وحی کی حقیقت اور ضرورت

ہر مخلوق پر اللہ تعالیٰ نے فطری الہام اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

وحی کے لغوی معانی اشارہ (سریع وخفی) کرنا، دل میں چپکے سے کوئی بات ڈالنا، خفیہ طریقے سے کوئی بات کہنا ، حکم دینا یا پیغام بھیجنا وغیرہ ہیں ۔ وحی کا دائرہ کار بہت ہی وسیع ہے اس کے مفہوم اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو سمجھنے میں آسانی ہوگی یعنی (i)وحی فطرت (ii)وحی نبوت۔

(الف)وحی فطرت: اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ایسے لطیف پیرایہ میں تعلیم دیتا ہے کہ ظاہراً کوئی معلم اورکوئی متعلم نظر نہیں آتا۔ اس لیے قرآن میں وحی کو القا اور الہام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ نے ہر چیزکو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا اور پھر اس کو ایک خاص ہدایت عطا کی۔ ہر مخلوق پر اللہ تعالیٰ نے فطری الہام اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے۔ ہر چیز اپنی اپنی فطری تعلیم کی دھن میں مگن ہے۔ ہر چیز وہی اور اتنی ہی حد تک کام کرتی ہے۔ جیسی اور جتنی اسے وحی کردی گئی ہے۔ آسمان پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام کام کرتا ہے۔

فرمان الٰہی ہے ''اور آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا گیا'' زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اپنی کہانی اپنی زبانی سنانے لگے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے تحت وہ کام انجام دیتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے ''اور وہ وقت جب کہ تمہارا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں'' شہد کی مکھی پر بھی وحی ہوتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے ''اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنا''

غرض یہ کہ کل کائنات، وحیِ فطرت کی پنجۂ قدرت میں ہے ''ہوجا ! ہوجانا'' وحی فطرت کا خاصہ اور خلاصہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر چیز کی اصل الگ الگ ہے۔ جس کی نقل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔بیا جیسا گھونسلا جسے دیکھتے ہی دیکھتے رہ جانا تو ممکن ہے لیکن دوسری قسم کی چڑیا کا ویسا ہی جیسا بنانا ناممکن۔ شہد کی مکھی کا ایک خاص نظم و ضبط کے اصول کے تحت چھتا بنانا،کسی اور مکھی کی بس کی بات نہیں۔ سورج مکھی کا سورج کے ساتھ ساتھ اپنا رخ بدلتا رہنا تو ممکن ہے لیکن کسی اورکی طرف اپنا رخ بدلنا ناممکن۔ ہر چیز وحی فطرت کے عین مطابق بنتی، ایک خاص راستہ پر چلتی، ایک خاص شکل اختیارکرتی اور ایک خاص حد تک بڑھتی ہے۔ اللہ کی سنت کی مخالف سمت میں کوئی چیز حرکت نہیں کرسکتی۔

(ب)وحی نبوت: سنت متواترہ ہے۔ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور ان پر رحمت کا انتظام خاص ہے۔ یہ سلسلہ یوں تو بڑا طویل ہے۔ اس کے آغاز و انجام کی تو خبر ہے مگر اس کی درمیانی راہوں اور گزرگاہوں میں سے کچھ تو معلوم ہیں اور بہت سی نامعلوم۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ کوئی بستی اس ابرِ کرم سے ترستی نہیں رہی۔ حسب ضرورت اور استطاعت کے مطابق کہیں نم نم، کہیں قُم قُم، کہیں کم کم برسا ضرور۔ مگر آخر میں مکہ و مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں کھل کر، جم کر، برس کر، ختم ہوگیا۔ وحی نبوت کبھی فانی وقتی، عارضی، جزوی، محدود زمانی و مکانی رہی جیسے وحی ابراہیمی ؑ، وحی داؤدی ؑ، وحی موسیٰ ؑ، وحی عیسیٰ ؑ اور آخر میں دائمی، عالمی، آفاقی، ابدی، لافانی محیط کل زندگانی بن گئی جیسے وحی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم۔

وحی اللہ تعالیٰ کی عنایت، رحمت اور عشق کی دین ہے۔ جسے ریاضت، محنت اور عشق سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نوازش عطا اور بخشش ہے جسے کاوش دعا اور خواہش سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وحی بہ صورتِ قرآن غیبی ذریعہ علم و احکام اور معجزانہ کلام ہے۔ نوع انسانی کی فلاح دنیوی و اخروی زندگی کے لیے پیغام سرمدی ہے، وحی کی حقیقت روحانی ہے وہ ایک سفیر مرئی، غیر حسی، معروضی اور غیبی ذریعہ علم ہے۔ جس میں نبی کی نفسی، حواسی، عقلی وجدانی اور تخیلی کیفیات کا قطعاً دخل نہیں ہوتا۔ وحی غیبی مگر حق الیقینی ذریعہ علم و ہدایت ہوتا ہے۔

وحی بشر کو زندگی بسر کرنے کا اور بندگی کی ادائیگی کا سلیقہ، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا قرینہ اور برائی و گمراہی کی گندگی سے بچنے کا خطا نا آشنا طریقہ سکھاتی ہے۔ شرع میں وحی اخبار و اعلام شرعی امور کا نام ہے۔ دینی اصطلاح میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ کلام اور پیغام ہے جو اپنے کسی نبی یا رسول پر فرشتے کے ذریعے نازل کیا ہو یا براہ راست اس کے دل میں ڈال دیا ہو یا کسی پردے کے پیچھے سے اسے سُنوادیا ہو۔ قرآنِ مجید میں وحی کا لفظ ان تینوں معانی میں مستعمل ہوا ہے۔

