے ضمانت پر رہا ہونے کے امکانات ہیں۔ ججز نظر بندی کیس کے مدعی نے مقدمے سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے، اگر رجسٹرار سپریم کورٹ یا کوئی متعلقہ شخص مقدمے کی پیروی نہیں کرتا تو اس میں بھی ان کی جان بخشی کے امکانات ہیں۔
غداری کے کیس میں اگرچہ انھیں مجرم قرار دے دیا گیا ہے صرف سزا دینا باقی ہے، اس سلسلے میں سابقہ اور عبوری حکومتیں تو اپنی عملی معذوری ظاہر کرچکی ہیں بلکہ اس کے راستے میں روڑے اٹکاتی رہی ہیں۔ اب اگر نئی حکومت سے قبل پرویز مشر ف ملک سے نہیں چلے جاتے تو یہ معاملہ نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ سزا کی صورت میں صدر کی جانب سے معافی کا معاملہ بھی قانونی طور پر پیچیدہ ہوجائے گا، صدر جس نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہو وہ آئین کی پامالی کرنے والے شخص کو کس طرح معاف کرسکے گا؟
اونٹ کسی کروٹ بھی بیٹھے اس کے تمام تر اثرات براہ راست حکومت اور فوج کے ادارے پر مرتب ہوں گے۔ پرویز مشرف کے معاملے کے کئی پہلو قابل غور ہیں مثلاً ان کی روانگی کسی ڈیل کے تحت ہوتی ہے تو اس ڈیل میں شریک ممالک اور شخصیات کی اس میں دلچسپی کی وجوہات یا مفادات کیا ہیں؟ ماضی میں بھی انہی قوتوں نے مشاورت اور مداخلت کے ذریعے پاکستانی قوم کو این آر او جیسے سودے دیے جو ملک و قوم کے لیے سود مند ثابت نہ ہوسکے، ٹرائل سے پوشیدہ راز منظرعام پر آنے اور دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہونے اور غیرملکی طاقتوں کے لیے مسائل پیدا ہونے کا مطلب تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پوشیدہ حقائق پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں اور انھیں مخفی رکھ کر ملک و قوم کو دوست اور دشمن کی تمیز سے لاعلم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جہاں تک کسی فوجی شخص کے ٹرائل کی روایت نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس ملک میں تو وزیراعظم کے ٹرائل کی روایت بھی نہیں تھی جو تین منتخب وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر قائم کی اور سزا کو قبول بھی کیا جب کہ دیگر ممالک کے علاوہ ہمارے پڑوسی ممالک سری لنکا اور بنگلہ دیش میں فوجی سربراہان کو سزا دینے کی نظیریں موجود ہیں۔
جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہونے اور خودساختہ بلکہ مفرورانہ جلاوطنی گزارنے سے آج تک ملک وقوم کے لیے مصائب و آلام کا سبب بنے ہوئے ہیں، ان کے بعد آنے والی جمہوری حکومت بھی ملکی دفاع اور تشخص کے بہت سے معاملات میں موقف اختیار کرتی رہی ہے کہ مشرف دوسری طاقتوں کے ساتھ بہت سے معاہدات یا انڈراسٹینڈنگ قائم کرگئے تھے اس لیے ہم مجبور ہیں اس سے انحراف نہیں کرسکتے۔ جلاوطنی کے دوران بھی بہت سے ملکی معاملات میں ان کا رویہ اور بیانات غداری کے زمرے میں آتے ہیں، انھوں نے کشمیر، اسرائیل اور دیگر بین الاقوامی امور پر بھارت، اسرائیل اور امریکا کی زبان اپنائی جس کی وجہ سے اقتدار اور جلاوطنی دونوں حیثیتوں میں وہ بیرون پاکستان مخالف قوتوں کے لیے ہر دلعزیز اور ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں، شاید ان کے کیس میں غیرملکی شخصیات اور اداروں کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہی ہو۔
اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں چونکہ آج تک کسی فوجی کا ٹرائل نہیں ہوا اس لیے ان کا بھی ناممکن ہے کیونکہ ٹرائل سے پوشیدہ راز منظر عام پر آنے کا خدشہ ہے، جس سے ریاستی سطح پر پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، بعض حقائق انتہائی سیکریٹ نوعیت کے ہیں جن کے افشا ہونے سے پاکستان اور غیرملکی طاقتوں کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پرویز مشرف کو دبئی یا لندن لے جانے کے لیے ضروری کارروائی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی، برطانوی، سعودی اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے سفارتی نمائندوں نے اس سلسلے میں پاکستان کے سیاسی و عسکری اداروں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ آرمی چیف بھی نواز شریف سے طویل ملاقات کرچکے ہیں جس میں یہ اہم معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا، عبوری حکومت کے علاوہ آئندہ حکومت کو ان معاملات پر راضی کرنے کے لیے ڈپلومیسی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ساری ڈیلنگ میں آئندہ حکومت کے لیے کچھ مراعات، پیشکشیں اور انکار کی صورت میں بہت سے مصائب اور سختیوں کی وعیدیں بھی شامل ہوں گی۔
ظاہر یہ ہورہا ہے نواز شریف انتخابی مہم کے دوران اور اس سے پہلے طویل عرصے سے اس بات کے حق میں ہیں اور قوم سے وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا حلف اٹھالینے کے بعد یہ ان کی آئینی اور منصبی ذمے داری بن جائے گی اور اس سے اجتناب برتنے پر وہ اور ان کی پارٹی تاحیات آئین سے انحراف اور مک مکاؤ کے طعنوں کا سامنا کرتی رہے گی اور اگر وہ اس معاملے سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کرتے ہیں تو بے پناہ مشکلات اور گمبھیر مسائل سر اٹھائیں گے۔ انھیں بے سروسامانی کے عالم میں بیک وقت معاشی اور سیاسی محاذوں پر تنہا جنگ لڑنا پڑے گی جو بہت مشکل ہدف نظر آتا ہے۔
