بہتر ٹیم کا انتخاب احسان مانی کے لیے ایک چیلنج
نشریاتی حقوق اور پی ایس ایل معاملات فوری توجہ کے منتظر
توقعات کے عین مطابق حکومت کے بعد تبدیلی کی لہریں پاکستان کرکٹ بورڈ کے دروازے تک بھی پہنچ چکی ہیں۔
ابھی تک وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ دوست ذاکر خان کی بطور ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز تقرری اور اسسٹنٹ منیجر عون زیدی کی جگہ منصور رانا کو ایشیا کپ میں قومی سکواڈ کے ہمراہ روانہ کرنے کا فیصلہ اور ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی کی پنجاب حکومت میں واپسی جیسی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، آگے چل کر پی سی بی میں مزید اکھاڑ پچھاڑ بھی دیکھنے میں آئے گی،گورننگ بورڈ مکمل کرنے کے لیے سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی جگہ احسان مانی اور عارف اعجاز کا خلا پر کرنے کے لیے اسد علی خان کو لایا جاچکا ہے۔
مفتاح اسماعیل کی رخصتی کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کی نمائندگی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء کریں گے،یوبی ایل نے ٹیم ختم کرکے اپنی رکنیت بھی گنوادی،اس کی جگہ کے آر ایل کو گورننگ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے، ڈیپارٹمنٹ نے اپنے نمائندگی کے لیے محمد ایاز بٹ کو نامزد کیا ہے، سیالکوٹ ریجن کو اس وقت ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہا ہے، الیکشن مکمل ہونے پر اس کا نمائندہ گورننگ بورڈ کا رکن بنے گا، فی الحال سیالکوٹ کو ووٹ کا موقع نہیں ملے گا۔
منگل کو نئے چیئرمین پی سی بی کے لیے انتخاب میں وزیر اعظم اور پیٹرن انچیف پی سی بی عمران خان کے نامزدہ کردہ ممبرز احسان مانی اور اسد علی خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین (واپڈا)، ڈاکٹر نجیب صائم (ایچ بی ایل)، محمد ایاز بٹ (کے آر ایل)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء (ایس ایس جی سی)، مراد اسماعیل (کوئٹہ ریجن)، شاہ ریز عبداللہ روکھڑی (لاہور ریجن)، کبیر احمد خان (فاٹا ریجن) شریک ہونگے، کیپٹن (ر) جہانزیب خان (سیکرٹری وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ) بھی موجود لیکن ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔گرچہ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) افضل حیدر نے نئے چیئرمین کے انتخاب کے لیے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔
اس میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے، اعتراضات داخل کرنے اور فارمز کی سکروٹنی، اعتراضات کی سماعت، کاغذات نامزدگی کی واپسی اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنے سمیت مکمل کارروائی کا پلان دیا ہے، تاہم امکان یہی ہے کہ احسان مانی کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں ہوگا اور نامزدگی کے بعد انتخابی عمل کی مزید کارروائی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، یاد رہے کہ پی سی بی آئین کے مطابق ان کے بلا مقابلہ انتخاب کے لیے اجلاس میں کم ازکم 6اراکین گورننگ بورڈ کا موجود ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کرکٹ کا کوئی بھی عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، اگر اچھی کارکردگی پر ستائش ہوتی ہے تو غلطیوں پر تنقیدی توپیں بھی خاموش نہیں رہتیں، احسان مانی کو بھی کئی چلنجز کا سامنا ہوگا،اولین کام انتظامی ٹیم تشکیل دینا ہے، پی سی بی میں بیشتر عہدوں پر تعیناتیاں ذاتی تعلقات کی بناپر ہوتی رہی ہیں، اس کی ایک مثال شکیل شیخ ہیں، گورننگ بورڈ کی رکنیت ختم ہونے کے بعد ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات سونپ دیئے گئے۔
