سلطان بن ادھم اور نیتوں کا پھل

آج کے زمانے میں بھی کچھ حکمران ایسے ضرور ہیں جو ہر وقت خدمتِ خلق کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔

nasim.anjum27@gmail.com

کامیابی و ناکامی کا دارومدار نیتوں پر ہوا کرتا ہے، عزت و ذلت بھی اپنے کارناموں اورکرتوتوں کی بنا پر ہی حصے میں آتی ہے۔ زمانے کے منظر نامے پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اہل بصیرت تلخ وشیریں تجربات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں، ان ہی میں سے کچھ دنیا کے اسیر ہوجاتے ہیں اورکچھ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ لگا لیتے ہیں اور زندگی کو مانند حباب سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں زندگی دھوپ چھائوں کی مانند ہے، شام ہوتے دیر نہیں لگتی ہے، لہٰذا وہ حرص و ہوس کے جال میں پھنسنے سے پہلے ہی صداقت کی راہوں پر سفر شروع کردیتے ہیں۔

زمانہ گزرا جب سلطان بن ادھم بھی تعیشات زیست میں کھوئے ہوئے تھے کہیں حقیقی منزل کی تلاش بھی انھیں بے قرار رکھتی جیسے سب کچھ پا کر بھی کچھ نہ پایا ہو بے چینی مسلسل بڑھ رہی تھی پھر حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ عشق حقیقی کے رنگ میں رنگ گئے اور سلطنت بلخ کو اس طرح ٹھوکر ماری جیسے مٹی کا برتن ہو یا سنگریزے ہوں۔

ایک شب یوں ہوا کہ وہ نیند کے صحرا میں گم تھے، اسی دوران قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی، ان کی آنکھ کھل گئی، دیکھا کچھ لوگ شاہی بالاخانہ پر چڑھ آئے ہیں اور مٹرگشت کررہے ہیں۔ سلطان بن ادھم نے ان کے آنے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں۔ اونٹ اور یہاں؟ سلطان نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ انھوں نے دلیل پیش کی کہ یہ بات بالکل اسی طرح ہے جس طرح تو عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر خدائے حقیقی کی تلاش میں سرگرداں ہے، یہ کہہ کر وہ آناً فاناً غائب ہوگئے۔

یہ واقعہ ایسا تھا جس نے بادشاہ کی زندگی بدل دی اور ان کا دل دنیا کے ٹھاٹھ باٹھ سے اٹھ گیا ملک و سلطنت کو خیرباد کیا اور آدھی رات کو سلطان نے اپنے جسم کو کمبل میں لپیٹا اور سلطنت کی حدود سے باہر نکل گئے اور پھر ہشیار پورکے ویرانے میں جاکر ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ دس سال تک مسلسل عبادت و ریاضت میں مصروف رہے۔ نفسانی خواہشات کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا، ایک بار سلطنت بلخ کے وزیر کا وہاں سے گزر ہوا۔

وزیر نے عجیب نظارہ دیکھا، دریا کا کنارہ ہے اور ایک آدمی جوکہ کبھی بلخ کا بادشاہ تھا اپنی پھٹی ہوئی گدڑی میں ٹانکے لگا رہا ہے۔ وزیر نے بڑے دکھ کے ساتھ سوچا، کتنا احمق شخص ہے، ہفتِ اقلیم کی سلطنت کو ٹھوکر مارکرگدا گروں کی سی زندگی گزار رہا ہے۔


حضرت ابراہیم بن ادھم کو اپنے کشف کے ذریعے وزیر کے خیالات کا پتہ چل گیا لہذا اس اس بزرگِ دانا نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور اپنے رب سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ ''اے اللہ تعالیٰ میری سوئی مجھے واپس عطا کی جائے'' یہ دعا انھوں نے با آواز بلند کی تھی۔ دعا کے مستجاب ہونے میں لمحے بھرکی دیر نہیں لگی، وزیر نے دیکھا کہ بے شمار مچھلیاں پانی سے نمودار ہوئیں اور ان کے لبوں میں سونے کی سوئیاں دبی ہوئی تھیں اور ان کے منہ دریا کے پانی سے جھانک رہے تھے۔ یہ کرامت دیکھ کر وزیر اپنی سوچ پر سخت شرمندہ نظر آرہا تھا، وزیر کے چہرے کے اڑتے ہوئے رنگ کو دیکھ کر ابراہیم بن ادھمؒ نے ارشاد فرمایا کہ ''اے امیر تو ہی اب فیصلہ کر کہ یہ سلطنت پائیدار ہے یا وہ بلخ کی؟ جوکہ حقیر ترین تھی۔''

یقینا یہ شخصیات بڑے مرتبے والی تھیں۔ جنھوں نے تخت و تاج کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اور مخلوق خدا کو فیض پہنچانے کے لیے زندگیاں وقف کردیں۔

