اتحاد بین المسلمین وقت کا تقاضا
’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی شاید آج سے پہلے کبھی اتنی شدت سے ضرورت نہ تھی لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عصر حاضر میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر امّت کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا۔ انہی اختلافات کی وجہ سے انتشار و تفرقہ بازی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
اختلاف رائے انسانی فطرت ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانان عالم تو ایک امّت ہیں۔ قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تشریح و تفصیل کو مقدّم رکھتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بنا پر فروعی مسائل میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلافات فطری ہیں۔ اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ یہ اختلافات انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ ایسا اختلافِ رائے علما کرام کے درمیان فطری امر ہے۔ اس پر قابو پانا بھی آسان اور حدود کے اندر رکھنا بھی کچھ دشوار نہیں۔
اختلافات تو قرون اولیٰ میں بھی تھے۔ صحابہ کرامؓ میں بھی کچھ مسائل میں اختلافات منقول ہیں۔ لیکن یہ اختلافات جنگ و جدال اور دشمنی کا باعث نہیں بنتے تھے، علمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور اعتماد اپنی جگہ تھا بل کہ ان اختلافات کے باعث عبادات اور اعمال صالح کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی تھی۔ صحابہ کرامؓ تابعینؒ اور ائمہ فقہاء کے درمیان اسی قسم کا اختلاف تھا اور اس کو رحمت قرار دیا گیا۔ خود ساختہ نظریات و اختلافات اور انتشار کو ختم کرنے کے لیے نسخۂ اکسیر اللہ رب العزت نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے۔
'' اور تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو۔''
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اتحاد بین المسلمین کے تین راہ نما اصول بیان فرمائے ہیں۔
(1) اللہ کی رسی کا پکڑنا (2) آپس میں متفق ہونا (3) تفرقہ بازی اور انتشار کی ممانعت۔
اللہ کی رسی سے مراد دین الٰہی ہے۔ اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے تو دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو۔ ہماری ملّی اور انفرادی ترقی کا یہ بنیادی اصول ہے۔ یعنی قرآنِ پاک میں رب کائنات نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ مومنین ایک قوم ہیں جو حبل اللہ سے وابستہ ہیں۔ اگر مسلمان متحد ہوجائیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے نظام کے پابند ہوجائیں تو ملّت اسلامی کا شیرازہ خود بہ خود منظم ہوجائے گا اور مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔
قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ پر ارشاد ربانی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے ان سے آپؐ کا کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اپنی خواہشات کے زیر اثر گروہ بندی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ کسی قوم کی تنزلی اور ہلاکت کا واحد سبب بھی یہی ہے۔
علاوہ ازیں قرآن مجید میں کئی مقامات پر گزشتہ انبیا علیہم السلام کی امتّوں کے واقعات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے کہ کس طرح وہ امتّیں باہمی اختلاف و انتشار اور اللہ کی نافرمانی کے باعث اپنے مقصدِ حیات سے منحرف ہوکر دنیا و آخرت کی رسوائیوں اور اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوگئیں۔
عصر حاضر میں مسلم امّہ ظلم و ستم کا شکار اور حقیقی آزادی و خود مختاری سے محروم ہے۔ آزاد ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ آج پورا عالم اسلام بے چینی، افراتفری، ظلم و ستم، حق تلفی اور دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے۔ عالمی حقوق انسانی کے علم برداروں نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے، وہ مسلمانوں کی حق تلفی اور ظلم و بربریت پر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔
مسلم امّہ کو ایک دوسرے سے دور رکھنے، ان میں اختلافات پیدا کرنے اور ان کے خلاف مسلسل فتنوں کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز سمیت شام، عراق، یمن، فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں زبردستی کی جنگ مسلط کی گئی۔ مسلم ممالک کو باری باری تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام جاری ہے۔