اسی طرح دیگر کئی شعبوں میں کئی ایسی شخصیات بھی کھپائی گئیں جن کا کرکٹ سے دور دور تک کبھی واسطہ نہیں رہا، پی ایس ایل کا پودا سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے لگایا اور پروان بھی چڑھایا لیکن اس کی چھائوں میں کئی ایسے عہدیداروں کو بیٹھنے کا موقع ملا جن پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی بازگشت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور دیگر حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی رہی ہے۔
پی سی بی کے نشریاتی حقوق کی فروخت اور پی ایس ایل ڈرافٹ سمیت کے عمل مکمل کرنے کے لیے زیادہ وقت باقی نہیں،اس کارروائی کے لیے موزوں ٹیم کا ہونا اشد ضروری ہے، پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی سے متاثر ہونے والی کرکٹ کا معاملہ بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، پی سی بی نے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں ہرجانہ وصولی کے لیے کیس دائر کررکھا ہے،نئے چیئرمین کے لیے یہ فیصلہ بھی اہم ہوگا کہ موقف پر ڈٹے رہنا یا پھر باہمی سیریز کی بحالی کے لیے پیش رفت کرنا ہے۔
مالیاتی اور انتظامی امور میں یکساں مہارت رکھنے والے احسان مانی پی سی بی اور پی ایس ایل کے معاملات میں بہتری لانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے کرکٹ کے انتظامی امور میں 1989 میں قدم رکھا تھا جب وہ آئی سی سی میں پاکستان کے نمائندے منتخب ہوئے، ورلڈکپ 1996کے انعقاد میں بھی اہم کردار ادا کیا، میگا ایونٹ کے لیے آئی سی سی کی ایڈوائزری کمیٹی میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر شامل ہوئے، اسی برس انہیں آئی سی سی کی فنانس اور مارکیٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بھی منتخب کیا گیا، جون 2002 میں یہ عہدہ تحلیل کردیا گیا۔
عالمی گورننگ باڈی کے نائب صدر بنے اور مختلف کمیٹیوں میں بھی اہم ذمہ داریاں انجام دیں، بھارت کے جگموہن ڈالمیا اور احسان مانی نے مشترکہ کاوشوں سے کرکٹ میںسرمایہ لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، قائدانہ صلاحیتوں اور مالیاتی امور میں مہارت کی بدولت وہ جون 2003 میں آئی سی سی کے صدر بن گئے اور 2006 تک اس عہدے پر برقرار رہے، متعدد بڑے بینکوں کے اہم عہدوں پر فرائض انجام دیے اور اس وقت بھی برطانیہ کے متعدد بینکوں اور ریئل سٹیٹ کمپنیز کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔
احسان مانی شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں،آئی سی سی کی صدارت چھوڑنے کے باوجود کرکٹ کے امور میں پی سی بی کی معاونت کرتے رہے،مالیاتی امور کی مہارت اور کرکٹ کی دنیا کا بڑا نام ہونے کی وجہ سے سابق آئی سی سی چیف سے پی سی بی کے معاملات میں بہتری لانے کیلئے بڑی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں لیکن ایک لیڈر کے طور اچھی ٹیم کا انتخاب کئے بغیر انہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں دشواری ہوگی۔
دوسری جانب قومی کرکٹ ٹیم کے مصروف سیزن کا آغاز یواے ای میں شیڈول ایشیا کپ سے ہوریا ہے، ایبٹ آباد میں آرمی ٹرینرز کے زیر نگرانی مختلف مشقوں میں جسمانی استعداد بہتر بنانے اور پر فضا مقام پر تفریح میں بہترین وقت گزانے والے قومی کرکٹرز کو لاہور میں تربیتی کیمپ میں شرکت کرنا ہے، سلیکشن کمیٹی نے فی الحال 18کھلاڑیوں کو قذافی سٹیڈیم اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے طلب کیا ہے،ان میں کپتان سرفراز احمد، فخر زمان، محمد حفیظ،شان مسعود، امام الحق، شعیب ملک، حارث سہیل، آصف علی، بابر اعظم، شاداب خان، محمد نواز، عماد وسیم، حسن علی، عثمان خان شنواری، محمد عامر، جنید خان، شاہین شاہ آفریدی اور فہیم اشرف شامل ہیں۔
تربیتی کیمپ 10ستمبر تک جاری رہے گا، اس دوران حتمی سکواڈ کا اعلان کیا جائے گا،ٹریننگ میں 4اوپنرز شریک ہوں گے، اگر شان مسعود پر سلیکٹرز مہربان ہوگئے تو محمد حفیظ کو باہر بیٹھنا پڑ سکتا ہے،اگر روٹیشن پالیسی کے تحت سینئرز کو آرام دیا گیا تو شاہین آفریدی کی سکواڈ میں جگہ بن سکتی ہے،چیمپئنز ٹرافی فائنل میں شکست کے بعد زخم چاٹنے والی بھارتی ٹیم کیساتھ میچ پر دنیا بھر کے شائقین کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
