ستمبر 1965 کی جنگ کے یادگار نغمات
ہر محاذ پر ہمارے فوجیوں کے قدم بڑھتے چلے جا رہے تھے ان کے حوصلے چٹانوں کا روپ اختیارکر چکے تھے۔
میں اپنا کالم تو اس ہفتے بھی کسی فلمی شخصیت پر ہی لکھنا چاہتا تھا مگرکشمیر میں ہندوستانی فوج کے ڈھائے گئے ظلم و ستم کے جو مناظرگزشتہ کچھ دنوں کے دوران دیکھنے میں آئے تو مجھے ستمبر 1965ء کی جنگ بھی شدت سے یاد آنے لگی ۔
میں انھی دنوں میں چلا گیا جب ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی سرحدوں پر جنگ کے شعلے بھڑکا دیے تھے اور پاکستانی قوم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اور اس مہیب جنگ سے نمٹنے کے لیے یک جان ہو گئی تھی اور ساری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا روپ اختیار کر گئی تھی اور ہماری افواج کے جری جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ہندوستانی فوج کا نہ صرف جم کر مقابلہ کیا تھا بلکہ ان کے ہر وارکو ناکارہ کر دیا تھا ۔ان کے قدموں کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اور انھیں پسپا کر کے اپنی سرحدوں سے دورکر کے شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس جنگ کے دوران ہمارے شاعروں نے، موسیقاروں نے،گلوکاروں نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کرکارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ حمایت علی شاعر کا ایک نغمہ للکار بن کر ابھرا تھا ۔
لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے
لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہر فرد ہماری افواج کا بازو بن گیا تھا ۔ایک طرف ہماری تینوں افواج کے جری جوان بے جگری کے ساتھ سرحدوں کی پاسبانی کر رہے تھے تو دوسری طرف ہماری قوم کے شاعر، نغمہ نگار، موسیقار،گلوکار بھی اپنی اپنی جگہ سینہ سپر ہو گئے تھے، وطن کی فضاؤں اور ہواؤں میں رزمیہ گیت اور قومی نغمے گونج رہے تھے اور صف شکنوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے، جب ہر فوجی کے دل میں شوق شہادت کا جذبہ جوش مار رہا تھا۔ شاعر جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ جسے میڈم نور جہاں نے گایا تھا کسی صورت بھی نہیں بھلایا جا سکتا ہے۔
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
یہ گیت وطن کی فضاؤں میں گونج رہا تھا اور اس کی بازگشت سرحدوں کو چوم رہی تھی پھر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے تحریر کردہ اور میڈم نور جہاں ہی کے گائے ہوئے گیت کی سچائی سے سرحدوں پر موجود ہمارے فوجیوں کے دل شوق شہادت سے منور ہوتے چلے گئے تھے۔
میریا ڈھول سپاہیا
تینوں رب دیا رکھاں
اج تک دیاں تینوں
سارے جگ دیاں اکھاں
میریا ڈھول سپاہیا
ہر محاذ پر ہمارے فوجیوں کے قدم بڑھتے چلے جا رہے تھے ان کے حوصلے چٹانوں کا روپ اختیارکر چکے تھے وہ عزم کا کوہ گراں بن گئے تھے اور اس وقت شاعر مسرور انور کے اشعار کے ساتھ لیجنڈ گلوکار مہدی حسن ہماری فوج کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
٭
عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے
تیری جرأت تیری عظمت کو سلامت رکھے
جذبۂ شوقِ شہادت کی دعا پیش کروں
اس وقت ایک سے بڑھ کر ایک نغمہ فوجیوں کی ہمت کو توانائی بخش رہا تھا۔ انھی نغمات میں نور جہاں کا گایا ہوا ایک انمول نغمہ ساری قوم کو ایک احساس دلا رہا تھا:
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبھ دی پھریں بازارکڑے
اے دین ہے میرے داتا دی
نہ ایویں ٹکراں مار کڑے
قومی گیتوں میں ایک اور جنگی طرزکا گیت جس نے مخالف فوج میں ایک کھلبلی مچا دی تھی جسے تاج ملتانی نے گایا اور ڈاکٹر رشید انور نے لکھا تھا ۔اس گیت نے ہندوستانی فوج کے فتح کے خواب کو کرچی کرچی کر دیا تھا۔ یہ گیت دراصل ایک آئینہ تھا جس کے بول تھے۔
اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی
اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے
جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
پھر شاعر کلیم عثمانی نے بھی اپنی بہادر افواج کے عزم کو سلام کرتے ہوئے ایک نغمہ لکھا تھا جسے مہدی حسن نے سروں سے سجایا تھا:
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
ایسے ہی یادگار نغموں کی گونج میں مشیرکاظمی کا لکھا ہوا اور گلوکارہ نسیم بیگم کا گایا ہوا ایک نغمہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا تھا۔ اس نغمے کا ایک ایک لفظ موتیوں میں تولنے کے مترادف ہے یہ لافانی نغمہ آج بھی قوم کے دل کی آواز بنا ہوا ہے جس کی موسیقی سلیم اقبال نے دی تھی۔
اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
اور پاکستانی فوج ہر محاذ پر سرخ رو ہوئی تھی، قومی یکجہتی نے جنگ جیت لی تھی اور اس جیت کی فضا نے ایک اور یادگار نغمے کو جنم دیا تھا:
پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو پایندہ رہو
روشنیوں رنگوں کی لہرو زندہ رہو پایندہ رہو
اس حقیقت سے بھی کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ایشیا میں دو ایسے بڑے اور پڑوسی ملک ہیں جنھیں اپنی ترقی اور اپنی قوموں کی پسماندگی دورکرنے کے لیے امن و امان کی ہر صورت میں ضرورت ہے اگر کشمیر کا جلد ہی کوئی منصفانہ حل تجویز کر کے جنگی جنون سے باز آجائیں تو ہم بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر سکتے ہیں مگر بعض بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دو پڑوسی ملکوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ہیں بڑی طاقتوں کا ایجنڈا اپنی خوشحالی اور ہماری بربادی ہے:
یہ اسلحہ بیچنے والے ممالک
فساد ان کی وجہ سے ہر جگہ ہے
کہ نفرت کے انھی سوداگروں نے
امن کی راہ میں پتھر رکھا ہے
میں انھی دنوں میں چلا گیا جب ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی سرحدوں پر جنگ کے شعلے بھڑکا دیے تھے اور پاکستانی قوم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اور اس مہیب جنگ سے نمٹنے کے لیے یک جان ہو گئی تھی اور ساری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا روپ اختیار کر گئی تھی اور ہماری افواج کے جری جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ہندوستانی فوج کا نہ صرف جم کر مقابلہ کیا تھا بلکہ ان کے ہر وارکو ناکارہ کر دیا تھا ۔ان کے قدموں کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اور انھیں پسپا کر کے اپنی سرحدوں سے دورکر کے شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس جنگ کے دوران ہمارے شاعروں نے، موسیقاروں نے،گلوکاروں نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کرکارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ حمایت علی شاعر کا ایک نغمہ للکار بن کر ابھرا تھا ۔
لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے
لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہر فرد ہماری افواج کا بازو بن گیا تھا ۔ایک طرف ہماری تینوں افواج کے جری جوان بے جگری کے ساتھ سرحدوں کی پاسبانی کر رہے تھے تو دوسری طرف ہماری قوم کے شاعر، نغمہ نگار، موسیقار،گلوکار بھی اپنی اپنی جگہ سینہ سپر ہو گئے تھے، وطن کی فضاؤں اور ہواؤں میں رزمیہ گیت اور قومی نغمے گونج رہے تھے اور صف شکنوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے، جب ہر فوجی کے دل میں شوق شہادت کا جذبہ جوش مار رہا تھا۔ شاعر جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ جسے میڈم نور جہاں نے گایا تھا کسی صورت بھی نہیں بھلایا جا سکتا ہے۔
