جس نے میلہ لوٹ لیا
برسر اقتدار آنے والی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف دونوں نتائج کی پروا کیے بغیر جس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
سب سے کمسن رکن پارلیمان ہونے کے باوجود ، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس روز قومی اسمبلی میں ایک بالغ نظر سیاستدان کی حیثیت سے سامنے آئے، جہاں اس کے ہنگامہ خیزاجلاس میں نو منتخب اراکین ملک کا 22 واں وزیراعظم منتخب کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور برسر اقتدار آنے والی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف دونوں نتائج کی پروا کیے بغیر جس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔ اس سے لگتا تھا انھیں پارلیمانی طور طریقوں کو فروغ دینے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ مسلم لیگ ن پارلیمانی پارٹی کے اراکین عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہوجانے کے بعد ان کے سامنے شدید احتجاج کرنے کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہال میں داخل ہوئے تھے ۔
پی ٹی آئی کو چونکہ ایسا شدید احتجاج ہونے کی توقع نہ تھی اس لیے قدرتی طور پر وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ان کے پاس اس قسم کی صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت رکھنے والوں کا بھی فقدان تھا۔ صرف پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور چوہدری فواد حسین بھاگ دوڑ کرتے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطہ کرکے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے جو رائیگاں گئی۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی احتجاج کے دوران پیدا شدہ صورتحال سے پریشان نظر آئے ۔
کئی روایتی سیاستدان جو انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شامل ہوکر ایم این ایز منتخب ہوئے تھے، رانا ثناء اللہ کی زیر قیادت لیگی قانون سازوں کی طرف سے لگائے جانے والے جارحانہ نعروں کے جواب میں پارٹی کے نعرے لگاتے ہوئے شرما رہے تھے۔ ایسی صورتحال میں پی پی پی نے بالغ نظری دکھائی۔ پہلے نوجوان بلاول قائد ایوا ن کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے احتجاج پر حیران دکھائی دیے ، پھر وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اس کے سربراہ شہباز شریف کو سمجھانے گئے اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ایم این ایزکو روکیں لیکن انھوں نے ان کی ایک نہ سنی ۔اس پر وہ پی پی پی کے دوسرے ایم این ایز کے ساتھ ہال سے واک آؤٹ کرگئے۔
کچھ دیر بعد پی پی پی رہنما خورشید شاہ ، جو ان میں سب سے زیادہ تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں، ہال میں لوٹ آئے ۔ انھوں نے بھی بحران پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کردیکھی مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔ ایک گھنٹے کے بھرپور احتجاج کے بعد شاہ صاحب نے اسپیکرکو تجویز دی کہ وہ اجلاس پندرہ منٹ کے لیے ملتوی کرکے تمام پارلیمانی لیڈروں کو بات چیت کے لیے اپنے چیمبر میں مدعوکریں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا مگر پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ ملاقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے عمران خان کی تقریرکے دوران نعرے بازی جاری رکھی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نومنتخب وزیر اعظم کو اشتعال دلاکر ان سے جارحانہ تقریرکرانے میں کامیاب ہوگئے ، جس میں انھوں نے واضح کیا کہ کسی کے ساتھ بھی کوئی این آر او نہیں کیا جائے گا اور مال لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا۔ پھر جب شہباز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی پی ایم ایل این کے سربراہ کے سامنے اسی طرح کا احتجاج کیا۔
ن لیگیوں کی طرح انھوں نے بھی ان کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ۔ لابیوں میں بیٹھے ہوئے پی ٹی آئی کے حامیوں نے بھی شہباز شریف کے خلاف نعرے لگائے ۔ دلچسپ بات کہ جب اسپیکر قومی اسمبلی نے بلاول کو تقریرکرنے کی دعوت دی، تو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این دونوں کے اراکین منتشر ہوگئے اور اپنی نشستوں پر جا بیٹھے ۔ ان کی تقریرکے دوران ہال پر مکمل خاموشی طاری رہی جو خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن کی بہترین تقریر تھی۔