ابھی تک وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ دوست ذاکر خان کی بطور ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز تقرری اور اسسٹنٹ منیجر عون زیدی کی جگہ منصور رانا کو ایشیا کپ میں قومی سکواڈ کے ہمراہ روانہ کرنے کا فیصلہ اور ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی کی پنجاب حکومت میں واپسی جیسی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، آگے چل کر پی سی بی میں مزید اکھاڑ پچھاڑ بھی دیکھنے میں آئے گی،گورننگ بورڈ مکمل کرنے کے لیے سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی جگہ احسان مانی اور عارف اعجاز کا خلا پر کرنے کے لیے اسد علی خان کو لایا جاچکا ہے۔
مفتاح اسماعیل کی رخصتی کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کی نمائندگی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء کریں گے،یوبی ایل نے ٹیم ختم کرکے اپنی رکنیت بھی گنوادی،اس کی جگہ کے آر ایل کو گورننگ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے، ڈیپارٹمنٹ نے اپنے نمائندگی کے لیے محمد ایاز بٹ کو نامزد کیا ہے، سیالکوٹ ریجن کو اس وقت ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہا ہے، الیکشن مکمل ہونے پر اس کا نمائندہ گورننگ بورڈ کا رکن بنے گا، فی الحال سیالکوٹ کو ووٹ کا موقع نہیں ملے گا۔
منگل کو نئے چیئرمین پی سی بی کے لیے انتخاب میں وزیر اعظم اور پیٹرن انچیف پی سی بی عمران خان کے نامزدہ کردہ ممبرز احسان مانی اور اسد علی خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین (واپڈا)، ڈاکٹر نجیب صائم (ایچ بی ایل)، محمد ایاز بٹ (کے آر ایل)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء (ایس ایس جی سی)، مراد اسماعیل (کوئٹہ ریجن)، شاہ ریز عبداللہ روکھڑی (لاہور ریجن)، کبیر احمد خان (فاٹا ریجن) شریک ہونگے، کیپٹن (ر) جہانزیب خان (سیکرٹری وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ) بھی موجود لیکن ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔گرچہ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) افضل حیدر نے نئے چیئرمین کے انتخاب کے لیے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔
اس میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے، اعتراضات داخل کرنے اور فارمز کی سکروٹنی، اعتراضات کی سماعت، کاغذات نامزدگی کی واپسی اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنے سمیت مکمل کارروائی کا پلان دیا ہے، تاہم امکان یہی ہے کہ احسان مانی کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں ہوگا اور نامزدگی کے بعد انتخابی عمل کی مزید کارروائی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، یاد رہے کہ پی سی بی آئین کے مطابق ان کے بلا مقابلہ انتخاب کے لیے اجلاس میں کم ازکم 6اراکین گورننگ بورڈ کا موجود ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کرکٹ کا کوئی بھی عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، اگر اچھی کارکردگی پر ستائش ہوتی ہے تو غلطیوں پر تنقیدی توپیں بھی خاموش نہیں رہتیں، احسان مانی کو بھی کئی چلنجز کا سامنا ہوگا،اولین کام انتظامی ٹیم تشکیل دینا ہے، پی سی بی میں بیشتر عہدوں پر تعیناتیاں ذاتی تعلقات کی بناپر ہوتی رہی ہیں، اس کی ایک مثال شکیل شیخ ہیں، گورننگ بورڈ کی رکنیت ختم ہونے کے بعد ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات سونپ دیئے گئے۔
اسی طرح دیگر کئی شعبوں میں کئی ایسی شخصیات بھی کھپائی گئیں جن کا کرکٹ سے دور دور تک کبھی واسطہ نہیں رہا، پی ایس ایل کا پودا سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے لگایا اور پروان بھی چڑھایا لیکن اس کی چھائوں میں کئی ایسے عہدیداروں کو بیٹھنے کا موقع ملا جن پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی بازگشت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور دیگر حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی رہی ہے۔
