ایک بے نوا مرحوم صحافی کے نام
رفیق غوری صاحب لاہورکی صحافت اور مجلسی زندگی کا منفرد کردار تھے۔
دوسال پہلے مون سون کے انھی دنوں جیساایک دن تھا۔ نجم الحسن عارف کا ایس ایم ایس ملاکہ رفیق غوری صاحب علی الصباح اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے ہیں۔ ایک جھٹکا سا تو لگا۔ پچھلے چند برسوں میں جب بھی ان کو کہیں دیکھا، وہ ایک ایسا ٹمٹماتا ہوا چراغ لگے۔دیکھنے کو اب بھی وہ چلتے پھرتے اور ہنستے بولتے تھے، لیکن وہ جو زندگی کی ایک خوش رنگ امنگ ہوتی ہے، اب ان کے اندر ہی اندر کہیں ڈوبتی محسوس ہوتی تھی۔
رفیق غوری صاحب لاہورکی صحافت اور مجلسی زندگی کا منفرد کردار تھے، یہ یاد کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کب کہاں اور کس کے توسط سے ان کے ساتھ پہلی بار ملناہوا ، وہ چک جھمرہ فیصل آباد کے گاوں رنیکے سے کب اور کیسے لاہور پہنچے اور یہاں ابتدائی طور پرکس طرح کے حالات سے گزرے، اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ انھوں نے ہی کسی وقت بتایا تھا کہ ان کے والد گاوں میں اسکول ٹیچر تھے اور ان کو بھی اسکول ٹیچر ہی بنانا چاہتے تھے؛ مگر ان پر لاہور میں آ کر زندگی کرنے اور کچھ کر گزرنے کی دھن سوار تھی۔ دورافتادہ دیہات میں رہنے والوں کے لیے لاہور اس زمانے میں ویسے بھی خوبصورت خوابوں کا شہر تھا۔ مگر لاہور پہنچے تو یہاں رہنے کیا، رات کو سونے تک کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
سونے کے لیے مکی مسجد کے آس پاس ایک جگہ مل گئی۔ تعلیم اتنی تھی نہیں کہ فوری طور پر ڈھنگ کی کوئی نوکری مل سکتی۔چنانچہ 'الکاسب حبیب اللہ' کا نعرہ لگا کر مزدوی شروع کر دی۔ ایک روز پھرتے پھراتے گلوکارہ نورجہاں کے گھر میں نوکری مل گئی۔ یہ ان کی پہلی نوکری تھی۔ مگر بقول ان کے چند ہی گھنٹوںکے بعد وہ یہ نوکری ایک اور ضرورت منددوست کی نذر کرکے پھرسے مزدوری میں جُت گئے۔
باپ کو بیٹے کا یہ احوال معلوم ہوا تو شفقت پدری کو گوارا نہ ہوا۔ بھاگم بھاگ لاہور پہنچااور کسی نہ کسی طرح باغی بیٹے کو راضی کرکے واپس گاؤں لے گیا۔گاوں سے مگر اب رفیق غوری کا جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے سامنے مگر ایک واضح مقصد بھی تھا کہ وہ صحافی بنیں گے۔ قسمت نے یاوری کی۔ وہ ہفت روزہ ' چٹان' کے دفتر پہنچ گئے۔اس کے بانی اور ایڈیٹر شورش کاشمیری کے نام اور کام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ میکلوڈ روڈ پر چٹان بلڈنگ میں ان کو سر چھپانے کی جگہ بھی مل گئی۔ شورش کاشمیری کو وہ اپنا محسن قرار دیتے تھے، اوران کے بعد اگر وہ کسی کی پرواہ کرتے تھے تو وہ مجید نظامی تھے۔
رفیق غوری صاحب نے 'چٹان' کے بعد مختلف اخباری اداروں میں کام کیا، جن میں 'نوائے وقت' جیسا موقر ادارہ بھی شامل ہے، لیکن افتاد طبع کچھ ایسی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادہ دیر ان کی نبھ نہ سکتی تھی۔اس مشکل کا حل انھوں نے یہ ڈھونڈا کہ اپنا اخبار نکالا جائے۔ اس زمانے میںاخبار نکالنا اور چلانا جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ رفیق غوری کے دل میں فرہاد کے جیسا جنون تو تھا مگر جیب یکسر خالی تھی۔ مگر وہ جو شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ 'چٹان آئے گا اور ضرور آئے گا۔ جنرل ضیاالحق کے وہ بے انتہا معتقد تھے، بلکہ ان کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھیگ ہو جاتی تھیں۔
