ٹھنڈے ٹھار عوام اور متوقع حکمران
عام انتخابات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عوام کا کچھ کر گزرنے کا جنون ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔
عام انتخابات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عوام کا کچھ کر گزرنے کا جنون ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ اب ملک پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا راج ہے۔ عمران خان دھاندلی دھاندلی پکار رہے ہیں' مولانا فضل الرحمن خیبر پختونخوا میں اپنا مینڈیٹ چوری ہونے کا واویلہ کر رہے ہیں۔ سندھ میں قوم پرست احتجاج کر رہے ہیں لیکن عوام خاموش ہے۔ حالانکہ یہی عوام تھے جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لوڈشیڈنگ پر سڑکوں پر آ کر ہنگامہ آرائی کرتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ کے عادی ہو گئے ہیں۔
اب انھیں خان صاحب کی پرواہ ہے نہ حضرت مولانا ان کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ الیکشن کیا چیز ہوتا ہے' عوام کا سارا غصہ اور نفرت پولنگ والے دن ختم ہو جاتا ہے۔ الیکشن مہم کے ایک مہینے نے غریب عوام جلسوں میں نعرے مار مار کر ہلکان ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی زیادتی یا ظلم کے خلاف سڑکوں پر آ سکیں۔ اب تو اگر لوڈشیڈنگ میں ایک دو گھنٹے کی کمی ہو جائے تو لوگ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے یہ تین چار ماہ بڑے اطمینان کے ہیں۔ عوام کے جذبات ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور انھیں نئے حکمرانوں سے امید ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی کچھ نہ کچھ اچھا کر دیں گے۔
میاں نواز شریف مجھے بڑے خوش قسمت نظر آ رہے ہیں۔ جو کچھ ہونا ہے وہ اسی نگراں دور میں ہو جائے گا۔ اس موجودہ جان لیوا لوڈشیڈنگ سے بھی وہ بری ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ گالیاں کس کو دیں۔ پہلے تو راجہ پرویز اشرف تھے' اب وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر مصدق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں ہے۔ رہے وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو' انھیں بزرگی اور بے اختیاری کا ایج حاصل ہے۔ الیکشن کے بعد سے اب تک یوں نظر آتا ہے کہ ملک پر کسی کی حکمرانی نہیں ہے۔ بیوروکریسی تو متوقع وزیراعظم کے استقبال کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے سامنے میر ہزار خان کھوسو کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ تمام محکمے اسٹیٹس کو کی حالت میں ہے۔
اس کھیل میں عوام کو اپنی اوقات یاد آ گئی۔ 18,18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور قیادت کی گرمی' اس کے باوجود ہر طرف خاموشی' حکومت کے لیے ایسی صورت حال کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ان حالات میں بے چارے عمران خان کی کون سنے گا۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر بیٹھے ہیں پی ٹی آئی کے ورکر کب تک احتجاج کرتے رہیں گے۔ خان صاحب کے احتجاج میں پیپلز پارٹی شامل ہو گی نہ حضرت مولانا۔ ایم کیو ایم بھی ان کے ساتھ نہیں ہو گی۔ ق لیگ کی سائیکل کے تو دونوں ٹائر پنکچر ہیں اور اس کے چین کی گراریاں بھی بھی ٹوٹ چکی ہیں' وہ احتجاج میں شامل بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لیے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلے گی۔ سب کو اپنے اپنے حصے پر ہی قناعت کرنی پڑے گی۔
میاں نواز شریف تو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کرا کے کم از کم پنجاب کے عوام مطمئن کر دیں گے۔ میاں شہباز شریف بھی کچھ نئی سڑکیں اور پل بنا کر کریڈٹ لے لیں گے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سکون سے حکمرانی کرتی رہے گی۔ وہاں ایم کیو ایم اس کے لیے کوئی مسائل پیدا نہیں کرے گی۔ کراچی اور سندھ میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پہلے ہی کم ہے۔ اندرون سندھ جاگیرداروں کا اقتدار ہے۔ وہاں حکومت کی کارکردگی نہیں دیکھی جاتی بلکہ وڈیرہ سائیں کو سلام کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ تو تحریک انصاف کو پیش آئے گا۔ خان صاحب کی جماعت خیبر پختونخوا میں حکمران ہے۔ اس صوبے کی پشتو بولنے والی بیلٹ میں قوم پرستی کے جذبات بھی بہت بلند ہیں اور اس کے ساتھ مذہب بھی شامل ہے۔
خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ ایریاز کے ساتھ قبائلی علاقہ جات ہیں۔ ان قبائلی علاقہ جات میں بھی ایک پاٹا ہے اور دوسرا فاٹا ہے۔ فاٹا میں صوبائی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ فاٹا میں ڈرون حملے عرصے سے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انھی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان سرگرم عمل ہیں۔ یہیں سے خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ ایریاز کے شہری علاقوں میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ اب اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ وہ ان معاملات کو کیسے ہینڈل کرتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ فاٹا میں ہونے والے ڈرون حملوں پر تو تحریک انصاف یہ کہہ کر جان چھڑا سکتی ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی وجہ سے ہو رہے ہیں لیکن پشاور' مردان' چار سدہ' کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی کو وہ مرکزی حکومت پر نہیں ڈال سکتے۔ ان شہروں کے عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اے این پی اب رخصت ہو چکی ہے۔
وہ اپنی تمامتر کوششوں کے باوجود خیبر پختونخوا کے شہروں کو پر امن نہیں بنا سکی۔ اب تحریک انصاف اس کی جگہ اقتدار میں ہو گی۔ تحریک انصاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر آ گئی ہے۔ خان صاحب کے لیے یہ محاذ آسان نہیں ہے۔ قوم پرست ابھی خاموش ہیں۔ ان کے زخم جب تھوڑے سے بھرے تو ان کا پہلا نعرہ یہی ہو گا کہ خیبر پختونخوا میں جس جماعت کی حکومت ہے اس کا سربراہ پشتو نہیں جانتا اور نہ ہی وہ اس صوبے کا رہائشی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی انھیں کوئی رعایت نہیں دیں گے۔ باقی رہ گئے طالبان' میری دعا ہے کہ خان صاحب ان سے محفوظ رہیں۔ میاں صاحب بھی مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں لیکن آنے والا وقت اتنا آسان نہیں ہو گا۔ زیادہ گہرائی میں جا کر سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف جنرل صفدر حسین اور نیک محمد کے مذاکرات کا حشر دیکھ لیں۔ سوات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات تو ابھی کل کی باتیں ہیں' ہمارے کچھ دوست اس معاملے کو بڑا سادہ اور آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ ایسا سیدھا مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ چند دنوں کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
اب انھیں خان صاحب کی پرواہ ہے نہ حضرت مولانا ان کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ الیکشن کیا چیز ہوتا ہے' عوام کا سارا غصہ اور نفرت پولنگ والے دن ختم ہو جاتا ہے۔ الیکشن مہم کے ایک مہینے نے غریب عوام جلسوں میں نعرے مار مار کر ہلکان ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی زیادتی یا ظلم کے خلاف سڑکوں پر آ سکیں۔ اب تو اگر لوڈشیڈنگ میں ایک دو گھنٹے کی کمی ہو جائے تو لوگ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے یہ تین چار ماہ بڑے اطمینان کے ہیں۔ عوام کے جذبات ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور انھیں نئے حکمرانوں سے امید ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی کچھ نہ کچھ اچھا کر دیں گے۔
میاں نواز شریف مجھے بڑے خوش قسمت نظر آ رہے ہیں۔ جو کچھ ہونا ہے وہ اسی نگراں دور میں ہو جائے گا۔ اس موجودہ جان لیوا لوڈشیڈنگ سے بھی وہ بری ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ گالیاں کس کو دیں۔ پہلے تو راجہ پرویز اشرف تھے' اب وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر مصدق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں ہے۔ رہے وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو' انھیں بزرگی اور بے اختیاری کا ایج حاصل ہے۔ الیکشن کے بعد سے اب تک یوں نظر آتا ہے کہ ملک پر کسی کی حکمرانی نہیں ہے۔ بیوروکریسی تو متوقع وزیراعظم کے استقبال کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے سامنے میر ہزار خان کھوسو کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ تمام محکمے اسٹیٹس کو کی حالت میں ہے۔