آج کے زمانے میں بھی کچھ حکمران ایسے ضرور ہیں جو ہر وقت خدمتِ خلق کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے علاوہ دنیا بھر کے سربراہان مملکت اپنے وطن اور اپنی رعایا سے مخلص ہوتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ امت مسلمہ کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کے خلاف ہیں۔ طیب اردگان استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکی کے سابق وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ بارہویں منتخب صدر ہیں۔

ایک سچا مسلمان اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے اپنی سچائی، بے باکی اور حب الوطنی کے باعث اللہ نے انھیں یہ اعزاز بخشا ہے کہ آج پوری دنیا میں ان کی عزت ہے اور یہ عزت و وقار بھی اللہ والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے، پچھلوں دنوں انھوں نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ فلسطینیوں کا خون بہایا جارہاہے اور یہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے اور بیت المقدس مسلمانوں کے لیے سرخ لائن ہے۔ ہم جلد ہی مسلم دنیا کو حرکت میں لائیںگے ان کی اس تقریر نے ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل اور بھارت کو ہلاکر رکھ دیا۔ انتقاماً ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو معاشی طور پرکمزور کرنے کی گھنائونی سازش کی لیکن طیب اردگان کی حکمت عملی، دانشوری، ترکی کی معیشت پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ اللہ پر بھروسا کرنے والے راسخ العقیدہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مصائب اور آزمائش بھی آتی ہیں۔ جذبہ سچا ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔

2018 کے انتخابات میں عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ یقینا یہ اللہ کی مدد تھی ورنہ پاکستان خطرات میں گھرچکا تھا۔ ایک وقت تھا جب سابقہ حکمران کو اقوام متحدہ میں تقریر پڑھنے کا موقع ملا، انھیں باقاعدہ طور پر تقریر لکھ کر دی گئی۔ جس میں کلبھوشن یادیوکا بھی تذکرہ تھا اور مسئلہ کشمیر اور انڈیا کا پاکستان میں مداخلت کو روکنے اور اس کے سدباب پر روشنی ڈالی گئی تھی لیکن سابقہ بادشاہ سلامت نے دانستہ طور پر حساس اور اہم موضوعات کو زیر بحث لانے سے گریز کیا اور اب قومی ہیرو وزیراعظم عمران خان کو اقوام متحدہ کی کانفرنس کے لیے دعوت نامہ دیا گیا ہے تو انھوں نے مشاورت سے تقریر لکھ لی ہے جسے وہ وقت مقررہ پر پڑھیںگے۔ بغیر کسی خوف و خطر کے اللہ نے چاہا تو پاکستان کے عزت و وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان سے کھلواڑ کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ مزید آگے کیا ہونا ہے، یہ وقت بتائے گا۔

نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز ایک جگہ سے دوسری اس جگہ جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے جہاں گاڑی کے ذریعے سفر کیا جاسکتا تھا۔ غور نہ کرنے والوںکو وہ دور یاد کیوں نہیں آرہا ہے جب میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کا قافلہ معصوم بچوں کو اپنی مہنگی ترین گاڑیوں تلے کچل کرگزر جاتا تھا اور یہ مغرور لوگ مرنے والے بچوں اور آہ و بکا کرنے والے ماں باپ کو پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے تھے اور آج ملک کا وزیراعظم ہیلی کاپٹر میں سفر کرتا ہے تو سوشل میڈیا پر لوگ واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں بھی ہیلی کاپٹر چاہیے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جناب عمران خان نے وزیراعظم ہائوس میں رہنے اور پروٹوکول لینے تک کو سختی سے منع کردیا اور جو کہا اس کے لیے کام کررہے ہیں اور پر عزم ہیں لیکن یہ بات حیرت اور افسوس کی ہے کہ نئے پاکستان میں شاید سندھ شامل نہیں ہے۔

اس کی وجہ ہے سندھ خصوصاً کراچی میں چوری، ڈکیتی اور نوجوانوں کا قتل اس طرح کیا جاتا ہے جس طرح جانوروں کا بلکہ اس سے بھی بد تر حال میں ہیں۔ بلال نامی میٹرک کے طالب علم کو پولیس اہلکاروں کی گولیوں نے چھلنی کردیا اس سے قبل بھی ایسے سانحات شہر کی فضا میں خوف و ہراس اور نا انصافی کی فضا کو پروان چڑھاچکے ہیں۔گزشتہ دنوں پنجاب میں دو موٹر سائیکل سواروں کو محض اس لیے گولیاں مار دی گئی کہ انھوں نے موٹر سائیکل نہیں روکی تھی۔ پولیس ڈپارٹمنٹ قانون سے بالاتر ہے، یا ان کے لیے قوانین میں ہی نہیں پولیس کے اعلیٰ افسران انھیں بریفنگ دیں ٹریننگ کے ذریعے انسان بننے اور عارضی زندگی کے بارے میں بتائیں کہ زندگی نہ شاہوں کے ساتھ وفا کرتی ہے اور نہ گداگروں کو معاف کرتی ہے۔ لہٰذا آپے میں رہنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story