دام ہر موج میں ہے

بحیثیت مجموعی اس الیکشن میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے

الیکشن پرامن طور پر منعقد ہوگئے یہ غنیمت ہے مگر یہ شاید دنیا کے واحد الیکشن تھے جو نامکمل مردم شماری کے باوجود منعقد ہوئے۔ جس میں خصوصا کراچی کی آبادی کو بہت کم کرکے دکھایا گیا۔ تاکہ یاروں کی نمایندگی کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ''منی پاکستان'' کے غریب، مسکین، محروم عوام نے جبرا و قیدا اسے بھی قبول کرلیا۔ قومی آمدنی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، اسے نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ چاروں طرف گندگی کے ڈھیر، ٹرانسپورٹ کا ناگفتہ بہ نظام، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، پانی کی کمیابی اور بجلی کی آنکھ مچولی نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ شہر میں انتظامیہ کی ملی بھگت سے کچی آبادیوں کا تناسب 50 سے زیادہ ہوچکا ہے جہاں حالات اور بھی خراب ہیں۔

علاج اور صحت کے مسائل، سرکاری اسپتالوں کی بری حالت اور پرائیویٹ ڈاکٹرز اور اسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ غرض ان تمام حالات کے باوجود عوام نے جس میں نوجوانوں کی اکثریت تھی جو بے روزگاری کا عذاب بھی جھیل رہے ہیں، پرانے چہروں کو رد کرکے نئے چہروں کو پر امن طریقے سے ووٹ ڈالا۔ جب کہ صوبے میں پرانی برسر اقتدار پارٹی نے دیہی علاقوں میں پرانے ہتھکنڈے استعمال کرکے اکثریت حاصل کرلی اور دوبارہ عوام کا خون پینے اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے ان کے سروں پر مسلط ہوگئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی اس الیکشن میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے اور انھوں نے اپنا وزیر اعظم بھی منتخب کرلیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل نے جو توقعات نئی حکومت سے باندھی ہیں وہ پوری ہوسکیں گی؟ جب کہ نئی حکومتی اکثریتی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ ''نیا پاکستان'' بنانے جا رہے ہیں اور وہ موجودہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑیں گے۔

دنیا بھر کے سماجی اور معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا پرانے نظام کو بدلے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ کام صرف خوش نما تحریروں، دل فریب نعروں اور نظام کی خامیوں کو اجاگر کرکے نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اور طویل اور انتھک جدوجہد کے ساتھ ساتھ دور رس پلاننگ کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اس مقام پر پہنچنے میں 22 سال لگا دیے۔ ساری دنیا میں جو پارٹی حکومتی تبدیلی کی دعویدار ہوتی ہے وہ سب سے پہلے اپنی پارٹی کو منظم کرتی ہے۔ مخلص اور ایماندار کارکنوں کی آبیاری کرکے انھیں جدوجہد اور قربانی کے لیے تیار کرتی ہے۔ مختلف سماجی شعبوں میں اصلاحات کے لیے ماہرین کی زیر نگرانی زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرکے ان کا متبادل حل ڈھونڈتی ہے اور کامیابی کے بعد ان حقائق کی روشنی میں تبدیلیاں لاتی ہے۔

لیڈر کی ذاتی ایمانداری عزم و محبت اپنی جگہ مگر ایک مضبوط ٹیم صحیح منصوبہ بندی اور وژن اور مخلص کارکنوں کے بغیر اپنے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں جاگیرداروں، سرداروں، چوہدریوں نے کسانوں کو اس طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ محنتی اور جفا کش ہونے کے باوجود، محکوم اور محروم ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر ان کی کوئی حکومتی نمایندگی موجود نہیں جو ان کے حقیقی مسائل سمجھ کر انھیں حل کرسکے۔ تحریک انصاف بھی دوسری ساری پارٹیوں کے ساتھ اس معاملے میں کوری ہے۔

اب اس پٹواری نظام اور انتظامیہ سے کیسے نمٹ کر ان کا حق دلواتی ہے یہ اس کی صوابدید ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار طبقوں نے جو پیداواری اور صنعتی کارٹل بنا رکھے ہیں جیسے شوگر مافیا، سیمنٹ مافیا اور دیگر صنعتی مافیا سے کیسے نمٹا جائے اور عوام الناس کے لیے جائز قیمتوں کا کیسے تعین کرکے عوام کو ریلیف دیا جائے یہ بھی تحریک انصاف کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کا تعین کرنے میں آڑھتی کا کردار ختم کرنا ہوگا۔ کسان اپنی پیداوار کو ڈائریکٹ مارکیٹ کیوں نہیں کرسکتا اس مفت کی منافع خوری کو بھی ختم کرنا ہوگا۔