اس زمانہ میںانھی کے انداز کی کھلے گلے والی نیلے رنگ کی واسکٹ پہنتے تھے۔گٹھا ہوا بدن، سانولی رنگت، سر پرگھنے سیاہ اور سفید بال، گلے میں ڈوری سے بندھا ہوا آنکھوں کا چشمہ اور منہ میں سلگتا ہوااور دھواںاور مہک بکھیرتا ہوا پائپ، سردیوں میں جب وہ لمبا اوورکوٹ بھی پہن لیتے تو بالکل کسی روسی ناول کا کردار معلوم ہوتے تھے۔ میں ایک بار یہاں ان سے ملنے گیا تو بڑی شفقت سے ملے۔
وہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ سینیٹ کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ اس ملاقات کی بس ایک بات یاد رہ گئی ہے۔کہنے لگے، میں نے صحافت میں بڑے برے دن دیکھے ہیں، لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے کچھ بچے یا نہ بچے، میرے اخبار میں تنخواہ سب کو مہینہ کی پہلی کی پہلی ملے گی۔ ان کی زندگی کا یہی وہ مختصر سا دور ہے، جب مالی طور پر ان کو قدرے بہتر حالت میں دیکھا۔ مگر یہ دن جلد ہی ہوا ہو گئے۔' آواز خلق' نہ چل سکا اور ڈوبتے ڈوبتے ان کو بھی اس طرح ڈبو گیا کہ پھرابھر نہ سکے۔ دفتر کے کرایہ میں اس کا فرنیچر بھی بلڈنگ مالک کے قبضہ میں چلا گیا۔اس ناکام تجربہ کے بعد جی این این کے نام سے ایک نیوز ایجنسی بنائی، لیکن یہ تجربہ بھی اندوہ ناک ثابت ہوا۔
ہفت روزہ ' زندگی' کے دنوں میں میری نوجوان صحافی نجم الحسن عارف سے دوستی ہو گئی۔ بہت ہی محنتی، متین اور فرض شناس صحافی ہیں۔ایک روز غوری صاحب کی عیادت کے لیے ان کے مکان واقع کرشن نگر گیا، تو وہ بھی وہاں موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ ان سگے بھائی ہیں۔ یوں غوری صاحب سے وابستگی مزید گہری ہوگئی۔ وہ ان دنوں کس اخباری ادارے سے منسلک تھے، یہ تو پتہ نہیں مگر لاہور پریس کلب کے کسی نہ کسی فنکشن یا پریس کانفرنس میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ غوری صاحب چونکہ سرتاپا مجلسی آدمی تھے، لہذا سر شام کہیں نہ کہیں ان کی مجلس بھی برپا ہونا ہوتی تھی۔
اس کے لیے کوئی نہ کوئی ٹھکانہ ان کو مل ہی جاتا تھا۔ یہ ٹھکانے مگر وقت، کے اتار چڑھاو کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔آج آواری ہوٹل مال روڈ کی لابی میں ڈیرہ ہے تو کل شیزان ہوٹل دیال سنگھ مینشن میں مسکن ہے۔ کبھی دفتر بزنس ریکارڈر ٹمپل روڈ میں مجلس جمی ہے تو کبھی صادق مینشن میں محفل سجائے بیٹھے ہیں۔
اس طرح کا آخری ٹھکانہ واپڈا ہاوس میں پی آر اوکا دفتر تھا، مگر یہاں ان کو سہ پہر تک محفل برخاست کرنا پڑتی تھی۔ اس کالم نگارکو ان سب ٹھکانوں میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ان دنوں میں مالی طور پر غوری صاحب کو ہمیشہ تنگی ترشی میں دیکھا،مگر وہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ بلکہ اس حال میں بھی اگر کسی روز ان کے پاس پانچ سو بھی کہیں سے اکٹھے آگئے ہیں تو جہاں بھی بیٹھے ہوتے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے کہ آج سب آواری میں جا کر چائے پئیں گے۔ دوست لاکھ سمجھاتے کہ یہ رقم آپ گھر لے جائیں مگرگاہے اس طرح بھی آواری ہوٹل سے اٹھتے کہ گھر واپسی کا کرایہ بھی باقی نہیں بچتا تھا۔
