بھرم نہ ٹوٹے…
اپنی پہچان چھپائے معاشی جدوجہد کرنے والی خواتین
ہمارے معاشرے میں خواتین صرف اپنے گھر اور خاندان کے لیے ہی قربانی نہیں دے رہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پر یہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی مصائب زدہ زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیلنے کے لیے خود کمر کس کر میدان میں ہیں اور گھرداری کے ساتھ معاشی میدان میں بھی ایسی جدوجہد کر رہی ہیں جو مثالی ہے۔
ایک طرف مردوں کے اس معاشرے میں کسی نہ کسی طرح خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں تو دوسری طرف وہ منہگائی اور بے روزگاری کے آلام میں پِسے اپنے کفیل مردوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں، تاکہ دنیا میں ان کی سفید پوشی اور عزت کی روزی روٹی کا بھرم رہ جائے، مگر ٹھہریے۔۔۔ سفید پوشی کی اس چادر میں معاشرے کا ایک ایسا مہیب پہلو چھپا ہے، جو یوں تو معاشی ناہم واریوں میں جکڑے پورے معاشرے کا المیہ ہے، لیکن خواتین بہ طور خاص اس کا شکار ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں مجبوری کے عالم میں محنت کرنے والی خواتین کو اپنے ہی حلقہ احباب میں پشیمانی اور معذرت خواہانہ سے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً جب اس کی توضیح اور توجیح کوئی مجبوری ہو تو پھر بات اور بھی زیادہ احتیاط کی ہو جاتی ہے۔
تعلیم اور تربیت کے سب سے بڑا سبق ''محنت میں عظمت ہے'' اور ''محنت سے کبھی جی نہیں چرانا چاہیے!'' جیسے مقولے اور قول کو معاشرے میں صنف نازک کس قدر بھیانک طریقے سے بھگت رہی ہیں، اس کا اندازہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے، جب کوئی اس مشکل سے دوچار ہو۔ ہمارے اردگرد ایسی بے شمار خواتین موجود ہیں جو اپنے اہل وعیال کے لیے ایسی جدوجہد اور محنت کر رہی ہیں کہ جس کا اندازہ کیا جانا ممکن نہیں، لیکن ایک طرف ان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ یہ جدوجہد صرف اپنے والدین، چھوٹے بہن بھائی اور والدین کی گزر بسر اور بہتر مستقبل کے لیے کر رہی ہیں۔
انہیں اس کام پر کسی کی ستایش یا تعریف کی قطعی کوئی ضرورت نہیں، جب کہ دوسری طرف اس سے قطع نظر جو دل دُوز پہلو اس بات پر غالب اور اس سوچ کا محرک بھی نظر آتا ہے وہ معاشرے میں اپنی ''سفید پوشی'' کا بھرم ہے، کیوں کہ اگر ان کا کام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہ کر بھی چل سکتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گی کہ یہ بات آشکار ہو، کیوں کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ معاشرے میں اپنے ''مقام و مرتبے'' اور ''عزت'' میں کمی محسوس کریں گی۔ ان کی حیثیت میں کمی آئے گی اور وہ معاشرے میں اپنے اوپر ایک ایسا ''داغ'' سجا لیں گی، جس سے رہتی دنیا تک چھٹکارا شاید ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسی خواتین کی کتھا ان کے نام اور شناخت کے بغیر دینے پر مجبور ہیں۔
شہر کی ایک متوسط بستی کی مکین ایک خاتون شوہر کے انتقال کے بعد سے اپنے معاش کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بہ جائے محلے کی خواتین کے کپڑے سیتی ہیں، لیکن یہ کام اتنی راز داری سے کیا جاتا ہے کہ فقط گنتی کے ہی گھر ہیں، جن کے یہاں کے کپڑے سِلنے آتے ہیں۔ اگر کوئی اور ان سے کپڑے سلوانا چاہے تو ان ہی مخصوص خواتین کی مدد لینا پڑتی ہے کیوں کہ انہوں نے یہ کام کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ وہ نہیں چاہتیں کہ لوگوں میں ان کے کام کی خبر پھیلے۔ وہ لوگوں میں اپنی ''سفید پوشی'' کا بھرم قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو ان کے کام کا پتا چلے گا تو پھر وہ لوگوں کی نظروں میں گِر جائیں گی۔ اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ ان کی یہ جدوجہد بس ان تک ہی رہے اور کسی پر بھی آشکار نہ ہو۔
