توہین کی اصل جڑ کیا ہے

عزت دار لوگ ہمیشہ دوسروں کی عزت کرتے ہیں، آپ کسی کی عزت کرتے ہیں

apro_ku@yahoo.com

نیدرلینڈ کے ایک سیاستدان نے حال ہی میں پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کے لیے ایک مقابلے کا اعلان کیا، جب مسلمانوں نے اس مقابلے کو رکوانے کے لیے جان کی بازی لگانے کا کھل کر اعلان کردیا تو اس بدبخت سیاستدان نے اپنی جان کو سخت خطرہ دیکھ کر مقابلے کا پروگرام منسوخ کردیا۔ یہ شخص اس سے پہلے قرآن پاک پر پابندی لگانے، اسلام مخالف فلم بنانے اور مسلمان تارکین وطن کو نیدرلینڈسے نکالنے کے لیے بھی زور لگا چکا ہے۔ یہ شخص اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی موت کے خوف سے مسلح گارڈ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔

عزت دار لوگ ہمیشہ دوسروں کی عزت کرتے ہیں، آپ کسی کی عزت کرتے ہیں تو دوسرا بھی آپ کی عزت کرتا ہے لیکن کوئی کسی کی عزت کو رسوا کرے تو جواب میں اسے کیسے عزت مل سکتی ہے؟ حال ہی میں جب اس عظیم شخص جس کو مائیکل ہارٹ نے دنیا کی سو عظیم شخصیتوں میں اول نمبر پر رکھا اور جس کو مسلمان رحمت اللعالمین ﷺ کہتے ہیں، کی عزت کو کچھ کم کرنے کا منصوبہ اس بدبخت نے بنایا، تووہ خود رسوا ہونے لگا اور دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس بدبخت پر لعنت بھیجنے لگے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے اگر جاگ رہے ہوں تو وہ اپنے ورلڈ ریکارڈ میں اس بدبخت کا ذکر ان لوگوں میں ضرور کریں گے کہ جس پر دنیا کی تاریخ میںسب سے زیادہ تعداد میں لوگوں نے لعنت بھیجی ہوگی۔

توہین کے یہ واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں لیکن اصل قابل غور سوال یہ ہے کہ مغرب میں ایسا رحجان کیوں ہے؟ وہا ں ایسے ملعون افراد بڑی تعداد میں کیوں ہیں؟ آخر کیوں وہ اس عمل کو بڑا جرم نہیں سمجھتے ہیں؟ اس کا جواب مغرب کا وہ نظریہ آزادی ہے جو انھیں یہ سب کچھ کرنے کی نہ صرف چھوٹ دیتا ہے بلکہ ایک انسان کا حق قرار دیتا ہے۔ آئیے اس نظریہ آزادی کا ایک جائزہ لیں جس کے تحت وہ ایسا خبیث کام کرنے کو بھی آزادی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

مغرب اس وقت جس نظریہ آزادی کو اپنائے ہوئے ہے وہ آیازہ برلن (Isaiah Berlen) کا دیا ہوا نظریہ آزادی ہے۔ یہ نظریہ اس نے اپنے مضمون (Two concept of liberty) میں تفصیل سے پیش کیا ہے اور یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ کا نام ''نگیٹیو فریڈم'' اور دوسرے کا نام ''پوزیٹیو فریڈم'' ہے۔ اس نظریے کے مطابق ''نگیٹیو فریڈم'' کے تحت ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی بھی بارے میں 'شر' اور 'خیر' کا تصور قائم کرسکتا ہے اور یہ ہر فرد کا حق ہے اور اس حق سے کوئی اسے محروم نہیں کرسکتا۔ مثلاً ایک شخص شراب پینا اچھا تصور کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں، اب کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو روک نہیں سکتا کہ تم شراب نہ پیؤ کہ ایسا کرنا غلط یا گناہ کا کام ہے۔