نظام تعلیم کی حالت ابتر ہے ایک طرف انگریزی اسکولوں کی اجارہ داری ہے، جس کی ہوش ربا فیسوں نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے ، دوسری طرف گورنمنٹ اسکولوں کی بدترین حالت ہے نصاب کی تبدیلی اور سرکاری اسکولوں کی سرپرستی اور نئے اسکولوں کے قیام سے اور معیار تعلیم کو انگریزی اسکولوں کے برابر لانے سے پرائیویٹ اسکولوں کی کمر توڑی جاسکتی ہے۔

میرٹ کی پامالی اور معاشی ناانصافی نے اخلاقی سماجی اور معاشرتی بیماریوں کو جنم دیا ہے، دہشت گردی اور لاقانونیت اسی کی بائی پراڈکٹ ہیں اور عوام کے مسائل پر اسی وقت قابو پایا جاسکتا ہے جب معاشی طور پر سب کے ساتھ انصاف کیا جائے سب کے حقوق کا احترام کیا جائے اور عوام کے حقیقی مسائل عوام کے ذریعے انھیں حاکم بناکر حل کیے جائیں۔ تحریک انصاف کے زبانی دعوؤں کے علاوہ عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آتا کہ وہ ان گمبھیر مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرسکتے ہیں۔

دوسرا طرفہ تماشا یہ ہے کہ کرپشن کی بیخ کنی کے لیے روز اربوں کھربوں کی داستانیں سننے میں آتی ہے کچھ کو پکڑا بھی گیا ہے سابق نااہل وزیر اعظم اور ان کا خاندان کچھ جیل میں ہے اور کچھ بھاگا ہوا ہے۔ دوسری زرداری پارٹی بھی اس کھیل میں کسی سے کم نہیں اور شاید ان کی لیڈر شپ بھی جیل کی ہوا کھائے مگر اصل سوال یہ ہے کہ جو اربوں کھربوں کی کرپشن ہوئی ہے اور بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئی ہیں اور کچھ ملک میں بھی موجود ہیں اور بلیک منی کا اربوں کھربوں کا حساب کتاب ہو رہا ہے مگر ابھی تک ملکی خزانے میں اس کی ریکوری نہیں ہو رہی جب کہ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے ساتھ بھیک اور دیگر ذرایع سے بھیک ملنے کے آثار ہیں اور باتیں ہو رہی ہیں مگر فوری اور ہنگامی طور پر ایماندار اور ماہر قانون دانوں کی ٹیم بناکر انھیں واپس لانے کے لیے جو ہنگامی بنیاد چاہیے وہ نظر نہیں آرہی جب کہ حالیہ مثال سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی موجود ہیں جنھوں نے بڑی تیزی سے اقدامات کرکے چوری کا پیسہ قوم کے خزانے میں جمع کروایا۔

اس کے علاوہ اس سے پہلے افریقی ممالک اور دیگر اقوام کی مثالیں ہیں جنھوں نے باہر کے ممالک سے قانونی جنگ کے ذریعے لاکھوں کروڑوں ڈالر جو ملک و قوم کو لوٹ کر باہر کے بینکوں میں جمع کیے گئے تھے۔ وہ واپس لے آئے۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ حکومت نے عوام کی توقعات کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ وہ بہرصورت ایک بڑی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور انھیں چھوٹے موٹے کاسمیٹک اقدامات سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا اگر جلد ہی عوام کی اکثریت کو ریلیف نہیں ملا تو اس کا جو خوفناک ردعمل ہوگا، اس کا تصور بھی محال ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام الناس کے حقیقی مسائل پر غور و فکر کے ذریعے جلد ازجلد عملی اقدامات اٹھائے جائیں اورکرپشن کے پیسوں کی ریکوری ہوتی نظر آئے اور ہم معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور اس سلسلے میں درست سمت میں پیش رفت کرسکیں جس سے ہم آنے والی بڑی تباہی سے بچ سکتے ہیں۔

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
Load Next Story