اس ہی طرح جب اپنے گھر میں مختلف دکانوں کے لیے مسالا جات پیسنے والی خاتون سے اس حوالے سے گفت گو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ صرف ان کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال بھی ہے۔ میں نہایت راز داری سے چند ایک احباب کے تعاون سے یہ کام کر رہی ہوں۔ شوہر کچھ عرصے قبل وفات پا چکے، نوعمر بیٹا معمولی نوکری کرتا ہے۔ گھر کا خرچ بڑی مشکل سے نکلتا تھا، اس لیے لوگوں میں اپنے پردہ رکھنے کے لیے یہ کام چُنا۔ میرے کام کرنے سے گھر کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ میری بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو چکا ہے۔ اب مجھے اپنی بیٹی کی شادی کی فکر ہے۔ اگر میری اس جدوجہد کی بات پھیلی تو خدشہ ہے کہ کہیں بیٹی کے سسرال والے رشتہ ختم نہ کر دیں! میں نہایت احتیاط سے یہ کام کرتی ہوں، یہی نہیں میرے بیٹے کو بھی بسا اوقات ایسی ہی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ''امّی، آپ تو اپنے کام کو چار دیواری میں چھپا لیتی ہیں، میں تو اپنے میلے کپڑوں میں جب شہر کی شاہراہوں پر اپنے ادارے کا مال اتارتا ہوں۔ اگر ایسے حلیے میں مجھے کسی شناسا نے دیکھ لیا تو ساری ''سفید پوشی'' کا بھرم نکل جائے گا!'' اس لیے اب وہ اپنے چہرے کو چھپانے کے لیے وہ مخصوص نقاب لگا لیتا ہے، جو عموماً دھول سے بچنے کے لیے الرجی کے مریض لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی شناخت چھپانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ ہم محنت سے جی نہیں چراتے، لیکن ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ اگر ہماری اس کڑی معاشی جدوجہد کا پتا چلا تو ہماری رہی سہی عزت دائر پر لگ جائے گی۔عافیت اسی میں ہے کہ ہم یوں ہی چُھپ چُھپ کر اپنی جدوجہد کرتے رہیں۔ اگر لوگوں کو ہماری اس طرح گزر اوقات کا پتا چلے تو ہمیں ایسا لگے گا کہ جیسے ہم چوری کرتے پکڑے گئے یا سب کے سامنے بھیک مانگ رہے تھے۔
ایک برقع پوش خاتون شہر میں ایک جگہ بیٹھی چنے فروخت کرتی نظر آئیں۔ وہ روزانہ صبح اپنے مزدور شوہر کے ہم راہ گھر سے نکلتی ہیں اور جہاں ان کے شوہر کو کام ہوتا ہے، اس کے ہی نزدیکی علاقے میں یہ ایک جگہ بیٹھ کر گرم چنے بیچتی ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے، لیکن گھر میں جوان بیٹیوں کا ساتھ ہے، اس لیے انہیں گوارا نہیں کہ ان کے ساتھ اس مشقت کا ذکر نتھی ہو، اس ہی لیے وہ گھر سے دور جا کر یہ کام انجام دیتی ہیں۔ عزیز واقارب اور محلے والے ان کے اس کام سے واقف نہیں۔
شہر کی ایک معروف کچی آبادی میں ایک غریب خاتون نے جدوجہد کی ایک بہت بڑی مثال قائم کی۔ اگر کوئی قدردان معاشرہ ہوتا تو اس خاتون کی اتنی سیوا ہونی تھی کہ اس سے وابستہ ہر فرد رشک کرتا، مگر ایسا نہیں! ہمارے ہی معاشرے کی اس عظیم خاتون نے لوگوں کے گھروں میں کام کر کر کے اپنے دونوں بیٹوں کو انجینئر بنایا۔ آج ان کے بیٹے ماشااللہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں، اس لیے اب انہوں نے یہ کام ترک کر دیا۔ مگر کیا کیجیے لوگوں کی باتوں کا، کہ اب ان کے بیٹے کسی کو بھی اپنی ماں کے ماضی پر بات کرتے نہیں دیکھنا چاہتے، یہ بات یوں تو اپنی ماں کی اس جدوجہد پر حرف محسوس ہوتی ہے، جس کے ذریعے آج وہ اس قابل ہوئے، لیکن حقیقتاً وہ معاشرے میں اپنی ماں کی مشقت کے ذکر کرنے میں اپنی ماں کے لیے کافی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح ایک خاتون کی اس قدر کٹھن حالات میں کی جانے والی سخت جدوجہد کا صحیح طور پر اظہار ہو رہا ہے اور نہ ہی اعتراف کیا جا رہا ہے، جس سے معاشرے اور خاندان کے لیے ان کی قربانیوں اور مشقت کو آدھی آبادی بے کار کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ ان کی حیثیت دوسرے اور تیسرے درجے سے بھی پست ہو جاتی ہے۔