نرمی مگر اعتماد سے تقریر کرتے ہوئے ، جو زیادہ تر انگریزی میں تھی، انھوں نے ایوان میں موجود ہر ایک کو بیحد متاثرکیا، اگرچہ یہ پارلیمان میں ان کی پہلی تقریر تھی، مگر جب انھوں نے اپنی تقریر ختم کی تو شہباز شریف سمیت پی ایم ایل این کے تمام اراکین نے اتنی عمدہ تقریرکرنے پر جاکر انھیں مبارکباد دی۔ حقیقت میں انھوں نے ہر لحاظ سے متوازن تقریرکی تھی۔ انھوں نے کسی پر بھی کوئی ذاتی حملہ نہیں کیا اور عدلیہ کے خلاف ایک لفظ نہیں بولے، جس کا جعلی اکاؤنٹس کیس میں پی پی پی کے خلاف رویہ انتہائی جارحانہ ہے ۔
پی پی پی کے چیئرمین نے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این دونوں میں سے کسی کے احتجاج کی تائید نہیں کی۔ ان کی تقریرکا لب لباب یہ تھا کہ اراکین پارلیمان کو غیر جمہوری قوتوں کے آنے کی راہ ہموار نہیں کرنی چاہیے اور یہ کہ پارلیمان تمام اداروں کی ماں ہے اور اسے مضبوط ومستحکم بنانے کی ضرورت ہے ۔ بلاول نے پارلیمان کی بالادستی کے لیے عمران خان کو اپنی پارٹی کی مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا اور ہارون بلور، اکرام اللہ گنڈاپور اور نوابزادہ رئیسانی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جنھیں انتخابی مہم کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے اراکین قومی اسمبلی پر زور دیا کہ وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر پالیسی بنائیں ۔انھوں نے کہا '' بدقسمتی سے دہشتگردی اور انتہا پسندی پی ایم ایل این اور پی پی پی دونوں میں سے کسی کے بھی ترجیحی ایجنڈے پر نہیں ہے ۔ بلاول نے عمران کو باورکرانے کی کوشش کی کہ اب وہ ہر پاکستانی کے وزیر اعظم ہیں اور ان پر زور دیا کہ وہ نفرت اور عدم برداشت کی سیاست ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
بلاول نے یاد دلایا کہ انتخابات میں کھلی دھاندلی اور ساز باز کی گئی تھی اور امیدواروں کوکھیلنے کے یکساں مواقع نہیں دیے گئے ۔'' ہم آزادی صحافت اور انسانی حقوق سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اقتصادی محاذ پر چیلنجز ہمارے منتظر ہیں اور ہم قرضوں میں ڈوبتے جارہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی ہمیں چیلنج درپیش ہیں۔''
خارجہ پالیسی کے حوالے سے چیلنجزکا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے پڑوسیوں خصوصاً افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی مثال دی اور کہا کہ '' ہم مسئلے کا حصہ ہیں اس کے حل کا نہیں۔ ہمیں ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا جائزہ لینا چاہیے ۔'' انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اس بات پر نظر رکھے گی کہ پی ٹی آئی اپنے 100 دنوں کے پروگرام پرکس طرح عمل درآمد کرتی ہے ۔ 25 جولائی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کی بجائے بلاول نے مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیقات پارلیمان سے کرائی جائے ۔
قومی اسمبلی میں اپنے بھائی کی پہلی تقریر سننے کے لیے آصفہ اور بختاور بھی لابی میں موجود تھیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعظم کا انتخاب دراصل پاکستان مسلم لیگ نواز کا شو تھا جس میں پوری شدت سے مطالبہ کیا گیا کہ عام انتخابات میں کی گئی مبینہ دھاندلیوں کی پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کرائی جائے ۔ اسپیکر اسدقیصر کی جانب سے جیت کا اعلان کیے جانے تک عمران خان اپنی نشست پر بیٹھے مسکرا رہے تھے ۔ انھیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والاہے ۔ وہ تقریر کرتے ہوئے ایسے لگ رہے تھے جیسے کڑوی گولی نگل رہے ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کے ارکان ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک نعرے بازی کرتے رہے جس میں پندرہ منٹ کا وقفہ بھی شامل تھا۔ اسپیکر نے جوں ہی قائد ایوان کے انتخاب کے نتیجے کا اعلان کیا عمران خان نے اٹھ کر نشست سنبھال لی۔
ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی لیکن جب مسلم لیگی ارکان نے '' ووٹ کو عزت دو اور ووٹ چور نامنظور''کے نعروں کے شور میں ہلڑ شروع کی تو عمران خان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ قائد ایوان کا انتخاب جیت کر پی ٹی آئی کو جو خوشی ہوئی تھی اسے پریشانی میں بدلنے کے لیے پی ایم ایل این کے پاس احتجاج کرنے کے سوا اورکوئی چارہ بھی نہیں تھا لہذا اس کے ارکان نے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور برسر اقتدار آنے والی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف دونوں نتائج کی پروا کیے بغیر جس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔ اس سے لگتا تھا انھیں پارلیمانی طور طریقوں کو فروغ دینے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ مسلم لیگ ن پارلیمانی پارٹی کے اراکین عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہوجانے کے بعد ان کے سامنے شدید احتجاج کرنے کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہال میں داخل ہوئے تھے ۔
پی ٹی آئی کو چونکہ ایسا شدید احتجاج ہونے کی توقع نہ تھی اس لیے قدرتی طور پر وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ان کے پاس اس قسم کی صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت رکھنے والوں کا بھی فقدان تھا۔ صرف پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور چوہدری فواد حسین بھاگ دوڑ کرتے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطہ کرکے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے جو رائیگاں گئی۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی احتجاج کے دوران پیدا شدہ صورتحال سے پریشان نظر آئے ۔
کئی روایتی سیاستدان جو انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شامل ہوکر ایم این ایز منتخب ہوئے تھے، رانا ثناء اللہ کی زیر قیادت لیگی قانون سازوں کی طرف سے لگائے جانے والے جارحانہ نعروں کے جواب میں پارٹی کے نعرے لگاتے ہوئے شرما رہے تھے۔ ایسی صورتحال میں پی پی پی نے بالغ نظری دکھائی۔ پہلے نوجوان بلاول قائد ایوا ن کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے احتجاج پر حیران دکھائی دیے ، پھر وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اس کے سربراہ شہباز شریف کو سمجھانے گئے اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ایم این ایزکو روکیں لیکن انھوں نے ان کی ایک نہ سنی ۔اس پر وہ پی پی پی کے دوسرے ایم این ایز کے ساتھ ہال سے واک آؤٹ کرگئے۔
کچھ دیر بعد پی پی پی رہنما خورشید شاہ ، جو ان میں سب سے زیادہ تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں، ہال میں لوٹ آئے ۔ انھوں نے بھی بحران پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کردیکھی مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔ ایک گھنٹے کے بھرپور احتجاج کے بعد شاہ صاحب نے اسپیکرکو تجویز دی کہ وہ اجلاس پندرہ منٹ کے لیے ملتوی کرکے تمام پارلیمانی لیڈروں کو بات چیت کے لیے اپنے چیمبر میں مدعوکریں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا مگر پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ ملاقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے عمران خان کی تقریرکے دوران نعرے بازی جاری رکھی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نومنتخب وزیر اعظم کو اشتعال دلاکر ان سے جارحانہ تقریرکرانے میں کامیاب ہوگئے ، جس میں انھوں نے واضح کیا کہ کسی کے ساتھ بھی کوئی این آر او نہیں کیا جائے گا اور مال لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا۔ پھر جب شہباز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی پی ایم ایل این کے سربراہ کے سامنے اسی طرح کا احتجاج کیا۔
ن لیگیوں کی طرح انھوں نے بھی ان کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ۔ لابیوں میں بیٹھے ہوئے پی ٹی آئی کے حامیوں نے بھی شہباز شریف کے خلاف نعرے لگائے ۔ دلچسپ بات کہ جب اسپیکر قومی اسمبلی نے بلاول کو تقریرکرنے کی دعوت دی، تو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این دونوں کے اراکین منتشر ہوگئے اور اپنی نشستوں پر جا بیٹھے ۔ ان کی تقریرکے دوران ہال پر مکمل خاموشی طاری رہی جو خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن کی بہترین تقریر تھی۔
