امپائر کی انگلی اٹھ گئی

قانون الٰہی میں دیر تو ہے مگر اندھیر نہ ہوئی اور چند برس کے اندر ہی عوام کی اجتماعی انگلیاں اٹھ گئیں۔

anisbaqar@hotmail.com

اسلام آباد کی سرد ہواؤں اور تیز بارش میں کنٹینر پر سوار دو لیڈران حکمرانوں کو مسلسل متنبہ کر رہے تھے کہ کرپشن لاقانونیت کو طوالت نہ دو کہ قانون قدرت حرکت میں آجائے۔ ابھی اتنا عرصہ بھی نہ ہوا کہ آپ ان لیڈروں کے اسمائے گرامی بھول بیٹھے ہوں۔ ایک تو علامہ طاہر القادری اور دوسرے عمران خان تھے جن کا کہنا تھا کہ اندھیر اتنا نہ کرو کہ (Unpire) ایمپائر (کرکٹ کا سرپنچ) کھیل میں اپنی انگلی اٹھا دے۔ قانون الٰہی میں دیر تو ہے مگر اندھیر نہ ہوئی اور چند برس کے اندر ہی عوام کی اجتماعی انگلیاں اٹھ گئیں۔

یہ پیش گوئی موجودہ وزیراعظم کی تھی۔ مانا کہ اسمبلی میں ان کی تعداد دو تہائی نہیں مگر پوزیشن بڑی مضبوط ہے۔ اس الیکشن میں شکست کھانے والے انتخاب کو فاؤل پلے (Foul Play) دھاندلی سے تعبیر کر رہے ہیں مگر ان کی اجتماعی قوت صفر ہے۔

ایسے ہی ایک موقعے پر پاکستان کے ماضی کے ایک بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی نے کہا تھا کہ صفر جمع سیکڑوں صفرکا نتیجہ صفر اور اگر ضرب دینے کی کوشش کی تو مکمل صفر کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ عمران خان کی وزارتی تقدیر میں جن امور پر گفتگو کی گئی ہے اس کا وژن اتنا وسیع ہے کہ اس تقریر نے اسمبلی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ تو نہ کیا مگر اسٹریٹ پاورکو دگنا کردیا ہے۔

پاکستان قرضوں کے جس بوجھ تلے دبا جا رہا ہے ، اس سے اس کی آزادی صلب ہونے کا اندیشہ تھا۔ ڈر یہ تھا مگر نئی قیادت نے ابھی قدم نہ بڑھائے تھے مگر معیشت کی گاڑی نے ریورس گیئر لگانے شروع کردیے یہ عمران خان کی ذاتی دیانت داری اور وقار کے پیمانے تھے اور دنیا کے بڑے مدبروں اور رہنماؤں نے ان کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا اور روس نے اسٹیل مل (steel Mill) کے احیا کا وعدہ کیا۔

عمران خان نے اپنی وزارتی تقریر میں لگژری گاڑیوں کے استعمال پر اور پٹرول بے جا استعمال کا تذکرہ سرعام کیا۔ امید ہے کہ امپورٹ کی کمی اور ایکسپورٹ کی بہتری پر وہ ضرور توجہ دیںگے جس کا عندیہ انھوں نے دیا ہے۔ اصراف بے جا پر اخراجات ہورہے ہیں اور بہت سے لوگ جو معیار زندگی مزید بلند کرتے عمران خان کی نظریاتی فوج میں داخل ہوئے ہیں۔ یقینا اکثریت ان لوگوں کی ہرگز زیادہ نہ ہوگی ان کو اس تقریر سے کوئی خوشی نہ ہوگی۔ کیونکہ ترقیاتی فنڈ کو بلدیاتی اداروں کا حق دار قرار دینا اچھا قدم ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں آنحضرتؐ کے اس ارشاد گرامی کو واشگاف الفاظ میں ادا کیا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ گویا پاک و صاف معاشرہ نصف ایمان کی علامت ہے۔


گزشتہ سال بھر کراچی شہر جس گندگی کا شکار رہا ہے شاید ہی دنیا میں اتنے بڑے پورٹ سٹی میں اتنی بدبودار راہوں سے گزرنا پڑا ہو۔ شہر سے میونسپلٹی کی تمام ذمے داریاں ختم ہوچکی تھیں اور پانی کی کمی اورگٹروں کا بند ہونا، بسیں نہ ہونا، یہ کراچی کے عوام کی قسمت تھی۔ اسی لیے اس شہر نے عمران خان کو اس امید پر ووٹ دیا کہ وہ ووٹوں کی حرمت سے واقف ہیں۔ کراچی پاکستان کا واحد بد قسمت شہر ہے جو سرکاری خزانے میں سب سے زیادہ رقم جمع کراتا ہے مگر اس کو دو قسم کے نسلی تعصب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