برما کے مسلمان اپنے ملک اور علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی ملک بھی انہیں پناہ دینے پر راضی نہیں۔ یہ مہاجرین بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ان کی تکالیف کا ذرا احساس نہیں۔ حالاں کہ سرور کائناتؐ نے تو فرمایا کہ مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے۔ لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں؟ ہمارے دلوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کتنے مہاجرین دریا میں غرق ہوگئے اور کتنی کشتیاں غرقِ آب ہوگئیں اور کتنے پناہ گزین سمندر کی گہرائیوں میں جا بسے۔ بعض بچوں کو پانی کی لہروں نے ساحلِ سمندر پر ڈال دیا لیکن مسلم امہ کو ان کی حالتِ زار پر بھی ترس نہ آیا بل کہ خاموش تماشائی بن گئے۔ ان حالات میں اسلامی دنیا میں اتحاد و تعاون اور یک جہتی کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اسلامی دنیا تقریباً 55 سے زاید آزاد اسلامی ریاست پر مشتمل ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی ممالک بیش بہا وسائل، قیمتی معدنیات، بہترین زرعی پیداوار، ذہین و بہترین دماغی صلاحیتوں سے معمور افرادی قوت، دنیا کی بہترین افواج اور قدرتی دولت سے مالا مال ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین علاقے ان کے دست رس میں ہیں۔ مسلمانان عالم دنیا کے اہم ترین زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کے مالک بھی ہیں۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلامی ممالک بہ وقت ضرورت متفقہ لائحہ عمل اور موثر موقف اور بروقت فیصلہ صادر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
مسلم امّہ کا اتحاد آج کی معاشی، شرعی، سماجی اور سیاسی ضرورت ہے۔ لہٰذا اتحاد امّت کو ہمیں اپنا نصب العین سمجھنا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے اختلافات اور غلط فہمیوں کو پس پشت ڈال کر متّحد ہوجانا چاہیے۔ اگر ہم اب بھی متّحد نہیں ہوئے تو پھر جتنی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹیں کم ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانان عالم کو توفیق دے کہ تمام اختلافات کو ختم کرکے متّحد ہوجائیں اور ایسی قوّت بن کر ابھریں جو ناقابل تسخیر ہو۔ آمین
اختلاف رائے انسانی فطرت ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانان عالم تو ایک امّت ہیں۔ قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تشریح و تفصیل کو مقدّم رکھتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بنا پر فروعی مسائل میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلافات فطری ہیں۔ اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ یہ اختلافات انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ ایسا اختلافِ رائے علما کرام کے درمیان فطری امر ہے۔ اس پر قابو پانا بھی آسان اور حدود کے اندر رکھنا بھی کچھ دشوار نہیں۔
اختلافات تو قرون اولیٰ میں بھی تھے۔ صحابہ کرامؓ میں بھی کچھ مسائل میں اختلافات منقول ہیں۔ لیکن یہ اختلافات جنگ و جدال اور دشمنی کا باعث نہیں بنتے تھے، علمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور اعتماد اپنی جگہ تھا بل کہ ان اختلافات کے باعث عبادات اور اعمال صالح کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی تھی۔ صحابہ کرامؓ تابعینؒ اور ائمہ فقہاء کے درمیان اسی قسم کا اختلاف تھا اور اس کو رحمت قرار دیا گیا۔ خود ساختہ نظریات و اختلافات اور انتشار کو ختم کرنے کے لیے نسخۂ اکسیر اللہ رب العزت نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے۔
'' اور تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو۔''
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اتحاد بین المسلمین کے تین راہ نما اصول بیان فرمائے ہیں۔
(1) اللہ کی رسی کا پکڑنا (2) آپس میں متفق ہونا (3) تفرقہ بازی اور انتشار کی ممانعت۔
