چوروں کو تحفظ نہ ملے تو معیشت ٹھیک ہوجائے گی ایکسپریس فورم میں بجٹ پر مختلف شخصیات کا اظہار خیال
ٹیکس دینے والوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے،ہارون اگر،آئندہ حکومت سےبہت امیدیں ہیں، مہتاب چاولہ.
ملکی معیشت کی صورت حال اتنی بری نہیں جتنی ظاہر کی جارہی ہے۔ اگر حکومت سنجیدگی سے کچھ موثر اور ٹھوس اقدامات کرے تو معاشی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کیا جاسکتا ہے۔
چوروں کو تحفظ دینا بند کردیا جائے تو معاشی مسائل اور اقتصادی بحرانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ نگراں حکومت کو طویل مدتی اقتصادی فیصلے نہیں کرنا چاہئیں، یہ آئندہ حکومت کاکام ہے۔چند دنوں میں نئی حکومت آنے والی ہے، ایسے وقت میں منی بجٹ لانا سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ ملک کے نوجوانوں کیلیے پالیسیاں بنانا ترجیح ہونی چاہیے، نوجوان اگر مثبت معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہونگے تو ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ میڈیا ایسے سچ سے گریز کرے جن سے ملک کو نقصان ہوتا ہو۔ ان خیالات کا اظہار بزنس، اسٹاک مارکیٹ، انڈسٹریز اور بینکنگ کے شعبوں سے وابستہ معروف شخصیات نے ملکی معیشت کی صورتحال اور آئندہ حکومت کیلیے معاشی تجاویز کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مباحثے میں نگراں صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ممتاز صنعتکار میاں زاہد حسین، سمٹ بینک کے سربراہ حسین لوائی، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر ہارون اگر، اسٹاک مارکیٹ کی معروف شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی، آل پاکستان ٹاولز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مہتاب چاولہ اور آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف عبدالواحد شریک ہوئے۔ فورم کے شرکا کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، اس کیلیے حکومت کو جامع اقدامات کرنا ہونگے۔ شرکا نے میڈیا سے بھی گزارش کی کہ وہ ملک کے امیج کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ نگراں صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ میں نگراں حکومت کا حصہ ہوں لیکن میری رائے میں نگراں حکومت کی جانب سے منی بجٹ لانے کا فیصلہ درست نہیں۔
ملکی معیشت کو بہت سے مسائل کا سامنا ضرور ہے جن میں ٹیکس وصولی بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ملک میں لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن موثر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے، اس کیلیے سب سے پہلے ہمیں ٹیکس ریٹ کم کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ سازی کے موقع پر تاجر برادری حکومت وقت کو تجاویز دیتی ہے لیکن ہماری تجاویز میں سے چند ایک ہی مانی جاتی ہیں، ہماری رائے میں ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے۔ بزنس کمیونٹی میں ٹیکس ریفارمزکے حوالے سے کوئی اختلافات نہیں کیونکہ تاجر برادری سمجھتی ہے کہ ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انھوں نے کہا کہ 200 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنی ہی لائن لاسز کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے، اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ منی بجٹ لانے کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہیں جنھیں نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں معیشت کو کھڑا کرنے کیلیے فوری طور پر 200 سے 300 ارب روپے لانا ہیں۔ نئی حکومت چند دنوں میں آجائے گی اور اسے بھی آتے ہی ایک چھوٹا بجٹ دینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی کا بحران بہت زیادہ ہے، ہماری تجویز ہے کہ گیس کسی کو نہ دو سب کی بجلی بنادو مگر ریٹ سب کیلیے یکساں کرنا ضروری ہے۔ عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ سخت فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو بل نہیں دے گا اسے بجلی اور گیس نہیں ملے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ چوروں کو تحفظ دینے سے روزگار نہیں بڑھتا۔ معاشی صورت حال کی خرابی کا شور زیادہ مچایا جاتا ہے،اصل میں حالات ایسے نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر سال گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، مزید گیس کے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں تو صورتحال بہتری کی جانب جارہی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سسٹم ٹھیک انداز میں کام کرے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فرنس آئل سے 4ہزارمیگاواٹ سے زائد بجلی نہیں بن سکتی، آپ دوسرے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کے نرخوں کا موازنہ فرنس آئل سے کریں تو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔ حسین لوائی نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلیے فوری طور پر اقتصادی پلان بنایا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجر برادری، فوج، پروفیشنلز اور دیگر تمام طبقات کی تجاویز شامل ہوں۔ اس کے ساتھ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ بھی کرنا ہوگا لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوگی کیونکہ وہ ایسا نہیں چاہتی۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قرضے اگر عوامی فلاح کے منسوبوں کیلیے لیے جائیں تو ان میں کوئی برائی نہیں تاہم قرض لیکر نئے کپڑے یا نئی گاڑی خریدنا غلط ہے۔ بزنس کمیونٹی کو عالمی مقابلے کیلیے تیار کرنا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو 7 فیصد پر لانا ہوگا۔
آئندہ حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معاشی ترقی کیلیے ٹھوس اور جراتمندانہ فیصلے کرے۔ایک سوال کے جواب میں صدر سمٹ بینک نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کا مستقبل بہت روشن ہے اور یہ شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ نوجوانوں کیلیے نیشنل وینچر فنڈ (National Venture Fund)بنانا چاہیے جس کی مانیٹرنگ بھی پروفیشنلز کے پاس ہو۔عبدالواحد نے کہا کہ موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری بہت آگے جاسکتی ہے، اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک کی معیشت کو ترقی کی راہوں پر نہیں لایا جاسکتا۔ہارون اگر کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے بزنس کمیونٹی کو بہت توقعات ہیں، امید ہے کہ نوازشریف کا بجٹ بزنس فرینڈلی ہوگا۔ ہم تمام حکومتوں سے یہی کہتے ہیں کہ جب بھی بجٹ بنائیں تو تاجر برادری کو اعتماد میں ضرور لیں۔
اگر معیشت بیٹھ گئی تو صورتحال بہت سنگین ہوجائے گی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سیلزٹیکس سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ہی 16 فیصد ہے، اسے کم کرنا چاہیے۔مہتاب چاولہ نے کہا کہ نئی حکومت اگر انڈسٹریز پر فوکس کرے تو اقتصادی صورت حال میں مزید بہتری ممکن ہے، اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے حقوق تو یاد ہیں لیکن فرائض سب بھول چکے ہیں۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ بہت ساری انڈسٹریاں معاشی بحران کا شکار ہیں، حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اب الیکشن ہوچکے، سب جماعتوں نے اپنی پالیسیوں اور منشور کے بجائے دوسروں پر تنقید اور الزام تراشی کے ذریعے ووٹ لیے، اب دھرنوں اور دھاندلی کے شور کا سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلیے سب کو کام کرنا چاہیے۔
چوروں کو تحفظ دینا بند کردیا جائے تو معاشی مسائل اور اقتصادی بحرانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ نگراں حکومت کو طویل مدتی اقتصادی فیصلے نہیں کرنا چاہئیں، یہ آئندہ حکومت کاکام ہے۔چند دنوں میں نئی حکومت آنے والی ہے، ایسے وقت میں منی بجٹ لانا سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ ملک کے نوجوانوں کیلیے پالیسیاں بنانا ترجیح ہونی چاہیے، نوجوان اگر مثبت معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہونگے تو ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ میڈیا ایسے سچ سے گریز کرے جن سے ملک کو نقصان ہوتا ہو۔ ان خیالات کا اظہار بزنس، اسٹاک مارکیٹ، انڈسٹریز اور بینکنگ کے شعبوں سے وابستہ معروف شخصیات نے ملکی معیشت کی صورتحال اور آئندہ حکومت کیلیے معاشی تجاویز کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مباحثے میں نگراں صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ممتاز صنعتکار میاں زاہد حسین، سمٹ بینک کے سربراہ حسین لوائی، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر ہارون اگر، اسٹاک مارکیٹ کی معروف شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی، آل پاکستان ٹاولز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مہتاب چاولہ اور آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف عبدالواحد شریک ہوئے۔ فورم کے شرکا کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، اس کیلیے حکومت کو جامع اقدامات کرنا ہونگے۔ شرکا نے میڈیا سے بھی گزارش کی کہ وہ ملک کے امیج کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ نگراں صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ میں نگراں حکومت کا حصہ ہوں لیکن میری رائے میں نگراں حکومت کی جانب سے منی بجٹ لانے کا فیصلہ درست نہیں۔