نرمی مگر اعتماد سے تقریر کرتے ہوئے ، جو زیادہ تر انگریزی میں تھی، انھوں نے ایوان میں موجود ہر ایک کو بیحد متاثرکیا، اگرچہ یہ پارلیمان میں ان کی پہلی تقریر تھی، مگر جب انھوں نے اپنی تقریر ختم کی تو شہباز شریف سمیت پی ایم ایل این کے تمام اراکین نے اتنی عمدہ تقریرکرنے پر جاکر انھیں مبارکباد دی۔ حقیقت میں انھوں نے ہر لحاظ سے متوازن تقریرکی تھی۔ انھوں نے کسی پر بھی کوئی ذاتی حملہ نہیں کیا اور عدلیہ کے خلاف ایک لفظ نہیں بولے، جس کا جعلی اکاؤنٹس کیس میں پی پی پی کے خلاف رویہ انتہائی جارحانہ ہے ۔
پی پی پی کے چیئرمین نے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این دونوں میں سے کسی کے احتجاج کی تائید نہیں کی۔ ان کی تقریرکا لب لباب یہ تھا کہ اراکین پارلیمان کو غیر جمہوری قوتوں کے آنے کی راہ ہموار نہیں کرنی چاہیے اور یہ کہ پارلیمان تمام اداروں کی ماں ہے اور اسے مضبوط ومستحکم بنانے کی ضرورت ہے ۔ بلاول نے پارلیمان کی بالادستی کے لیے عمران خان کو اپنی پارٹی کی مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا اور ہارون بلور، اکرام اللہ گنڈاپور اور نوابزادہ رئیسانی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جنھیں انتخابی مہم کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے اراکین قومی اسمبلی پر زور دیا کہ وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر پالیسی بنائیں ۔انھوں نے کہا '' بدقسمتی سے دہشتگردی اور انتہا پسندی پی ایم ایل این اور پی پی پی دونوں میں سے کسی کے بھی ترجیحی ایجنڈے پر نہیں ہے ۔ بلاول نے عمران کو باورکرانے کی کوشش کی کہ اب وہ ہر پاکستانی کے وزیر اعظم ہیں اور ان پر زور دیا کہ وہ نفرت اور عدم برداشت کی سیاست ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
بلاول نے یاد دلایا کہ انتخابات میں کھلی دھاندلی اور ساز باز کی گئی تھی اور امیدواروں کوکھیلنے کے یکساں مواقع نہیں دیے گئے ۔'' ہم آزادی صحافت اور انسانی حقوق سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اقتصادی محاذ پر چیلنجز ہمارے منتظر ہیں اور ہم قرضوں میں ڈوبتے جارہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی ہمیں چیلنج درپیش ہیں۔''
خارجہ پالیسی کے حوالے سے چیلنجزکا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے پڑوسیوں خصوصاً افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی مثال دی اور کہا کہ '' ہم مسئلے کا حصہ ہیں اس کے حل کا نہیں۔ ہمیں ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا جائزہ لینا چاہیے ۔'' انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اس بات پر نظر رکھے گی کہ پی ٹی آئی اپنے 100 دنوں کے پروگرام پرکس طرح عمل درآمد کرتی ہے ۔ 25 جولائی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کی بجائے بلاول نے مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیقات پارلیمان سے کرائی جائے ۔
قومی اسمبلی میں اپنے بھائی کی پہلی تقریر سننے کے لیے آصفہ اور بختاور بھی لابی میں موجود تھیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعظم کا انتخاب دراصل پاکستان مسلم لیگ نواز کا شو تھا جس میں پوری شدت سے مطالبہ کیا گیا کہ عام انتخابات میں کی گئی مبینہ دھاندلیوں کی پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کرائی جائے ۔ اسپیکر اسدقیصر کی جانب سے جیت کا اعلان کیے جانے تک عمران خان اپنی نشست پر بیٹھے مسکرا رہے تھے ۔ انھیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والاہے ۔ وہ تقریر کرتے ہوئے ایسے لگ رہے تھے جیسے کڑوی گولی نگل رہے ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کے ارکان ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک نعرے بازی کرتے رہے جس میں پندرہ منٹ کا وقفہ بھی شامل تھا۔ اسپیکر نے جوں ہی قائد ایوان کے انتخاب کے نتیجے کا اعلان کیا عمران خان نے اٹھ کر نشست سنبھال لی۔
ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی لیکن جب مسلم لیگی ارکان نے '' ووٹ کو عزت دو اور ووٹ چور نامنظور''کے نعروں کے شور میں ہلڑ شروع کی تو عمران خان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ قائد ایوان کا انتخاب جیت کر پی ٹی آئی کو جو خوشی ہوئی تھی اسے پریشانی میں بدلنے کے لیے پی ایم ایل این کے پاس احتجاج کرنے کے سوا اورکوئی چارہ بھی نہیں تھا لہذا اس کے ارکان نے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