رفیق غوری صاحب سے آخری ملاقاتیں ٹمپل روڈ پر واقع روزنامہ ''اساس'' کے دفتر میں ہوئیں۔ وہ اس کے ایڈیڑ بن چکے تھے۔ یہیں ان کی زبانی معلوم ہوا کہ کچھ سال پہلے ان کو برین ہیمرج ہوا، جس کے مہلک اثرات ابھی تک ان کے جسم وروح پر باقی ہیں۔ بولتے بولتے اچانک وہ کہیں کھو جاتے تھے۔ یہیں ایک ملاقات میں مجھے یاد ہے انھوں نے پہلی بارکچھ ایسی محبت سے اپنے باپ کاتذکرہ کیا کہ ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پھروہ لاہور آ گئے، جہاں اب ان کے بیوی بچے ہیں،مگر اتنی طویل اور سخت مسافرت کے بعد بھی انھوں نے اپنے بچوں کو کیا دیا، ایک اپنا گھر بھی نہیں۔یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔غربت، حسرت اور بے سروسامانی کے تکلیف دہ احساس سے ان کی آواز رندھ گئی۔
میں چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھتا جاتا تھااور سوچتا جاتا تھا کہ یہ وہ رفیق غوری صاحب تو نہیں، جن کو میں نے بہت سال پہلے 'آواز خلق' کے دفتر میں بے حد مسرور پایا تھا، جن کو آواری ہوٹل اور شیزان ریسٹورنٹ میں قہقہے لگاتے، بے تکان بولتے، پائپ کا دھواں اڑاتے اور چٹکلے چھوڑتے دیکھا تھا۔ ان کو اس طرح کی باتیں کرتا دیکھ کر میں کچھ پریشان ہو گیا۔چند روز بعد دوبارہ ان کی خیریت دریافت کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ دفتر چھوڑچکے ہیں۔ بعد میں نجم الحسن نے بتایا کہ آج کل چوبرجی کے آس پاس کسی کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اور علالت کی وجہ بہت کم باہر نکلتے ہیں۔ وقت کتنی تیزی سے بیت جاتا ہے، آج ان کی یاد میں یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں، تو ان کی دوسری برسی ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ مجید امجد صاحب نے کہا تھا ،
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
رفیق غوری صاحب لاہورکی صحافت اور مجلسی زندگی کا منفرد کردار تھے، یہ یاد کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کب کہاں اور کس کے توسط سے ان کے ساتھ پہلی بار ملناہوا ، وہ چک جھمرہ فیصل آباد کے گاوں رنیکے سے کب اور کیسے لاہور پہنچے اور یہاں ابتدائی طور پرکس طرح کے حالات سے گزرے، اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ انھوں نے ہی کسی وقت بتایا تھا کہ ان کے والد گاوں میں اسکول ٹیچر تھے اور ان کو بھی اسکول ٹیچر ہی بنانا چاہتے تھے؛ مگر ان پر لاہور میں آ کر زندگی کرنے اور کچھ کر گزرنے کی دھن سوار تھی۔ دورافتادہ دیہات میں رہنے والوں کے لیے لاہور اس زمانے میں ویسے بھی خوبصورت خوابوں کا شہر تھا۔ مگر لاہور پہنچے تو یہاں رہنے کیا، رات کو سونے تک کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
سونے کے لیے مکی مسجد کے آس پاس ایک جگہ مل گئی۔ تعلیم اتنی تھی نہیں کہ فوری طور پر ڈھنگ کی کوئی نوکری مل سکتی۔چنانچہ 'الکاسب حبیب اللہ' کا نعرہ لگا کر مزدوی شروع کر دی۔ ایک روز پھرتے پھراتے گلوکارہ نورجہاں کے گھر میں نوکری مل گئی۔ یہ ان کی پہلی نوکری تھی۔ مگر بقول ان کے چند ہی گھنٹوںکے بعد وہ یہ نوکری ایک اور ضرورت منددوست کی نذر کرکے پھرسے مزدوری میں جُت گئے۔