معاشرے میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے والی خواتین تو بہ خوشی اپنی شناخت اور کام یابی ظاہر کر لیتی ہیں اور اس پر کھُل کر فخر بھی محسوس کرتی ہیں، کیوں کہ اس سے معاشرہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہوتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں ایسی معاشی جدوجہد جسے ان کے اردگرد اور جان پہچان کے لوگوں میں اچنبھے کی بات اور معیوب سمجھا جائے اور یہ محنت ان کے اوپر کلنک کا ٹیکہ بن جائے۔ ایسی جدوجہد کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی پر ظاہر نہ ہونے پائے اور صرف ان تک ہی محدود رہے، تاکہ وہ لوگوں کی نظر میں دیگر لوگوں کی طرح ''قابل احترام'' رہیں۔
انہیں چار لوگوں کے درمیان ''بے چاری'' کے سابقے یا لاحقے کے ساتھ مذکور نہ کیا جائے اور انہیں اپنے ہی خاندان اور رشتے دار اپنی سطح سے نیچے نہ گرا دیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کی خواتین زندگی کی کٹھن جدوجہد میں اپنی اپنی بساط کے مطابق نہایت کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں، مگر یہ لوگوں کے اس ہی غیر مناسب رویے کی وجہ سے کبھی سامنے ہی نہیں آپاتا۔ انہیں سب سے زیادہ معاشرتی سطح پر علیحدگی اور تفریق کا سامنا ہوتا ہے، جو کہ پورے خاندان اور ان کے متعلقین کے لیے ساری زندگی ایک بہت بڑی مشکل کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر دیگر رشتہ داروں سے طبقاتی تفریق زیادہ ہو تو پھر یہ مسئلہ مزید کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سطح پر بھی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک طرف مردوں کے اس معاشرے میں کسی نہ کسی طرح خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں تو دوسری طرف وہ منہگائی اور بے روزگاری کے آلام میں پِسے اپنے کفیل مردوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں، تاکہ دنیا میں ان کی سفید پوشی اور عزت کی روزی روٹی کا بھرم رہ جائے، مگر ٹھہریے۔۔۔ سفید پوشی کی اس چادر میں معاشرے کا ایک ایسا مہیب پہلو چھپا ہے، جو یوں تو معاشی ناہم واریوں میں جکڑے پورے معاشرے کا المیہ ہے، لیکن خواتین بہ طور خاص اس کا شکار ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں مجبوری کے عالم میں محنت کرنے والی خواتین کو اپنے ہی حلقہ احباب میں پشیمانی اور معذرت خواہانہ سے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً جب اس کی توضیح اور توجیح کوئی مجبوری ہو تو پھر بات اور بھی زیادہ احتیاط کی ہو جاتی ہے۔
تعلیم اور تربیت کے سب سے بڑا سبق ''محنت میں عظمت ہے'' اور ''محنت سے کبھی جی نہیں چرانا چاہیے!'' جیسے مقولے اور قول کو معاشرے میں صنف نازک کس قدر بھیانک طریقے سے بھگت رہی ہیں، اس کا اندازہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے، جب کوئی اس مشکل سے دوچار ہو۔ ہمارے اردگرد ایسی بے شمار خواتین موجود ہیں جو اپنے اہل وعیال کے لیے ایسی جدوجہد اور محنت کر رہی ہیں کہ جس کا اندازہ کیا جانا ممکن نہیں، لیکن ایک طرف ان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ یہ جدوجہد صرف اپنے والدین، چھوٹے بہن بھائی اور والدین کی گزر بسر اور بہتر مستقبل کے لیے کر رہی ہیں۔