اس کھیل میں عوام کو اپنی اوقات یاد آ گئی۔ 18,18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور قیادت کی گرمی' اس کے باوجود ہر طرف خاموشی' حکومت کے لیے ایسی صورت حال کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ان حالات میں بے چارے عمران خان کی کون سنے گا۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر بیٹھے ہیں پی ٹی آئی کے ورکر کب تک احتجاج کرتے رہیں گے۔ خان صاحب کے احتجاج میں پیپلز پارٹی شامل ہو گی نہ حضرت مولانا۔ ایم کیو ایم بھی ان کے ساتھ نہیں ہو گی۔ ق لیگ کی سائیکل کے تو دونوں ٹائر پنکچر ہیں اور اس کے چین کی گراریاں بھی بھی ٹوٹ چکی ہیں' وہ احتجاج میں شامل بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لیے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلے گی۔ سب کو اپنے اپنے حصے پر ہی قناعت کرنی پڑے گی۔
میاں نواز شریف تو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کرا کے کم از کم پنجاب کے عوام مطمئن کر دیں گے۔ میاں شہباز شریف بھی کچھ نئی سڑکیں اور پل بنا کر کریڈٹ لے لیں گے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سکون سے حکمرانی کرتی رہے گی۔ وہاں ایم کیو ایم اس کے لیے کوئی مسائل پیدا نہیں کرے گی۔ کراچی اور سندھ میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پہلے ہی کم ہے۔ اندرون سندھ جاگیرداروں کا اقتدار ہے۔ وہاں حکومت کی کارکردگی نہیں دیکھی جاتی بلکہ وڈیرہ سائیں کو سلام کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ تو تحریک انصاف کو پیش آئے گا۔ خان صاحب کی جماعت خیبر پختونخوا میں حکمران ہے۔ اس صوبے کی پشتو بولنے والی بیلٹ میں قوم پرستی کے جذبات بھی بہت بلند ہیں اور اس کے ساتھ مذہب بھی شامل ہے۔
خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ ایریاز کے ساتھ قبائلی علاقہ جات ہیں۔ ان قبائلی علاقہ جات میں بھی ایک پاٹا ہے اور دوسرا فاٹا ہے۔ فاٹا میں صوبائی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ فاٹا میں ڈرون حملے عرصے سے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انھی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان سرگرم عمل ہیں۔ یہیں سے خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ ایریاز کے شہری علاقوں میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ اب اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ وہ ان معاملات کو کیسے ہینڈل کرتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ فاٹا میں ہونے والے ڈرون حملوں پر تو تحریک انصاف یہ کہہ کر جان چھڑا سکتی ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی وجہ سے ہو رہے ہیں لیکن پشاور' مردان' چار سدہ' کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی کو وہ مرکزی حکومت پر نہیں ڈال سکتے۔ ان شہروں کے عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اے این پی اب رخصت ہو چکی ہے۔
وہ اپنی تمامتر کوششوں کے باوجود خیبر پختونخوا کے شہروں کو پر امن نہیں بنا سکی۔ اب تحریک انصاف اس کی جگہ اقتدار میں ہو گی۔ تحریک انصاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر آ گئی ہے۔ خان صاحب کے لیے یہ محاذ آسان نہیں ہے۔ قوم پرست ابھی خاموش ہیں۔ ان کے زخم جب تھوڑے سے بھرے تو ان کا پہلا نعرہ یہی ہو گا کہ خیبر پختونخوا میں جس جماعت کی حکومت ہے اس کا سربراہ پشتو نہیں جانتا اور نہ ہی وہ اس صوبے کا رہائشی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی انھیں کوئی رعایت نہیں دیں گے۔ باقی رہ گئے طالبان' میری دعا ہے کہ خان صاحب ان سے محفوظ رہیں۔ میاں صاحب بھی مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں لیکن آنے والا وقت اتنا آسان نہیں ہو گا۔ زیادہ گہرائی میں جا کر سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف جنرل صفدر حسین اور نیک محمد کے مذاکرات کا حشر دیکھ لیں۔ سوات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات تو ابھی کل کی باتیں ہیں' ہمارے کچھ دوست اس معاملے کو بڑا سادہ اور آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ ایسا سیدھا مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ چند دنوں کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