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
یہ گیت وطن کی فضاؤں میں گونج رہا تھا اور اس کی بازگشت سرحدوں کو چوم رہی تھی پھر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے تحریر کردہ اور میڈم نور جہاں ہی کے گائے ہوئے گیت کی سچائی سے سرحدوں پر موجود ہمارے فوجیوں کے دل شوق شہادت سے منور ہوتے چلے گئے تھے۔
میریا ڈھول سپاہیا
تینوں رب دیا رکھاں
اج تک دیاں تینوں
سارے جگ دیاں اکھاں
میریا ڈھول سپاہیا
ہر محاذ پر ہمارے فوجیوں کے قدم بڑھتے چلے جا رہے تھے ان کے حوصلے چٹانوں کا روپ اختیارکر چکے تھے وہ عزم کا کوہ گراں بن گئے تھے اور اس وقت شاعر مسرور انور کے اشعار کے ساتھ لیجنڈ گلوکار مہدی حسن ہماری فوج کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
٭
عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے
تیری جرأت تیری عظمت کو سلامت رکھے
جذبۂ شوقِ شہادت کی دعا پیش کروں
اس وقت ایک سے بڑھ کر ایک نغمہ فوجیوں کی ہمت کو توانائی بخش رہا تھا۔ انھی نغمات میں نور جہاں کا گایا ہوا ایک انمول نغمہ ساری قوم کو ایک احساس دلا رہا تھا:
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبھ دی پھریں بازارکڑے
اے دین ہے میرے داتا دی
نہ ایویں ٹکراں مار کڑے
قومی گیتوں میں ایک اور جنگی طرزکا گیت جس نے مخالف فوج میں ایک کھلبلی مچا دی تھی جسے تاج ملتانی نے گایا اور ڈاکٹر رشید انور نے لکھا تھا ۔اس گیت نے ہندوستانی فوج کے فتح کے خواب کو کرچی کرچی کر دیا تھا۔ یہ گیت دراصل ایک آئینہ تھا جس کے بول تھے۔
اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی
اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے
جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
پھر شاعر کلیم عثمانی نے بھی اپنی بہادر افواج کے عزم کو سلام کرتے ہوئے ایک نغمہ لکھا تھا جسے مہدی حسن نے سروں سے سجایا تھا:
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
ایسے ہی یادگار نغموں کی گونج میں مشیرکاظمی کا لکھا ہوا اور گلوکارہ نسیم بیگم کا گایا ہوا ایک نغمہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا تھا۔ اس نغمے کا ایک ایک لفظ موتیوں میں تولنے کے مترادف ہے یہ لافانی نغمہ آج بھی قوم کے دل کی آواز بنا ہوا ہے جس کی موسیقی سلیم اقبال نے دی تھی۔
اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
اور پاکستانی فوج ہر محاذ پر سرخ رو ہوئی تھی، قومی یکجہتی نے جنگ جیت لی تھی اور اس جیت کی فضا نے ایک اور یادگار نغمے کو جنم دیا تھا:
پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو پایندہ رہو
روشنیوں رنگوں کی لہرو زندہ رہو پایندہ رہو
اس حقیقت سے بھی کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ایشیا میں دو ایسے بڑے اور پڑوسی ملک ہیں جنھیں اپنی ترقی اور اپنی قوموں کی پسماندگی دورکرنے کے لیے امن و امان کی ہر صورت میں ضرورت ہے اگر کشمیر کا جلد ہی کوئی منصفانہ حل تجویز کر کے جنگی جنون سے باز آجائیں تو ہم بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر سکتے ہیں مگر بعض بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دو پڑوسی ملکوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ہیں بڑی طاقتوں کا ایجنڈا اپنی خوشحالی اور ہماری بربادی ہے:
یہ اسلحہ بیچنے والے ممالک
فساد ان کی وجہ سے ہر جگہ ہے
کہ نفرت کے انھی سوداگروں نے
امن کی راہ میں پتھر رکھا ہے