اگر دوسرا فرد یہ کام کرے گا تو گویا وہ شراب پینے والے کی آزادی میں مداخلت کر رہا ہے (اور آزادی کے 'پوزیٹیو فریڈم' کے تحت ریاست کا یہ حق ہے کہ وہ مداخلت کرنے والے دوسرے شخص کو ایسا کرنے سے روک دے)، لہٰذا کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ شراب پینے والے کو روکے، البتہ جن کا تصور یہ ہے کہ شراب پینا گناہ کا کام ہے تو انھیں پوری آزادی ہے کہ وہ اس کو برا کام سمجھیں اور خود شراب نہ پیئیں۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مذہبی آدمی مثلاً پادری یا کسی پیغمبر وغیرہ کے بارے میں غلط تصور رکھتا ہے اور اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو اس تصور آزادی کے تحت وہ اس کا اظہار کرنے میںقطعی آزاد ہے اور کوئی دوسرا اس کوروک نہیں سکتا کہ ایسا کرنا اس کی آزادی میں مداخلت کرنا سمجھا جائے گا۔

ایسا ہی کچھ تصور 'جان لاک' نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ''مائی باڈی از مائی پراپرٹی'' یعنی میرا جسم میری ملکیت ہے۔ مغرب اس تصور کو اپنا چکا ہے۔ چنانچہ جب میرا جسم میری ملکیت ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اس پر خدا سمیت کسی کا کوئی حق نہیں، لہٰذا اب میں جو چاہوں کروں۔ یوں دیکھا جائے تو جان لاک اور آیازہ برلن دونوں کے نظریات کے تحت مغرب میں اب ہر فرد اپنے تئیں آزاد ہے کہ جو کسی بھی مہذب مذہبی شخصیت کے بارے میں جو چاہے تصور رکھے، اس کا اظہار کرے اور حتیٰ کہ اس کا مذاق اڑا کر توہین کرے۔

یہ وہ سیکولر نظریات ہیں جو مغرب میں پوری طرح لوگوں کے ذہنوں پر مسلط ہیں اور ان کے نزدیک آپﷺ کی توہین کرنا بھی کوئی جرم نہیں بلکہ 'آزادی اظہار رائے' کا ایک حصہ ہے، جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی بات ماضی میں سابق امریکی صدر اوباما سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان کے ہاں بائبل کے متعلق بھی ہر قسم کے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے اور پوری دنیا کو بھی یہ آزادی دینی چاہیے۔

نیدرلینڈ کا مذکورہ بدبخت شخص بھی اسی عقیدے یعنی سیکولر نظریات کا پیروکار ہے اور خود کو غیر مذہبی کہتا ہے، حالانکہ اس کا گھرانہ کیتھولک عیسائی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس توہین کے پروگرام کے خلاف شدید احتجاج ہوا اور لوگوں نے اس پروگرام کے ملتوی ہونے تک انتہائی سخت احتجاج جاری رکھا، بلاشبہ یہ تمام مسلمانوں کا ملی جذبہ تھا لیکن اہم ترین اور قابل غور نقطہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے پودے کو پنپنے ہی نہیں دینا چاہیے کہ جو آگے جاکر تناور درخت بنے۔ ہمیں مغرب سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے ابھی سے ان نظریات کی نفی کرنی چاہیے جو ایسی آزادی کی طرف جاتی ہو جو آگے جاکر اس قدر گھٹیا اور خطرناک بنیں۔

جان لاک اور آیازیا برلن کے پیش کردہ آزادی کے ان تصورات کو ابھی سے دفن کردینا چاہیے اور اپنی آنے والی نسل کو یہ واضح کردینا چاہیے کہ مغرب کے 'آزادی' اور 'اظہار رائے کی آزادی' کے یہ نعرے مذہب مخالف ہیں، جو بالآخر آپﷺ جیسی عظیم ہستی کی توہین پر جا کر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارے دین میں ایسی کسی آزادی کا کوئی تصور نہیں، یہ صرف اور صرف لبرل معاشروں کی پیداوار ہے جو اپنے معاشروں کو خدا کی مرضی کے بجائے، انسان کی مرضی پر چلا رہے ہیں اور ہمیونزم اور آزادی کے خوبصورت لفظوں میں خدا کی مرضی کو ایک طرف رکھ کر انسان کی مرضی کو لاگو کرتے ہیں اور انسان کو خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ ہمیں ان نظریات کی نفی کرنا ہوگی تاکہ مغرب میں پیدا ہونے والے ایسے بدبخت لوگ ہمارے ہاں پیدا نہ ہوں۔ آیئے برائی کو صرف روکیں نہیں، جڑ سے خاتمہ کریں۔
Load Next Story