ملکی معیشت کو بہت سے مسائل کا سامنا ضرور ہے جن میں ٹیکس وصولی بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ملک میں لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن موثر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے، اس کیلیے سب سے پہلے ہمیں ٹیکس ریٹ کم کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ سازی کے موقع پر تاجر برادری حکومت وقت کو تجاویز دیتی ہے لیکن ہماری تجاویز میں سے چند ایک ہی مانی جاتی ہیں، ہماری رائے میں ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے۔ بزنس کمیونٹی میں ٹیکس ریفارمزکے حوالے سے کوئی اختلافات نہیں کیونکہ تاجر برادری سمجھتی ہے کہ ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انھوں نے کہا کہ 200 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنی ہی لائن لاسز کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے، اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ منی بجٹ لانے کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہیں جنھیں نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں معیشت کو کھڑا کرنے کیلیے فوری طور پر 200 سے 300 ارب روپے لانا ہیں۔ نئی حکومت چند دنوں میں آجائے گی اور اسے بھی آتے ہی ایک چھوٹا بجٹ دینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی کا بحران بہت زیادہ ہے، ہماری تجویز ہے کہ گیس کسی کو نہ دو سب کی بجلی بنادو مگر ریٹ سب کیلیے یکساں کرنا ضروری ہے۔ عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ سخت فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو بل نہیں دے گا اسے بجلی اور گیس نہیں ملے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ چوروں کو تحفظ دینے سے روزگار نہیں بڑھتا۔ معاشی صورت حال کی خرابی کا شور زیادہ مچایا جاتا ہے،اصل میں حالات ایسے نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر سال گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، مزید گیس کے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں تو صورتحال بہتری کی جانب جارہی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سسٹم ٹھیک انداز میں کام کرے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فرنس آئل سے 4ہزارمیگاواٹ سے زائد بجلی نہیں بن سکتی، آپ دوسرے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کے نرخوں کا موازنہ فرنس آئل سے کریں تو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔ حسین لوائی نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلیے فوری طور پر اقتصادی پلان بنایا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجر برادری، فوج، پروفیشنلز اور دیگر تمام طبقات کی تجاویز شامل ہوں۔ اس کے ساتھ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ بھی کرنا ہوگا لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوگی کیونکہ وہ ایسا نہیں چاہتی۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قرضے اگر عوامی فلاح کے منسوبوں کیلیے لیے جائیں تو ان میں کوئی برائی نہیں تاہم قرض لیکر نئے کپڑے یا نئی گاڑی خریدنا غلط ہے۔ بزنس کمیونٹی کو عالمی مقابلے کیلیے تیار کرنا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو 7 فیصد پر لانا ہوگا۔
آئندہ حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معاشی ترقی کیلیے ٹھوس اور جراتمندانہ فیصلے کرے۔ایک سوال کے جواب میں صدر سمٹ بینک نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کا مستقبل بہت روشن ہے اور یہ شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ نوجوانوں کیلیے نیشنل وینچر فنڈ (National Venture Fund)بنانا چاہیے جس کی مانیٹرنگ بھی پروفیشنلز کے پاس ہو۔عبدالواحد نے کہا کہ موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری بہت آگے جاسکتی ہے، اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک کی معیشت کو ترقی کی راہوں پر نہیں لایا جاسکتا۔ہارون اگر کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے بزنس کمیونٹی کو بہت توقعات ہیں، امید ہے کہ نوازشریف کا بجٹ بزنس فرینڈلی ہوگا۔ ہم تمام حکومتوں سے یہی کہتے ہیں کہ جب بھی بجٹ بنائیں تو تاجر برادری کو اعتماد میں ضرور لیں۔
اگر معیشت بیٹھ گئی تو صورتحال بہت سنگین ہوجائے گی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سیلزٹیکس سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ہی 16 فیصد ہے، اسے کم کرنا چاہیے۔مہتاب چاولہ نے کہا کہ نئی حکومت اگر انڈسٹریز پر فوکس کرے تو اقتصادی صورت حال میں مزید بہتری ممکن ہے، اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے حقوق تو یاد ہیں لیکن فرائض سب بھول چکے ہیں۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ بہت ساری انڈسٹریاں معاشی بحران کا شکار ہیں، حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اب الیکشن ہوچکے، سب جماعتوں نے اپنی پالیسیوں اور منشور کے بجائے دوسروں پر تنقید اور الزام تراشی کے ذریعے ووٹ لیے، اب دھرنوں اور دھاندلی کے شور کا سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلیے سب کو کام کرنا چاہیے۔