انہیں اس کام پر کسی کی ستایش یا تعریف کی قطعی کوئی ضرورت نہیں، جب کہ دوسری طرف اس سے قطع نظر جو دل دُوز پہلو اس بات پر غالب اور اس سوچ کا محرک بھی نظر آتا ہے وہ معاشرے میں اپنی ''سفید پوشی'' کا بھرم ہے، کیوں کہ اگر ان کا کام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہ کر بھی چل سکتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گی کہ یہ بات آشکار ہو، کیوں کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ معاشرے میں اپنے ''مقام و مرتبے'' اور ''عزت'' میں کمی محسوس کریں گی۔ ان کی حیثیت میں کمی آئے گی اور وہ معاشرے میں اپنے اوپر ایک ایسا ''داغ'' سجا لیں گی، جس سے رہتی دنیا تک چھٹکارا شاید ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسی خواتین کی کتھا ان کے نام اور شناخت کے بغیر دینے پر مجبور ہیں۔
شہر کی ایک متوسط بستی کی مکین ایک خاتون شوہر کے انتقال کے بعد سے اپنے معاش کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بہ جائے محلے کی خواتین کے کپڑے سیتی ہیں، لیکن یہ کام اتنی راز داری سے کیا جاتا ہے کہ فقط گنتی کے ہی گھر ہیں، جن کے یہاں کے کپڑے سِلنے آتے ہیں۔ اگر کوئی اور ان سے کپڑے سلوانا چاہے تو ان ہی مخصوص خواتین کی مدد لینا پڑتی ہے کیوں کہ انہوں نے یہ کام کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ وہ نہیں چاہتیں کہ لوگوں میں ان کے کام کی خبر پھیلے۔ وہ لوگوں میں اپنی ''سفید پوشی'' کا بھرم قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو ان کے کام کا پتا چلے گا تو پھر وہ لوگوں کی نظروں میں گِر جائیں گی۔ اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ ان کی یہ جدوجہد بس ان تک ہی رہے اور کسی پر بھی آشکار نہ ہو۔
اس ہی طرح جب اپنے گھر میں مختلف دکانوں کے لیے مسالا جات پیسنے والی خاتون سے اس حوالے سے گفت گو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ صرف ان کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال بھی ہے۔ میں نہایت راز داری سے چند ایک احباب کے تعاون سے یہ کام کر رہی ہوں۔ شوہر کچھ عرصے قبل وفات پا چکے، نوعمر بیٹا معمولی نوکری کرتا ہے۔ گھر کا خرچ بڑی مشکل سے نکلتا تھا، اس لیے لوگوں میں اپنے پردہ رکھنے کے لیے یہ کام چُنا۔ میرے کام کرنے سے گھر کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ میری بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو چکا ہے۔ اب مجھے اپنی بیٹی کی شادی کی فکر ہے۔ اگر میری اس جدوجہد کی بات پھیلی تو خدشہ ہے کہ کہیں بیٹی کے سسرال والے رشتہ ختم نہ کر دیں! میں نہایت احتیاط سے یہ کام کرتی ہوں، یہی نہیں میرے بیٹے کو بھی بسا اوقات ایسی ہی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ''امّی، آپ تو اپنے کام کو چار دیواری میں چھپا لیتی ہیں، میں تو اپنے میلے کپڑوں میں جب شہر کی شاہراہوں پر اپنے ادارے کا مال اتارتا ہوں۔ اگر ایسے حلیے میں مجھے کسی شناسا نے دیکھ لیا تو ساری ''سفید پوشی'' کا بھرم نکل جائے گا!'' اس لیے اب وہ اپنے چہرے کو چھپانے کے لیے وہ مخصوص نقاب لگا لیتا ہے، جو عموماً دھول سے بچنے کے لیے الرجی کے مریض لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی شناخت چھپانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ ہم محنت سے جی نہیں چراتے، لیکن ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ اگر ہماری اس کڑی معاشی جدوجہد کا پتا چلا تو ہماری رہی سہی عزت دائر پر لگ جائے گی۔عافیت اسی میں ہے کہ ہم یوں ہی چُھپ چُھپ کر اپنی جدوجہد کرتے رہیں۔ اگر لوگوں کو ہماری اس طرح گزر اوقات کا پتا چلے تو ہمیں ایسا لگے گا کہ جیسے ہم چوری کرتے پکڑے گئے یا سب کے سامنے بھیک مانگ رہے تھے۔