پی سی بی کے نشریاتی حقوق کی فروخت اور پی ایس ایل ڈرافٹ سمیت کے عمل مکمل کرنے کے لیے زیادہ وقت باقی نہیں،اس کارروائی کے لیے موزوں ٹیم کا ہونا اشد ضروری ہے، پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی سے متاثر ہونے والی کرکٹ کا معاملہ بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، پی سی بی نے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں ہرجانہ وصولی کے لیے کیس دائر کررکھا ہے،نئے چیئرمین کے لیے یہ فیصلہ بھی اہم ہوگا کہ موقف پر ڈٹے رہنا یا پھر باہمی سیریز کی بحالی کے لیے پیش رفت کرنا ہے۔
مالیاتی اور انتظامی امور میں یکساں مہارت رکھنے والے احسان مانی پی سی بی اور پی ایس ایل کے معاملات میں بہتری لانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے کرکٹ کے انتظامی امور میں 1989 میں قدم رکھا تھا جب وہ آئی سی سی میں پاکستان کے نمائندے منتخب ہوئے، ورلڈکپ 1996کے انعقاد میں بھی اہم کردار ادا کیا، میگا ایونٹ کے لیے آئی سی سی کی ایڈوائزری کمیٹی میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر شامل ہوئے، اسی برس انہیں آئی سی سی کی فنانس اور مارکیٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بھی منتخب کیا گیا، جون 2002 میں یہ عہدہ تحلیل کردیا گیا۔
عالمی گورننگ باڈی کے نائب صدر بنے اور مختلف کمیٹیوں میں بھی اہم ذمہ داریاں انجام دیں، بھارت کے جگموہن ڈالمیا اور احسان مانی نے مشترکہ کاوشوں سے کرکٹ میںسرمایہ لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، قائدانہ صلاحیتوں اور مالیاتی امور میں مہارت کی بدولت وہ جون 2003 میں آئی سی سی کے صدر بن گئے اور 2006 تک اس عہدے پر برقرار رہے، متعدد بڑے بینکوں کے اہم عہدوں پر فرائض انجام دیے اور اس وقت بھی برطانیہ کے متعدد بینکوں اور ریئل سٹیٹ کمپنیز کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔
احسان مانی شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں،آئی سی سی کی صدارت چھوڑنے کے باوجود کرکٹ کے امور میں پی سی بی کی معاونت کرتے رہے،مالیاتی امور کی مہارت اور کرکٹ کی دنیا کا بڑا نام ہونے کی وجہ سے سابق آئی سی سی چیف سے پی سی بی کے معاملات میں بہتری لانے کیلئے بڑی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں لیکن ایک لیڈر کے طور اچھی ٹیم کا انتخاب کئے بغیر انہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں دشواری ہوگی۔
دوسری جانب قومی کرکٹ ٹیم کے مصروف سیزن کا آغاز یواے ای میں شیڈول ایشیا کپ سے ہوریا ہے، ایبٹ آباد میں آرمی ٹرینرز کے زیر نگرانی مختلف مشقوں میں جسمانی استعداد بہتر بنانے اور پر فضا مقام پر تفریح میں بہترین وقت گزانے والے قومی کرکٹرز کو لاہور میں تربیتی کیمپ میں شرکت کرنا ہے، سلیکشن کمیٹی نے فی الحال 18کھلاڑیوں کو قذافی سٹیڈیم اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے طلب کیا ہے،ان میں کپتان سرفراز احمد، فخر زمان، محمد حفیظ،شان مسعود، امام الحق، شعیب ملک، حارث سہیل، آصف علی، بابر اعظم، شاداب خان، محمد نواز، عماد وسیم، حسن علی، عثمان خان شنواری، محمد عامر، جنید خان، شاہین شاہ آفریدی اور فہیم اشرف شامل ہیں۔
تربیتی کیمپ 10ستمبر تک جاری رہے گا، اس دوران حتمی سکواڈ کا اعلان کیا جائے گا،ٹریننگ میں 4اوپنرز شریک ہوں گے، اگر شان مسعود پر سلیکٹرز مہربان ہوگئے تو محمد حفیظ کو باہر بیٹھنا پڑ سکتا ہے،اگر روٹیشن پالیسی کے تحت سینئرز کو آرام دیا گیا تو شاہین آفریدی کی سکواڈ میں جگہ بن سکتی ہے،چیمپئنز ٹرافی فائنل میں شکست کے بعد زخم چاٹنے والی بھارتی ٹیم کیساتھ میچ پر دنیا بھر کے شائقین کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