اللہ کی رسی سے مراد دین الٰہی ہے۔ اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے تو دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو۔ ہماری ملّی اور انفرادی ترقی کا یہ بنیادی اصول ہے۔ یعنی قرآنِ پاک میں رب کائنات نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ مومنین ایک قوم ہیں جو حبل اللہ سے وابستہ ہیں۔ اگر مسلمان متحد ہوجائیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے نظام کے پابند ہوجائیں تو ملّت اسلامی کا شیرازہ خود بہ خود منظم ہوجائے گا اور مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔
قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ پر ارشاد ربانی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے ان سے آپؐ کا کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اپنی خواہشات کے زیر اثر گروہ بندی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ کسی قوم کی تنزلی اور ہلاکت کا واحد سبب بھی یہی ہے۔
علاوہ ازیں قرآن مجید میں کئی مقامات پر گزشتہ انبیا علیہم السلام کی امتّوں کے واقعات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے کہ کس طرح وہ امتّیں باہمی اختلاف و انتشار اور اللہ کی نافرمانی کے باعث اپنے مقصدِ حیات سے منحرف ہوکر دنیا و آخرت کی رسوائیوں اور اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوگئیں۔
عصر حاضر میں مسلم امّہ ظلم و ستم کا شکار اور حقیقی آزادی و خود مختاری سے محروم ہے۔ آزاد ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ آج پورا عالم اسلام بے چینی، افراتفری، ظلم و ستم، حق تلفی اور دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے۔ عالمی حقوق انسانی کے علم برداروں نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے، وہ مسلمانوں کی حق تلفی اور ظلم و بربریت پر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔
مسلم امّہ کو ایک دوسرے سے دور رکھنے، ان میں اختلافات پیدا کرنے اور ان کے خلاف مسلسل فتنوں کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز سمیت شام، عراق، یمن، فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں زبردستی کی جنگ مسلط کی گئی۔ مسلم ممالک کو باری باری تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام جاری ہے۔
برما کے مسلمان اپنے ملک اور علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی ملک بھی انہیں پناہ دینے پر راضی نہیں۔ یہ مہاجرین بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ان کی تکالیف کا ذرا احساس نہیں۔ حالاں کہ سرور کائناتؐ نے تو فرمایا کہ مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے۔ لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں؟ ہمارے دلوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کتنے مہاجرین دریا میں غرق ہوگئے اور کتنی کشتیاں غرقِ آب ہوگئیں اور کتنے پناہ گزین سمندر کی گہرائیوں میں جا بسے۔ بعض بچوں کو پانی کی لہروں نے ساحلِ سمندر پر ڈال دیا لیکن مسلم امہ کو ان کی حالتِ زار پر بھی ترس نہ آیا بل کہ خاموش تماشائی بن گئے۔ ان حالات میں اسلامی دنیا میں اتحاد و تعاون اور یک جہتی کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اسلامی دنیا تقریباً 55 سے زاید آزاد اسلامی ریاست پر مشتمل ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی ممالک بیش بہا وسائل، قیمتی معدنیات، بہترین زرعی پیداوار، ذہین و بہترین دماغی صلاحیتوں سے معمور افرادی قوت، دنیا کی بہترین افواج اور قدرتی دولت سے مالا مال ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین علاقے ان کے دست رس میں ہیں۔ مسلمانان عالم دنیا کے اہم ترین زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کے مالک بھی ہیں۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلامی ممالک بہ وقت ضرورت متفقہ لائحہ عمل اور موثر موقف اور بروقت فیصلہ صادر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
مسلم امّہ کا اتحاد آج کی معاشی، شرعی، سماجی اور سیاسی ضرورت ہے۔ لہٰذا اتحاد امّت کو ہمیں اپنا نصب العین سمجھنا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے اختلافات اور غلط فہمیوں کو پس پشت ڈال کر متّحد ہوجانا چاہیے۔ اگر ہم اب بھی متّحد نہیں ہوئے تو پھر جتنی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹیں کم ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانان عالم کو توفیق دے کہ تمام اختلافات کو ختم کرکے متّحد ہوجائیں اور ایسی قوّت بن کر ابھریں جو ناقابل تسخیر ہو۔ آمین