پی پی پی جو پرویز مشرف کے خلاف اپنی قائد کے قتل کی دعویدار ہے پہلے ہی انھیں گارڈ آف آنر دے کر عزت سے رخصت کرچکی ہے اور ان کے خلاف کارروائی میں کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ دیگر بڑی جماعتیں بھی اس معاملے پر کوئی دو ٹوک موقف اور حکمت عملی ظاہر نہیں کر رہی شاید اس معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ کے وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری غیر رسمی طور پر کہہ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کو ابو سفیان سمجھ کر معاف کردیا جائے۔
ان کی پارٹی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو ملک سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینا ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ان کے وکیل کا تازہ بیان ہے کہ ملک سے باہر نہیں جارہے،مقدمات کا سامنا کریں گے۔ بے نظیر کیس میں پرویز مشرف کی 20 لاکھ روپے کی ضمانت منظور ہوگئی ہے۔ جائے حادثہ دھلوا دینے، پوسٹ مارٹم نہ ہونے، چالان میں تاخیر، ایف آئی آر میں تاخیر، مرنے والوں کے لواحقین یا زخمیوں میں سے کسی کا مدعی نہ ہونے کی وجہ سے اس مقدمے میں ان کی بریتکے امکانات بھی روشن ہیں۔
کمر کسے بیٹھے بگٹیوں کے بگٹی قتل کیس میں بھی ان کے علاوہ تمام ملزمان کی ضمانت ہوچکی ہے، ان کی ضمانت اس ہفتے داخل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس میں بھی مسابقت کے اصول کے تحت ان کے ضمانت پر رہا ہونے کے امکانات ہیں۔ ججز نظر بندی کیس کے مدعی نے مقدمے سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے، اگر رجسٹرار سپریم کورٹ یا کوئی متعلقہ شخص مقدمے کی پیروی نہیں کرتا تو اس میں بھی ان کی جان بخشی کے امکانات ہیں۔
غداری کے کیس میں اگرچہ انھیں مجرم قرار دے دیا گیا ہے صرف سزا دینا باقی ہے، اس سلسلے میں سابقہ اور عبوری حکومتیں تو اپنی عملی معذوری ظاہر کرچکی ہیں بلکہ اس کے راستے میں روڑے اٹکاتی رہی ہیں۔ اب اگر نئی حکومت سے قبل پرویز مشر ف ملک سے نہیں چلے جاتے تو یہ معاملہ نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ سزا کی صورت میں صدر کی جانب سے معافی کا معاملہ بھی قانونی طور پر پیچیدہ ہوجائے گا، صدر جس نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہو وہ آئین کی پامالی کرنے والے شخص کو کس طرح معاف کرسکے گا؟
اونٹ کسی کروٹ بھی بیٹھے اس کے تمام تر اثرات براہ راست حکومت اور فوج کے ادارے پر مرتب ہوں گے۔ پرویز مشرف کے معاملے کے کئی پہلو قابل غور ہیں مثلاً ان کی روانگی کسی ڈیل کے تحت ہوتی ہے تو اس ڈیل میں شریک ممالک اور شخصیات کی اس میں دلچسپی کی وجوہات یا مفادات کیا ہیں؟ ماضی میں بھی انہی قوتوں نے مشاورت اور مداخلت کے ذریعے پاکستانی قوم کو این آر او جیسے سودے دیے جو ملک و قوم کے لیے سود مند ثابت نہ ہوسکے، ٹرائل سے پوشیدہ راز منظرعام پر آنے اور دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہونے اور غیرملکی طاقتوں کے لیے مسائل پیدا ہونے کا مطلب تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پوشیدہ حقائق پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں اور انھیں مخفی رکھ کر ملک و قوم کو دوست اور دشمن کی تمیز سے لاعلم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جہاں تک کسی فوجی شخص کے ٹرائل کی روایت نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس ملک میں تو وزیراعظم کے ٹرائل کی روایت بھی نہیں تھی جو تین منتخب وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر قائم کی اور سزا کو قبول بھی کیا جب کہ دیگر ممالک کے علاوہ ہمارے پڑوسی ممالک سری لنکا اور بنگلہ دیش میں فوجی سربراہان کو سزا دینے کی نظیریں موجود ہیں۔
جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہونے اور خودساختہ بلکہ مفرورانہ جلاوطنی گزارنے سے آج تک ملک وقوم کے لیے مصائب و آلام کا سبب بنے ہوئے ہیں، ان کے بعد آنے والی جمہوری حکومت بھی ملکی دفاع اور تشخص کے بہت سے معاملات میں موقف اختیار کرتی رہی ہے کہ مشرف دوسری طاقتوں کے ساتھ بہت سے معاہدات یا انڈراسٹینڈنگ قائم کرگئے تھے اس لیے ہم مجبور ہیں اس سے انحراف نہیں کرسکتے۔ جلاوطنی کے دوران بھی بہت سے ملکی معاملات میں ان کا رویہ اور بیانات غداری کے زمرے میں آتے ہیں، انھوں نے کشمیر، اسرائیل اور دیگر بین الاقوامی امور پر بھارت، اسرائیل اور امریکا کی زبان اپنائی جس کی وجہ سے اقتدار اور جلاوطنی دونوں حیثیتوں میں وہ بیرون پاکستان مخالف قوتوں کے لیے ہر دلعزیز اور ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں، شاید ان کے کیس میں غیرملکی شخصیات اور اداروں کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہی ہو۔