ایک برقع پوش خاتون شہر میں ایک جگہ بیٹھی چنے فروخت کرتی نظر آئیں۔ وہ روزانہ صبح اپنے مزدور شوہر کے ہم راہ گھر سے نکلتی ہیں اور جہاں ان کے شوہر کو کام ہوتا ہے، اس کے ہی نزدیکی علاقے میں یہ ایک جگہ بیٹھ کر گرم چنے بیچتی ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے، لیکن گھر میں جوان بیٹیوں کا ساتھ ہے، اس لیے انہیں گوارا نہیں کہ ان کے ساتھ اس مشقت کا ذکر نتھی ہو، اس ہی لیے وہ گھر سے دور جا کر یہ کام انجام دیتی ہیں۔ عزیز واقارب اور محلے والے ان کے اس کام سے واقف نہیں۔
شہر کی ایک معروف کچی آبادی میں ایک غریب خاتون نے جدوجہد کی ایک بہت بڑی مثال قائم کی۔ اگر کوئی قدردان معاشرہ ہوتا تو اس خاتون کی اتنی سیوا ہونی تھی کہ اس سے وابستہ ہر فرد رشک کرتا، مگر ایسا نہیں! ہمارے ہی معاشرے کی اس عظیم خاتون نے لوگوں کے گھروں میں کام کر کر کے اپنے دونوں بیٹوں کو انجینئر بنایا۔ آج ان کے بیٹے ماشااللہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں، اس لیے اب انہوں نے یہ کام ترک کر دیا۔ مگر کیا کیجیے لوگوں کی باتوں کا، کہ اب ان کے بیٹے کسی کو بھی اپنی ماں کے ماضی پر بات کرتے نہیں دیکھنا چاہتے، یہ بات یوں تو اپنی ماں کی اس جدوجہد پر حرف محسوس ہوتی ہے، جس کے ذریعے آج وہ اس قابل ہوئے، لیکن حقیقتاً وہ معاشرے میں اپنی ماں کی مشقت کے ذکر کرنے میں اپنی ماں کے لیے کافی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح ایک خاتون کی اس قدر کٹھن حالات میں کی جانے والی سخت جدوجہد کا صحیح طور پر اظہار ہو رہا ہے اور نہ ہی اعتراف کیا جا رہا ہے، جس سے معاشرے اور خاندان کے لیے ان کی قربانیوں اور مشقت کو آدھی آبادی بے کار کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ ان کی حیثیت دوسرے اور تیسرے درجے سے بھی پست ہو جاتی ہے۔
معاشرے میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے والی خواتین تو بہ خوشی اپنی شناخت اور کام یابی ظاہر کر لیتی ہیں اور اس پر کھُل کر فخر بھی محسوس کرتی ہیں، کیوں کہ اس سے معاشرہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہوتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں ایسی معاشی جدوجہد جسے ان کے اردگرد اور جان پہچان کے لوگوں میں اچنبھے کی بات اور معیوب سمجھا جائے اور یہ محنت ان کے اوپر کلنک کا ٹیکہ بن جائے۔ ایسی جدوجہد کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی پر ظاہر نہ ہونے پائے اور صرف ان تک ہی محدود رہے، تاکہ وہ لوگوں کی نظر میں دیگر لوگوں کی طرح ''قابل احترام'' رہیں۔
انہیں چار لوگوں کے درمیان ''بے چاری'' کے سابقے یا لاحقے کے ساتھ مذکور نہ کیا جائے اور انہیں اپنے ہی خاندان اور رشتے دار اپنی سطح سے نیچے نہ گرا دیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کی خواتین زندگی کی کٹھن جدوجہد میں اپنی اپنی بساط کے مطابق نہایت کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں، مگر یہ لوگوں کے اس ہی غیر مناسب رویے کی وجہ سے کبھی سامنے ہی نہیں آپاتا۔ انہیں سب سے زیادہ معاشرتی سطح پر علیحدگی اور تفریق کا سامنا ہوتا ہے، جو کہ پورے خاندان اور ان کے متعلقین کے لیے ساری زندگی ایک بہت بڑی مشکل کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر دیگر رشتہ داروں سے طبقاتی تفریق زیادہ ہو تو پھر یہ مسئلہ مزید کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سطح پر بھی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