باپ کو بیٹے کا یہ احوال معلوم ہوا تو شفقت پدری کو گوارا نہ ہوا۔ بھاگم بھاگ لاہور پہنچااور کسی نہ کسی طرح باغی بیٹے کو راضی کرکے واپس گاؤں لے گیا۔گاوں سے مگر اب رفیق غوری کا جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے سامنے مگر ایک واضح مقصد بھی تھا کہ وہ صحافی بنیں گے۔ قسمت نے یاوری کی۔ وہ ہفت روزہ ' چٹان' کے دفتر پہنچ گئے۔اس کے بانی اور ایڈیٹر شورش کاشمیری کے نام اور کام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ میکلوڈ روڈ پر چٹان بلڈنگ میں ان کو سر چھپانے کی جگہ بھی مل گئی۔ شورش کاشمیری کو وہ اپنا محسن قرار دیتے تھے، اوران کے بعد اگر وہ کسی کی پرواہ کرتے تھے تو وہ مجید نظامی تھے۔
رفیق غوری صاحب نے 'چٹان' کے بعد مختلف اخباری اداروں میں کام کیا، جن میں 'نوائے وقت' جیسا موقر ادارہ بھی شامل ہے، لیکن افتاد طبع کچھ ایسی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادہ دیر ان کی نبھ نہ سکتی تھی۔اس مشکل کا حل انھوں نے یہ ڈھونڈا کہ اپنا اخبار نکالا جائے۔ اس زمانے میںاخبار نکالنا اور چلانا جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ رفیق غوری کے دل میں فرہاد کے جیسا جنون تو تھا مگر جیب یکسر خالی تھی۔ مگر وہ جو شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ 'چٹان آئے گا اور ضرور آئے گا۔ جنرل ضیاالحق کے وہ بے انتہا معتقد تھے، بلکہ ان کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھیگ ہو جاتی تھیں۔
اس زمانہ میںانھی کے انداز کی کھلے گلے والی نیلے رنگ کی واسکٹ پہنتے تھے۔گٹھا ہوا بدن، سانولی رنگت، سر پرگھنے سیاہ اور سفید بال، گلے میں ڈوری سے بندھا ہوا آنکھوں کا چشمہ اور منہ میں سلگتا ہوااور دھواںاور مہک بکھیرتا ہوا پائپ، سردیوں میں جب وہ لمبا اوورکوٹ بھی پہن لیتے تو بالکل کسی روسی ناول کا کردار معلوم ہوتے تھے۔ میں ایک بار یہاں ان سے ملنے گیا تو بڑی شفقت سے ملے۔
وہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ سینیٹ کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ اس ملاقات کی بس ایک بات یاد رہ گئی ہے۔کہنے لگے، میں نے صحافت میں بڑے برے دن دیکھے ہیں، لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے کچھ بچے یا نہ بچے، میرے اخبار میں تنخواہ سب کو مہینہ کی پہلی کی پہلی ملے گی۔ ان کی زندگی کا یہی وہ مختصر سا دور ہے، جب مالی طور پر ان کو قدرے بہتر حالت میں دیکھا۔ مگر یہ دن جلد ہی ہوا ہو گئے۔' آواز خلق' نہ چل سکا اور ڈوبتے ڈوبتے ان کو بھی اس طرح ڈبو گیا کہ پھرابھر نہ سکے۔ دفتر کے کرایہ میں اس کا فرنیچر بھی بلڈنگ مالک کے قبضہ میں چلا گیا۔اس ناکام تجربہ کے بعد جی این این کے نام سے ایک نیوز ایجنسی بنائی، لیکن یہ تجربہ بھی اندوہ ناک ثابت ہوا۔
ہفت روزہ ' زندگی' کے دنوں میں میری نوجوان صحافی نجم الحسن عارف سے دوستی ہو گئی۔ بہت ہی محنتی، متین اور فرض شناس صحافی ہیں۔ایک روز غوری صاحب کی عیادت کے لیے ان کے مکان واقع کرشن نگر گیا، تو وہ بھی وہاں موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ ان سگے بھائی ہیں۔ یوں غوری صاحب سے وابستگی مزید گہری ہوگئی۔ وہ ان دنوں کس اخباری ادارے سے منسلک تھے، یہ تو پتہ نہیں مگر لاہور پریس کلب کے کسی نہ کسی فنکشن یا پریس کانفرنس میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ غوری صاحب چونکہ سرتاپا مجلسی آدمی تھے، لہذا سر شام کہیں نہ کہیں ان کی مجلس بھی برپا ہونا ہوتی تھی۔