گورنمنٹ نوکریاں کراچی کے لیے بند ہیں۔ لہٰذا عمران خان نے میرٹ کو اپنا اصول قرار دیا ہے اس طرح گو کہ صوبائی حکومت میں نہ سہی مگر مرکز میں محدود ملازمتوں کے دروازے تو کھل گئے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان کے بعد صوبائی سطح پر کوئی بھی عوامی لیڈر نہیں اور خصوصاً کراچی میں عوام نے محض عمران خان کو ووٹ دیا اور ماضی میں بھی آج سے پانچ سال قبل بھی لوگوں نے مقامی سطح پر خود عمران خان کو ووٹ ڈالے تھے اور آج بھی کراچی کی سطح پرکوئی بھی عوامی لیڈر نہیں، مانا کہ عامر لیاقت حسین کو جو پارٹی بدلنے میں عجلت پسند ہیں پھر بھی ایک حلقہ متوسط اور پڑھے لکھے اعتدال پسند لوگوں کا بھی ان کے معترف ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان کو سیکنڈ ان کمانڈ (Second in Command) مقررکرنے کی ضرورت ہے جب کہ ایسا شخص جو عام لوگوں میں سے ہو نہ کہ انتہائی دولت مند جو بظاہر عوام دوست بنا ہوا ہو۔ البتہ ایسا شخص چالباز ملکی لیڈروں کے لیے ضروری ہے۔ جہاں عقل و فکر نہیں دولت اہم جز ہوتی ہے۔

بہر حال عمران خان نے دولت کی مسابقت کی دوڑ کو روک کر ملک میں نیا ڈھانچہ متعارف کرایا ہے۔ ایسا جوکہ یہاں کے مولوی حضرات مقرر نہ کرسکے، جو خلفا کا اندازِ حکمرانی تھی۔ اسراف بے جا سے پرہیز، اسی لیے انھوں نے اسلامی حکومت کے دو خلفا کا تذکرہ کیا ہے جس کو علامہ نے یوں بیان کیا ہے کہ لوگ آسان سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے یہ تو شہادت نفس ہے اسی طریقۂ کار کو روک کر وزیر اعظم نے اربوں روپیہ کو بچانے کا راستہ نکالا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر عشرت حسین کو دوبارہ فعال کرکے ملک کو ایک اعلیٰ تحفہ دیا ہے تاکہ مملکت کے معاشی ستون مستحکم ہوجائیں اور ساتھ ہی ساتھ غیر ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان کو پاکستان کا شہری معظم بنادیں، اس لیے پاکستان میں ڈالر، پونڈ، اسٹرلنگ، روبل، درہم، دینار کی آمد میں سرعت آ جائے۔

البتہ عمران خان نے اپنی اسی تقریر میں یہ کہاکہ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کل 8 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے وہ بھی اس لیے کہ آدھی آبادی تقریباً خواتین اور پھر 15 سال والے بچوں سے کم عمر لوگوں کی ہے اور حکومت نے دال، آٹے اور دیگر چیزوں پر بھی سیلز ٹیکس عاید کر رکھا ہے اور جو ٹیکس لگایا گیا ہے وہ بھی معاشی طور پر مستحکم لوگ ٹیکس سے بچنے کے لیے انکم ٹیکس کے وکلا کی خدمات لے کر کم سے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ رہ گئے حکومتی ملازمین اور پرائیویٹ کمپنیوں والے لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور جب سے تھرڈ پارٹی ملازمت کا دور شروع ہوا ہے اس نے بھی ملکی معیشت پر بڑی ضرب لگائی ہے۔ اس لیے ملکی اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ملک کی قسمت بن گئی ہے۔

اس لیے 25.50 فی صد ٹیکس کا خنجر عوام کی پیٹ میں سے نکال لیا جائے اور ٹیکس کا عادلانہ اور اعتدال پسند نظام رائج کیا جائے تاکہ 8 لاکھ ٹیکس دہندگان کی تعداد 80 لاکھ ہو جائے لہٰذا نظام ٹیکس میں اصلاحات کی ضرورت ہے جو حقیقی ہو تاکہ عوام خوشی سے اس کو ادا کریں۔ عمران خان نے اپنی اس تقریر میں ایک ہزار ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا تذکرہ کیا ہے جو غربت کا بہت بڑا سبب ہے اور پوری کی پوری تقریر نہایت جامع ہے جس نے عام آدمیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ محکمہ تعلیم کو پلوشن کی روک تھام کا تذکرہ بھی ہے اور درخت لگانے کا عزم بھی، مگر یہ زیادہ اچھا ہوتاکہ مقامی درختوں سے ملک کو مرصع کیا جائے۔

تمام باتیں با اثر ہیں مگر ان پر عمل کرانے والی قوت کی ضرورت ہے اور دو باتیں جو غالباً وقت کی کمی کے باعث رہ گئیں یا کسی اور وقت کے لیے چھوڑدیا گیا وہ ہے لینڈ ریفارم اور لینڈ رفارم (Land Refarm) تاکہ زراعت اور مشین کے پیداواری عمل میں توازن پیدا ہو اور کسانوں کی قسمت بھی بدلے۔ یہ باتیں کنٹینر پر جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے کی تھیں اب تو عوامی ایمپائروں نے فتح کی انگلی اٹھادی ہے تو امید ہے کہ جلد یا بدیر ان کا بھی وقت آئے گا اور آخر میں صاحب قلم کی انجمنوں کی آرا کا احترام اور ان کا مقام۔
Load Next Story