وحی کی ضرورت:خدا کا ساتھ چھوڑ کر، مادہ سے رشتہ جوڑ کر، مادیین نے مسائل زندگی کے لیے جو بھی وسائل اختیار کیے وہ حل کی بجائے لا ینحل اور مزید حائل بہ راہ مسائل ہوگئے۔ جوں جوں دوا کی گئی توں توں مرض بڑھتا گیا۔ وحی کا ساتھ چھوڑ کر انسان وحشی خبطی اور شقی بن گیا ہے۔ ایک خوف کا عالم طاری ہے۔ ہر ایک دوسرے کو کاٹنے اور کھانے کو دوڑ رہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خطرناک اور عبرتناک دھماکہ صبح ہوا یا شام ہوا۔ یہ لفاظی نہیں حقیقت کی عکاسی ہے۔ میری بات پر یقین نہ ہو تو ان کی کہانی خود ان کی زبانی سن لیجیے جو گھر کے بھیدی ہیں۔


اورس سوارارن لنکا ڈھاتے ہوئے یوں کہہ رہا ہے

''انسانیت کا احترام دلوں سے مٹ گیا ہے، زندگی اپنی حقیقی قدرومنزلت کھو بیٹھی ہے آج کوئی ظالموں کی بہمیت کو ختم کر نے کی ہمت نہیں رکھتا اور حقیقت یہ ہے کہ درندگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے''

علم طبیعات کی مشہور ماہر مسزہڈسن شا مادیین کے سر پر شرکی مذمت یوں کررہی ہے ''ہماری تہذیب کی عمارت کی دیواریں منہدم ہونے کو ہیں۔ اس کی بنیادوں میں ضعف آگیا ہے اور اس کی شہتیر ہل رہے ہیں۔ نہ معلوم یہ ساری عمارت کب پیوند خاک ہوجائے''

مادیین کے پیدا کردہ خطرناک نتائج کو دیکھ کر پروفیسر ساروکن کے دل کے آنسو، الفاظ میں یوں ڈھل گئے ہیں ''ہماری زندگی کا ہر شعبہ، ہمارا معاشرہ ایک زبردست بحران سے گزر رہا ہے۔ جسم کا کوئی حصہ قلب ودماغ کا کوئی ریشہ ایسا نہیں جو صحیح طور پر کام کررہاہو، ہمارے سارے بدن میں ناسور ہیں۔''

ماہر نبضِ تاریخ، شہرہ آفاق مفکر پروفیسر آرنلڈ، جے ٹائن بی اپنی بصیرت سے جدید انسان کو یوں خبردار کر رہا ہے کہ ''تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں''

''اکیس تمدنوں کے مطالعے کے بعد میرا اس بات پر پختہ یقین ہوگیا ہے کہ تمدن اسی وقت تک صحت مند رہتے ہیں، جب تک ان میں تخلیق کی صلاحیت برسر عمل رہتی ہے۔ ہماری سائنسی ترقیات، صنعتی دورکے چیلنج کا ایک جواب تھیں اور ایک نہایت ہی عمدہ جواب۔ لیکن جو مسائل ہمیں درپیش ہیں وہ اس نوعیت کے نہیں کہ ان کا جواب تجربہ گاہوں سے دیا جائے۔ یہ اخلاقی مسائل ہیں اور سائنس اخلاق کے دائرے میں کوئی دخل نہیں رکھتی ۔ اپنے مسائل کو خالص مادی تدابیر سے حل کرنے کی ہماری ساری مساعی ناکام ہوچکی ہیں اور ہمارے تمام بلند وبانگ دعوے محض مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ اپنی معاشرتی بیماریوں کو خدا کے بغیر حل کرنے کے نتائج ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ دور حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ایک فوق الطبیعی ایمان کا احیا ہے۔''

زندگی کی شب تاریک صرف وحی ہی کی روشنی سے منور ہوسکتی ہے۔ ظاہر بات کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ عرب کے بدوؤں کی زندگی، درندگی کی تصویر تھی۔ وہ قتل و غارت میں ایسے چالاک تھے جیسے بے باک درندے ۔

لیکن جب انھوں نے وحی محمدیؐ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم قدم جب تک ہے دم میں دم، ساتھ ساتھ چلنے اور رہنے کی قسم کھائی۔ اپنی عادت، طبیعت اور ذہنیت کو تعلیمات محمدیؐ کے سانچے میں ڈھال دی۔ وفا کا حق ادا کرکے دکھایا۔ تو اللہ نے بھی ان کی حالت یکسر بدل دی اور ہر اس نعمت سے نوازا جس کا کیا تھا ان سے وعدہ۔ زور آور اور دنیا کے سپر پاور بنادیا۔ دولت، عزت، شہرت، عظمت، حکومت غرض یہ کہ ہر ہر نعمت بقدر راہ خدا میں محنت، معاوضہ کے طور پر دیتا چلا گیا۔ ہمارے اسلاف کا اللہ کی نعمتوں کا حال دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔

قرآن امت مسلمہ کے نام ایک دعوت، ایک نصیحت اور ایک پیغام ہے کہ اسلاف کی طرح تم بھی ہر طرف سے رخ موڑ کر صرف قرآن کی تعلیمات پر عمل کرکے دکھاؤ تو تمہاری شب تاریک بھی نور سحر بن سکتی ہے۔
Load Next Story