خاندان کا ادارہ
یورپ اور امریکا میں صنفی انقلاب کے بعد خاندان کا ادارہ ٹوٹ گیا۔
'' خاندان کا ادارہ ہمارا اثاثہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی اس بناء پر ضروری ہے کہ خاندان کے ادارے کا تحفظ کیا جائے۔ امریکا کی عراق پر یلغارکے بعد انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ ہوں اور اپنی روایات کا تحفظ کریں ۔''
عظیم صحافی کلدیپ نیئر نے کراچی میں جماعت اسلامی کی جانب سے بھارتی وفدکے اعزاز میں دیے گئے، استقبالیے میں یہ تقریر کرکے مجھے حیرت کے ریگستان میں دھکیل دیا ۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ عراق پر امریکا اور اتحادی افواج کی کارروائی کے بعد بھارت کے دانشوروں، اراکین پارلیمنٹ اور صحافیوں کا وفد کراچی آیا ۔اس زمانے میں ڈاکٹر معراج الہدیٰ کراچی جماعت اسلامی کے ناظم تھے، پروفیسر غفور نائب امیر تھے۔
قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے۔پروفیسر سعید عثمانی کے والد ڈاکٹر مسعود عثمانی جماعت اسلامی کے بانیوں میں شامل تھے مگر بعد میں جماعت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ سعید عثمانی کی والدہ جماعت کی رکن تھیں، یوں سعید عثمانی اور اس وقت جماعت اسلامی کے ناظم نشرواشاعت سرفراز احمد نے پروفیسر غفورکو اس بات پر آمادہ کیا کہ بھارتی وفدکو استقبالیہ دیا جائے اور جماعت اسلامی کو بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں کسی بھارتی وفدکو دیا جانے والا یہ پہلا استقبالیہ تھا۔
کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں کلدیپ نیئر نے ایک تاریخی حقیقت بیان کر دی ۔ جب چائے پر راقم الحروف نے کلدیپ نیئر سے پوچھا کہ خاندان کے ادارے کے تحفظ کی بات کو بھارت اور پاکستان کے بہتر تعلقات سے کیسے نسبت دی جاسکتی ہے تو کلدیپ نیئر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام کی روایات ایک ہی ہیں۔ ان روایات میں ایک خاندان کا ادارہ بھی ہے۔ آج بھی دونوں ممالک میں عام آدمی سے لے کر سربراہ ریاست تک اپنے والدین کا احترام کرتا ہے۔ انھیں اب بھی گھر میں مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔
والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو بچے انھیں اپنے گھر سے نکالنے کا تصور تک نہیں کرتے۔ دونوں ممالک میں اولاد اپنے والدین کے علاج و معالجے کو آخری وقت تک اہمیت دیتی ہے۔محلے داری اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کی روایت اب بھی مضبوط ہے۔ محلے کے بزرگوں کا بھی اپنے بزرگوں کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں صنفی انقلاب کے بعد خاندان کا ادارہ ٹوٹ گیا۔ اب وہاں بزرگوں پر توجہ اور احترام کی روایت نہیں ہے اور معمر افراد کے لیے اولڈ ہوم قائم ہیں ۔ امریکا نے عراق پر قبضہ کیا ہے ۔ اس کے توسیعی پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت وقت کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان اور بھارت کا اتفاق ضروری ہے۔
کلدیپ نیئر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ، انھوں نے لاہور میں تعلیم حاصل کی ، آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران جب محمد علی جناح لاہور آئے توکلدیپ نے ان کی تقریر سنی اور شاید تقسیم کے ممکنہ نقصانات کے حوالے سے سوال کیا اور بانی پاکستان کے جواب سے مطمئن ہوئے اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ لاہور میں رہیں گے۔ ہندو مسلمان فسادات کی شدت کی بناء پر انھیں سیالکوٹ میں اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا ۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی کتاب میں ایک بوڑھے سکھ کو یاد کیا۔
لاہورکے فساد میں اس بوڑھے سکھ کے خاندان والے قتل ہوئے اور ایک پوتا بچا تھا مگرکلدیپ جس جیپ میں سفر کر رہے تھے اس میں جگہ نہیں تھی، یوں اس بوڑھے کی خواہش پر اس کے پوتے کو بھارت نہیں لے جاسکے مگر زندگی بھر اس قلق میں مبتلا رہے کہ بوڑھے سکھ کی خواہش پوری نہ کرسکے۔ کلدیپ نے مسلم لیگ کے حامی اخبار روزنامہ انجام سے اپنی صحافتی زندگی کا آغازکیا، پھر انگریزی صحافت میں آگئے۔
سرکاری ملازم رہے۔ بھارت کے دوسرے وزیراعظم لعل بہادر شاستری کے افسر تعلقات عامہ رہے ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد جب سوویت یونین کے وزیراعظم کوسجین نے صدر ایوب خان اور وزیراعظم شاستری کو تاشقند مدعوکیا اور معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے تو پھر رات گئے شاستری دل کا دورہ پڑجانے سے انتقال کر گئے۔ صدر ایوب نے شاستری کے جنازے کوکندھا دیا تھا ، ان سب واقعات کے عینی شاہد بنے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے الہٰ آباد ہائی کورٹ میں اپنے نا اہلی کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تو اخبارات پر سنسرشپ عائد کردی توکلدیپ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھائی اور جیل بھیج دیے گئے۔
ایک محدود عرصے کے لیے برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر رہے۔کلدیپ نیئرنے 1947ء کے ہولناک فسادات ، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے، بھارتی پنجاب میں انسانیت سوز مظالم ہوئے، سے یہ سبق سیکھا کہ بھارت اور پاکستان کی دوستی میں نفرت حائل ہے اور دوستی کے لیے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے ملک میں آنے جانے پر پابندیاں نہیں ہونی چاہیئیں۔
انھوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔ وہ جنگوں کے دوران بھی اور پھر بعد میں بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی کے لیے آواز اٹھاتے رہے ۔ وہ کہتے تھے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اربوں روپے اسلحے گولہ بارود کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ رقم امریکا اور یورپی ممالک کی معیشت کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ یہ رقم دونوں ممالک میں غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ ہونی چاہیے۔
کلدیپ کو بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر سخت اعتراض تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ اقلیتوں کے ساتھ یہ سلوک بھارت کے سیکیولر آئین کے منافی ہے ۔کلدیپ نے کئی بار لکھا کہ بابری مسجد کی حفاظت کی ذمے دار نرسما راؤکی کانگریس حکومت تھی مگر نرسما راؤ یہ فریضہ انجام دینے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں بھارت میں انتہاپسندی کو تقویت ملی ۔ اس طرح کلدیپ نے 2002ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔
ان فسادات میں گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ کلدیپ نیئر نے ہمیشہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر ان فسادات کی ذمے داری عائد کی۔ کلدیپ نیئر بھارت کی سول سوسائٹی کی اس تحریک کا حصہ بنے جوگجرات کے فسادات کے ذمے دار مودی کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ کلدیپ نے ہمیشہ سے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ اس بات پر مایوس تھے کہ وادئ کشمیر میں مسلمان نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں اور بھارتی فوج انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے۔ کلدیپ نے ہمیشہ بھارت کے آئین کی شق 370 کو ختم کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیرکنٹرول کشمیرکی حیثیت تبدیل کرنے سے صورتحال اور خراب ہوگی ۔کلدیپ گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کو بھارت کے اتحاد کے لیے خطرناک قرار دیتے آئے تھے۔ان کے کالموں میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے پر قتل کرنے کے رجحان کی مذمت کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندو انتہاپسندوں کا یہ رویہ خطرناک ہے۔ کلدیپ نیئرکی خواہش تھی کہ آزادی کے عظیم مجاہد بھگت سنگھ کو لاہور میں جس مقام پر پھانسی دی گئی تھی وہاں ایک یادگار قائم کی جائے۔ وہ اس مقصد کے لیے لاہور آئے بھی تھے مگر ملک میں موجود انتہا پسندوں نے بھگت سنگھ کی انگریز حکومت کے خلاف قربانی کوکچھ اور جانا اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
کلدیپ نیئر اگرچہ ایک بھارتی شہری تھے مگر آزادئ صحافت، انسانی حقوق کی پاسداری اور پھر بھارت اور پاکستان کی دوستی اور بھارت کی اقلیتوں کے لیے ان کی جدوجہد نے انھیں امرکردیا ۔ جو لوگ پاکستان اور بھارت کی دوستی کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی جنگ کے نتیجے میں کشمیرکا مسئلہ حل ہوگا، انھیں کلدیپ کے خیالات کی گہرائی کو محسوس کرنا چاہیے۔کلدیپ نے جماعت اسلامی کے استقبالیے میں دونوں ممالک کے تعلقات کو خاندان کے ادارے کی بقاء سے منسلک کیا تھا ، وہی حقیقی سچائی ہے۔ بھارت اور پاکستان اچھے تعلقات قائم کرکے ہی اپنی روایات کو بچاسکتے ہیں ۔ یہ روایات دونوں ممالک کی مشترکہ ہیں۔ ان روایات کو مغرب سے خطرہ ہے، بھارت اور پاکستان سے نہیں ۔
عظیم صحافی کلدیپ نیئر نے کراچی میں جماعت اسلامی کی جانب سے بھارتی وفدکے اعزاز میں دیے گئے، استقبالیے میں یہ تقریر کرکے مجھے حیرت کے ریگستان میں دھکیل دیا ۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ عراق پر امریکا اور اتحادی افواج کی کارروائی کے بعد بھارت کے دانشوروں، اراکین پارلیمنٹ اور صحافیوں کا وفد کراچی آیا ۔اس زمانے میں ڈاکٹر معراج الہدیٰ کراچی جماعت اسلامی کے ناظم تھے، پروفیسر غفور نائب امیر تھے۔
قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے۔پروفیسر سعید عثمانی کے والد ڈاکٹر مسعود عثمانی جماعت اسلامی کے بانیوں میں شامل تھے مگر بعد میں جماعت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ سعید عثمانی کی والدہ جماعت کی رکن تھیں، یوں سعید عثمانی اور اس وقت جماعت اسلامی کے ناظم نشرواشاعت سرفراز احمد نے پروفیسر غفورکو اس بات پر آمادہ کیا کہ بھارتی وفدکو استقبالیہ دیا جائے اور جماعت اسلامی کو بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں کسی بھارتی وفدکو دیا جانے والا یہ پہلا استقبالیہ تھا۔
کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں کلدیپ نیئر نے ایک تاریخی حقیقت بیان کر دی ۔ جب چائے پر راقم الحروف نے کلدیپ نیئر سے پوچھا کہ خاندان کے ادارے کے تحفظ کی بات کو بھارت اور پاکستان کے بہتر تعلقات سے کیسے نسبت دی جاسکتی ہے تو کلدیپ نیئر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام کی روایات ایک ہی ہیں۔ ان روایات میں ایک خاندان کا ادارہ بھی ہے۔ آج بھی دونوں ممالک میں عام آدمی سے لے کر سربراہ ریاست تک اپنے والدین کا احترام کرتا ہے۔ انھیں اب بھی گھر میں مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔
والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو بچے انھیں اپنے گھر سے نکالنے کا تصور تک نہیں کرتے۔ دونوں ممالک میں اولاد اپنے والدین کے علاج و معالجے کو آخری وقت تک اہمیت دیتی ہے۔محلے داری اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کی روایت اب بھی مضبوط ہے۔ محلے کے بزرگوں کا بھی اپنے بزرگوں کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں صنفی انقلاب کے بعد خاندان کا ادارہ ٹوٹ گیا۔ اب وہاں بزرگوں پر توجہ اور احترام کی روایت نہیں ہے اور معمر افراد کے لیے اولڈ ہوم قائم ہیں ۔ امریکا نے عراق پر قبضہ کیا ہے ۔ اس کے توسیعی پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت وقت کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان اور بھارت کا اتفاق ضروری ہے۔
کلدیپ نیئر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ، انھوں نے لاہور میں تعلیم حاصل کی ، آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران جب محمد علی جناح لاہور آئے توکلدیپ نے ان کی تقریر سنی اور شاید تقسیم کے ممکنہ نقصانات کے حوالے سے سوال کیا اور بانی پاکستان کے جواب سے مطمئن ہوئے اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ لاہور میں رہیں گے۔ ہندو مسلمان فسادات کی شدت کی بناء پر انھیں سیالکوٹ میں اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا ۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی کتاب میں ایک بوڑھے سکھ کو یاد کیا۔
لاہورکے فساد میں اس بوڑھے سکھ کے خاندان والے قتل ہوئے اور ایک پوتا بچا تھا مگرکلدیپ جس جیپ میں سفر کر رہے تھے اس میں جگہ نہیں تھی، یوں اس بوڑھے کی خواہش پر اس کے پوتے کو بھارت نہیں لے جاسکے مگر زندگی بھر اس قلق میں مبتلا رہے کہ بوڑھے سکھ کی خواہش پوری نہ کرسکے۔ کلدیپ نے مسلم لیگ کے حامی اخبار روزنامہ انجام سے اپنی صحافتی زندگی کا آغازکیا، پھر انگریزی صحافت میں آگئے۔
سرکاری ملازم رہے۔ بھارت کے دوسرے وزیراعظم لعل بہادر شاستری کے افسر تعلقات عامہ رہے ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد جب سوویت یونین کے وزیراعظم کوسجین نے صدر ایوب خان اور وزیراعظم شاستری کو تاشقند مدعوکیا اور معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے تو پھر رات گئے شاستری دل کا دورہ پڑجانے سے انتقال کر گئے۔ صدر ایوب نے شاستری کے جنازے کوکندھا دیا تھا ، ان سب واقعات کے عینی شاہد بنے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے الہٰ آباد ہائی کورٹ میں اپنے نا اہلی کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تو اخبارات پر سنسرشپ عائد کردی توکلدیپ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھائی اور جیل بھیج دیے گئے۔
ایک محدود عرصے کے لیے برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر رہے۔کلدیپ نیئرنے 1947ء کے ہولناک فسادات ، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے، بھارتی پنجاب میں انسانیت سوز مظالم ہوئے، سے یہ سبق سیکھا کہ بھارت اور پاکستان کی دوستی میں نفرت حائل ہے اور دوستی کے لیے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے ملک میں آنے جانے پر پابندیاں نہیں ہونی چاہیئیں۔
انھوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔ وہ جنگوں کے دوران بھی اور پھر بعد میں بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی کے لیے آواز اٹھاتے رہے ۔ وہ کہتے تھے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اربوں روپے اسلحے گولہ بارود کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ رقم امریکا اور یورپی ممالک کی معیشت کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ یہ رقم دونوں ممالک میں غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ ہونی چاہیے۔
کلدیپ کو بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر سخت اعتراض تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ اقلیتوں کے ساتھ یہ سلوک بھارت کے سیکیولر آئین کے منافی ہے ۔کلدیپ نے کئی بار لکھا کہ بابری مسجد کی حفاظت کی ذمے دار نرسما راؤکی کانگریس حکومت تھی مگر نرسما راؤ یہ فریضہ انجام دینے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں بھارت میں انتہاپسندی کو تقویت ملی ۔ اس طرح کلدیپ نے 2002ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔
ان فسادات میں گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ کلدیپ نیئر نے ہمیشہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر ان فسادات کی ذمے داری عائد کی۔ کلدیپ نیئر بھارت کی سول سوسائٹی کی اس تحریک کا حصہ بنے جوگجرات کے فسادات کے ذمے دار مودی کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ کلدیپ نے ہمیشہ سے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ اس بات پر مایوس تھے کہ وادئ کشمیر میں مسلمان نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں اور بھارتی فوج انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے۔ کلدیپ نے ہمیشہ بھارت کے آئین کی شق 370 کو ختم کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیرکنٹرول کشمیرکی حیثیت تبدیل کرنے سے صورتحال اور خراب ہوگی ۔کلدیپ گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کو بھارت کے اتحاد کے لیے خطرناک قرار دیتے آئے تھے۔ان کے کالموں میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے پر قتل کرنے کے رجحان کی مذمت کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندو انتہاپسندوں کا یہ رویہ خطرناک ہے۔ کلدیپ نیئرکی خواہش تھی کہ آزادی کے عظیم مجاہد بھگت سنگھ کو لاہور میں جس مقام پر پھانسی دی گئی تھی وہاں ایک یادگار قائم کی جائے۔ وہ اس مقصد کے لیے لاہور آئے بھی تھے مگر ملک میں موجود انتہا پسندوں نے بھگت سنگھ کی انگریز حکومت کے خلاف قربانی کوکچھ اور جانا اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
کلدیپ نیئر اگرچہ ایک بھارتی شہری تھے مگر آزادئ صحافت، انسانی حقوق کی پاسداری اور پھر بھارت اور پاکستان کی دوستی اور بھارت کی اقلیتوں کے لیے ان کی جدوجہد نے انھیں امرکردیا ۔ جو لوگ پاکستان اور بھارت کی دوستی کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی جنگ کے نتیجے میں کشمیرکا مسئلہ حل ہوگا، انھیں کلدیپ کے خیالات کی گہرائی کو محسوس کرنا چاہیے۔کلدیپ نے جماعت اسلامی کے استقبالیے میں دونوں ممالک کے تعلقات کو خاندان کے ادارے کی بقاء سے منسلک کیا تھا ، وہی حقیقی سچائی ہے۔ بھارت اور پاکستان اچھے تعلقات قائم کرکے ہی اپنی روایات کو بچاسکتے ہیں ۔ یہ روایات دونوں ممالک کی مشترکہ ہیں۔ ان روایات کو مغرب سے خطرہ ہے، بھارت اور پاکستان سے نہیں ۔