اس کے لیے کوئی نہ کوئی ٹھکانہ ان کو مل ہی جاتا تھا۔ یہ ٹھکانے مگر وقت، کے اتار چڑھاو کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔آج آواری ہوٹل مال روڈ کی لابی میں ڈیرہ ہے تو کل شیزان ہوٹل دیال سنگھ مینشن میں مسکن ہے۔ کبھی دفتر بزنس ریکارڈر ٹمپل روڈ میں مجلس جمی ہے تو کبھی صادق مینشن میں محفل سجائے بیٹھے ہیں۔
اس طرح کا آخری ٹھکانہ واپڈا ہاوس میں پی آر اوکا دفتر تھا، مگر یہاں ان کو سہ پہر تک محفل برخاست کرنا پڑتی تھی۔ اس کالم نگارکو ان سب ٹھکانوں میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ان دنوں میں مالی طور پر غوری صاحب کو ہمیشہ تنگی ترشی میں دیکھا،مگر وہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ بلکہ اس حال میں بھی اگر کسی روز ان کے پاس پانچ سو بھی کہیں سے اکٹھے آگئے ہیں تو جہاں بھی بیٹھے ہوتے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے کہ آج سب آواری میں جا کر چائے پئیں گے۔ دوست لاکھ سمجھاتے کہ یہ رقم آپ گھر لے جائیں مگرگاہے اس طرح بھی آواری ہوٹل سے اٹھتے کہ گھر واپسی کا کرایہ بھی باقی نہیں بچتا تھا۔
رفیق غوری صاحب سے آخری ملاقاتیں ٹمپل روڈ پر واقع روزنامہ ''اساس'' کے دفتر میں ہوئیں۔ وہ اس کے ایڈیڑ بن چکے تھے۔ یہیں ان کی زبانی معلوم ہوا کہ کچھ سال پہلے ان کو برین ہیمرج ہوا، جس کے مہلک اثرات ابھی تک ان کے جسم وروح پر باقی ہیں۔ بولتے بولتے اچانک وہ کہیں کھو جاتے تھے۔ یہیں ایک ملاقات میں مجھے یاد ہے انھوں نے پہلی بارکچھ ایسی محبت سے اپنے باپ کاتذکرہ کیا کہ ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پھروہ لاہور آ گئے، جہاں اب ان کے بیوی بچے ہیں،مگر اتنی طویل اور سخت مسافرت کے بعد بھی انھوں نے اپنے بچوں کو کیا دیا، ایک اپنا گھر بھی نہیں۔یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔غربت، حسرت اور بے سروسامانی کے تکلیف دہ احساس سے ان کی آواز رندھ گئی۔
میں چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھتا جاتا تھااور سوچتا جاتا تھا کہ یہ وہ رفیق غوری صاحب تو نہیں، جن کو میں نے بہت سال پہلے 'آواز خلق' کے دفتر میں بے حد مسرور پایا تھا، جن کو آواری ہوٹل اور شیزان ریسٹورنٹ میں قہقہے لگاتے، بے تکان بولتے، پائپ کا دھواں اڑاتے اور چٹکلے چھوڑتے دیکھا تھا۔ ان کو اس طرح کی باتیں کرتا دیکھ کر میں کچھ پریشان ہو گیا۔چند روز بعد دوبارہ ان کی خیریت دریافت کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ دفتر چھوڑچکے ہیں۔ بعد میں نجم الحسن نے بتایا کہ آج کل چوبرجی کے آس پاس کسی کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اور علالت کی وجہ بہت کم باہر نکلتے ہیں۔ وقت کتنی تیزی سے بیت جاتا ہے، آج ان کی یاد میں یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں، تو ان کی دوسری برسی ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ مجید امجد صاحب نے کہا تھا ،
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا