سادگی و کفایت کے چکر میں مت پڑیں

جن متبرک ہستیوں اور اولیا کی ہم مثالیں دیتے ہیں انھوں نے سادگی و کفایت شعاری نہ اوڑھی نہ اختیار کی۔

نیت کا ثواب اپنی جگہ لیکن کفایت شعاری محض علامتی اقدامات سے حاصل نہیں ہوتی۔یہ ایک انفرادی و اجتماعی رویے اور رہن سہن کا نام ہے۔ ایک رضاکارانہ فعل جسے بالرضا اختیار تو کیا جا سکتا ہے کسی پر تھوپا نہیں جا سکتا۔ ایسے ہی جیسے کسی کو جبراً صادق و امین ، بے لوث اور دردمند نہیں بنایا جا سکتا۔اگر مار پیٹ کے ایسا کر بھی لیا جائے تو عموماً اس طرح کی کوششوں کا اختتام ریا کاری اور منافقت پر ہوتا ہے۔

یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں کفایت کرنا

جن متبرک ہستیوں اور اولیا کی ہم مثالیں دیتے ہیں انھوں نے سادگی و کفایت شعاری نہ اوڑھی نہ اختیار کی بلکہ یہ اوصاف تو ان کے اندر سے پھوٹے۔اسی لیے ان کے اردگرد کے بہت سے اصحاب پر اثرانداز ہوئے اور جن پر اثرانداز نہیں ہوئے انھوں نے ملوکیانہ طرزِ زندگی اختیار کیا یا جاری رکھا۔اورنگ زیب نے خود ٹوپیاں سیں مگر یہ حکم نہیں دیا کہ سب اس کی طرح ٹوپیاں سی کے گذارہ کریں ورنہ کھال میں سلوا دوں گا۔

متبرک تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اسراف کی حوصلہ شکنی پر دیا گیا۔یعنی بنیادی ضروریات سے بڑھ کر جو بھی طرزِ زندگی بغرضِ نمود و نمائش اختیار کیا جائے اور سہولت عیاشی کی سرحد میں داخل ہو جائے تو اسراف ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جو ریشم اور سونا پہنے گا وہ خود بخود قابلِ تعزیر ٹھہرے گا بلکہ یہ کہا گیا کہ ریشم اور سونا مردوں کو زیب نہیں دیتا۔جو اشارہ سمجھ گئے انھوں نے ترک کر دیا۔ جنہوں نے ترک نہیں کیا انھوں نے حجت ، دلیل اور تاویل میں پناہ لی کہ صاحب ناپسند فرمایا گیا ہے حرام تو نہیں کہا گیا۔ اور جن اشیا کو حرام قرار دیا گیا ان سے بھی لوگوں نے سو فیصد کہاں پرہیز کیا۔انھیں بھی حلال کرنے کے لیے دینی و دنیاوی اشرافیہ نے تاویلاتی راستے اور پگڈنڈیاں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

مطلب کیا ہوا ؟ مطلب یہ ہوا کہ ریاست کا کام بس یہ گننا نہیں کہ کن نے پی ، کن نے نہ پی ، کن کن کے آگے جام تھا بلکہ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ جوابدہی کا ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کرے جو رفتہ رفتہ خودکار و خود کفیل ہو جائے۔جوابدہی کے اس نظام کے آگے محتسب بھی سرِتسلیم خم کرے۔جوابدہی کا یہ نظام استثنٰی کی زنجیر سے آزاد ہو۔پاکستان کے موجودہ حالات و روایات کی روشنی میں اس نظام کو تحفظ دینے کے لیے ایک علیحدہ باب کے طور پر آئین کا حصہ بنایا جائے اور اس باب کے ڈھانچے میں ترمیم تب کی جائے جب مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کی دو تہائی اکثریت الگ الگ اس ترمیم کی منظوری دے اور سپریم کورٹ کی توثیق کے بعد صدرِ مملکت اس پر دستخط کریں۔

جب اس نظام کے طفیل قانون کی حکمرانی اور گڈگورننس چل پڑے اس کے بعد کسی کو کسی کا انفرادی طور پر گریبان پکڑنے یا عیب گنوانے کی ضرورت نہ ہو گی۔


چونکہ یہ سب لکھنا اور کہنا آسان مگر کرنا مشکل ہے لہذا توجہ بٹانے اور خود کو اچھا ثابت کرنے کے لیے علامتی حرکتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔سیکڑوں اسپتالوں کی حالت اور سروس کا معیار بہتر بنانا بظاہر کٹھن اور وقت طلب ہے لہذا اس سے بہتر اور کہیں آسان ہے کہ چند اور شو کیس اسپتالوں کا سنگِ بنیاد رکھ دیا جائے۔پہلے سے موجود ہزاروں اسکولوں میں چار دیواری ، ٹائلٹ ، پینے کا پانی ، معیاری کلاس روم فرنیچر ، لیب کی سہولت اور مینجیمنٹ بہتر کرنے کے کے لیے چونکہ پیسہ ، منصوبہ بندی اور ثابت قدمی کی قلت ہے لہذا وزیرِ اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان اور چند کالجوں کے سائن بورڈز پر یونیورسٹی لکھ دینا زیادہ بہتر ہے۔واہ واہ بھی اور سب کو یہ کارنامہ دور سے نظر بھی آوے گا۔

اندرونِ قصبہ و شہر ٹوٹی سڑکوں کی تعمیر ، گاؤں سے منڈی تک پکی سڑک کون دیکھے گا ، موٹر وے بنا دو ترقی کا ڈنکا پٹ جائے گا۔ماضی گواہ ہے کہ بیوروکریٹس اور جنرلوں کی گاڑیوں کے بیڑے کم کرنا خوامخواہ کی محاذ آرائی مول لینا ہے۔لہذا سائیکل پر دو تین روز اپنی اینکسی سے دفتر جاتے ہوئے میڈیا میں ہلا گلا کروا لو۔لو جی ہو گئی کفائیت شعاری۔اشرافیہ کی پارٹیوں کو تو لگام نہیں دی جا سکتی مگر شادیوں میں ون ڈش کی پابندی اور سستے تندور کی خبر تو بن ہی سکتی ہے۔

واٹر مافیا پر کون ہاتھ ڈالے ، نہروں اور نالوں کو پکا کون کروائے۔کیوں نہ ایک اور ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیں تاکہ کہنے کو تو ہو کہ ہم پانی کی قلت سے غافل نہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور اربوں روپے کی ٹمبر بلیک مارکیٹ پر ہاتھ کیسے ڈالیں۔اس سے کہیں آسان ہے بلین ٹری سونامی کا منصوبہ۔لینڈ مافیا کے سانڈ کو سینگوں سے پکڑنے سے کہیں سہل ہے کہ چند شہروں میں ایک اور آشیانہ ٹائپ اسکیم ، کم آمدنی والوں کی پانچ مرلہ کالونیوں یا پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے اعلان سے جی خوش کر دیا جائے۔ حالانکہ اس سے کہیں آسان ہے کہ مصدقہ غریبوں کو سبسڈائیزڈ ریٹس پر پلاٹ دے کر انھیں مالکانہ حقوق کی دستاویزات دس برس بعد اس شرط پر حوالے کی جائیں کہ اس عرصے میں تعمیر نہ ہوئی تو پلاٹ واپس لے لیا جائے گا۔ حکومت کا کام پلاٹ بانٹنا نہیں پلاٹ تک رسائی کا راستہ کھولنا ہے۔مگر اس راہ میں لیٹے اژدھوں سے کون لڑے ؟

یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ بائیس کروڑ کا ملک چلانا آسان نہیں اور نہ ہی ریاست کے کسی ایک ادارے کے بس کی بات ہے۔یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ فی الحال کوئی بھی سویلین حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ ہاتھیوں سے گنا چھین سکے اور فصل کا اجاڑا روک سکے۔لیکن کم ازکم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ جو شعبے پلاننگ، ایفیشنسی اور جوابدہی کے جیسے کیسے نظام کو حرکت میں لانے سے ٹھیک ہو سکتے ہیں انھیں بیک وقت ٹھیک کرنے کا جوش دکھانے کے بجائے کسی ایک ، دو یا تین شعبوں پر پورا دھیان لگا دیا جائے۔

جیسے ٹیکسیشن ، جیسے صنعتی ترغیبات اور مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کا کم ازکم تحفظ ، جیسے ہنرمندانہ تعلیم تک نئی پیڑھی کی رسائی ، جیسے چھوٹے کاروبار کے لیے خواتین کو قرضوں کی فراہمی، رہنمائی اور قرضے کی واپسی کے بعد ایک اور بڑے آسان قرضے کی ترغیب ، جیسے کوالیفائیڈ ججوں کی خالی آسامیاں ترجیحی بنیاد پر میرٹ کے ذریعے پر کرنے کا کام۔

نئی حکومت کے حلف اٹھاتے ہی پنج سالہ کلاک کی ٹک ٹک شروع ہو چکی ہے۔یا تو پورا وقت رومن حکمرانوں کی طرح رعایا کو کھیل تماشوں میں کھپا کے گذار دیجیے یا پھر کچھ ایسا کر جائیے کہ اگلی بار ہر ایک کو پکڑ پکڑ کے وضاحتیں نہ دینی پڑیں کہ ہم تو یہ بھی کرنا چاہتے تھے ، وہ بھی کرنا چاہتے تھے مگر ، اگر ، فلاں ، یعنی ، چونکہ ، بہرحال ، گویا۔

سادگی و کفایت شعاری کے چکر میں مت پڑئیے۔ کام پر لگئے۔جتنا ہو گیا سب کو نظر آ جائے گا۔ نہ ہو سکا تو وہ بھی نظر آجائے گا اور کیوں نہیں ہو پایا وہ بھی نظر آ جائے گا۔اس بارے میں جنتا بہتر برس میں فل ایکسپرٹ ہو چکی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story